25 اگست 2022 کو کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا جب کولمبیا میں میڈیئین شہر کے آرچ بشپ نے دو سال کی قانونی جنگ کے بعد 36 راہبوں کے نام شائع کیے جو ان جرائم میں ملوث رہے تھے۔ اس فہرست میں اس راہب کا نام بھی شامل ہے جن پر نتالیہ ریسٹریپو کا ریپ کرنے کا الزام ہے۔ نتالیہ نے اپنی آپ بیتی سنائی ہے۔
انتباہ: اس تحریر میں شامل چند تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
’جب میں صرف 14 سال کی تھی ایک راہب نے میرا ریپ کیا اور مجھے حمل گرانے پر مبجور کیا۔‘
25 اگست 2022 کو کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا جب کولمبیا میں میڈیئین شہر کے آرچ بشپ نے دو سال کی قانونی جنگ کے بعد 36 راہبوں کے نام شائع کیے جو ان جرائم میں ملوث رہے تھے۔
اس فہرست کی اشاعت سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہوئی تھی کیوںکہ عدالت نے کولمبیئن صحافی ہوان پابلو کی درخواست منظور کرتے ہوئے چرچ کو حکم دیا تھا کہ عوامی مفاد میں یہ فہرست سامنے لائی جائے۔
اس فہرست میں اس راہب کا نام بھی شامل ہے جن پر نتالیہ ریسٹریپو کا ریپ کرنے کا الزام ہے۔ نتالیہ نے اپنی آپ بیتی سنائی ہے۔
میرا نام نتالیہ ہے۔ میری عمر 32 سال ہے۔ میں حال ہی میں اپنی چھوٹی بیٹی، دو سوٹ کیس اور اس مصمم ارادے کے ساتھ میڈیئین لوٹی ہوں کہ اپنی خاموشی توڑ کر اس راہب کی مذمت کر سکوں جس نے 2004 میں میرا ریپ کیا اور مجھے حمل گرانے پر مجبور کیا تھا جب میں صرف 14 سال کی تھی۔
یہ ماضی کی یاد ہے۔ اس تکلیف دہ کہانی کا جو مجھ پر بیت چکی ہے اور جس کے بارے میں میرا خاندان بھی مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے۔
’مجھے لگا میں خاص ہوں‘
یہ سب شہر کے ایک بڑے خوبصورت چرچ سے شروع ہوا تھا۔ اب اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وقت نے اس پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔
جب میں چھوٹی تھی تو مجھے وہ بچے بہت اچھے لگتے تھے جو راہبوں کے مددگار کرتے تھے۔ مجھے ان کے سفید چوغے بہت اچھے لگتے تھے اور میں نے اپنی نانی سے کہا کہ مجھے بھی ان جیسا بننا ہے۔
جب میں 11 سال کی عمر کو پہنچی، تو میں نے بھی اس کورس میں داخلہ لیا جو راہب کے مددگار بچوں کو آلٹر سروس بننے کے لیے لینا ہوتا ہے۔ ایک سال بعد میں نے چرچ میں راہبوں کی مدد کا آغاز کیا۔
یہ کافی قدامت پسند کیتھولک چرچ تھا۔ مقامی خاندانوں کے لیے یہ فخر کی بات ہوتی تھی کہ ان کا بیٹا یا بیٹی یہاں مذہبی رسومات میں فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
میں بچوں کے مشنری گروپ کا حصہ بھی تھی اور مجھے یہاں گھنٹوں گزارنا پڑتے تھے۔ اسی دوران میری ملاقات ایک ایسے راہب سے ہوئی جو اتوار کی سروس میں ہم سے گیت گوایا کرتے تھے۔
وہ کافی خوش شکل تھے۔ ان کی آواز بھی اچھی تھی اور ان کو گٹار بجانا آتا تھا۔ انھوں نے اتوار کے دن کی عبادت کو لوگوں کے لیے دلچسپ بنا دیا تھا اور اسی لیے وہ کافی جانے جاتے تھے۔
2002 میں ان کو باقاعدہ راہب کا عہدہ مل گیا اور اسی چرچ میں تعینات کر دیا گیا۔ اسی سال مجھے بھی ایکولائٹ کا رتبہ ملا۔ یعنی وہ بچہ جسے راہب کا اسسٹنٹ مانا جاتا ہے۔ یوں مجھے ان کے ساتھ کافی وقت گزارنا پڑتا۔ کبھی کبھار وہ مجھے کمپیوٹر پر ان کی مدد کرنے کا بھی کہتے۔
مجھے لگا میں خاص ہوں۔ مجھے اپنا آپ اہم محسوس ہوا کیوںکہ میری لکھائی بھی خوبصورت تھی اور مجھے پوسٹر بنانے کو کہا جاتا تھا۔
’جو ہوا وہ میری سب سے تکلیف دہ یاد ہے‘
وقت کے ساتھ میں ان کی پسندیدہ ایکولائٹ بن گئی اور چرچ کے باہر بیمار افراد کے پاس بھی ان کے ساتھ جانے لگی۔
ہم ان کی گاڑی میں ہی سفر کرتے اور واپسی پر وہ ہمیشہ مجھے گھر چھوڑ دیتے تھے۔
ایک دن ہفتہ وار یوتھ گروپ کی ملاقات کے بعد انھوں نے مجھے شہر کے ایک معروف کلب میں اپنے ساتھ چلنے کو کہا جس کے بعد وہ مجھے ایک ریسٹورنٹ لے کر گئے جہاں بھنا ہوا گوشت بیچا جاتا تھا۔
ہم تقریباً ایک گھنٹا وہاں رُکے، ہم نے کھانا کھایا۔ پھر ہم گاڑی میں بیٹھے لیکن اس بار وہ مجھے گھر نہیں لے کر گئے بلکہ ایک موٹل پہنچ گئے جو اب بھی موجود ہے۔
میں نے سوال کیا فادر آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟
انھوں نے جواب دیا تاکہ کوئی ہمیں دیکھ نہ سکے کیوں کہ راہب کا شراب پینا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
میں جانتی تھی کہ وہ شراب نوشی کرتے ہیں اس لیے میں پرسکون رہی۔ ویسے بھی مجھے ان پر اعتماد تھا۔ میں بہت عرصے سے ان کو جانتی تھی اور انھوں نے مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس موٹل میں کیبن نما کمرے تھے اور ہر کمرے کے ساتھ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ تھی۔ ہم ایک لوہے کے دروازے کو پار کرنے کے بعد گیراج میں داخل ہوئے جس کے اندر ایک کمرہ اور باتھ روم تھا۔
کمرے میں جانے کے بعد انھوں نے بہت زیادہ شراب نوشی کی اور پھر میرے کپڑے اتارنے کی کوشش کی۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔
مجھے سیکس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا کیوں کہ ہمارے گھر میں تو یہ ممنوعہ موضوع تھا۔
اس نے مجھے کہا میں تمھیں بوسہ دینا چاہتا ہوں، مجھے تم سے محبت ہے، تم بہت خوبصورت ہو، میں چاہتا ہوں تم میری ہو جاؤ۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے میری بات نہیں سنی۔ یہی وقت تھا جب مجھے خوف محسوس ہونا شروع ہوا۔
میں نے دروازے کو کھٹکھٹانا شروع کر دیا تاکہ کوئی میری مدد کرے لیکن اس نے مجھے کہا کہ میری آواز کوئی نہیں سن سکتا کیوںکہ استقبالیہ کافی دور ہے۔
اس کے بعد جو ہوا وہ میری سب سے تکلیف دہ یاد ہے۔ اس نے اپنی پتلون اتار کر مجھے بستر پر دھکیلا اور میری ٹانگیں کھول کر میرا ریپ کیا۔
وہ منظر اب بھی میرے ذہن میں نقش ہے اور اسی لمحے سے میرے اندر نفرت جنم لیتی ہے۔ اس وقت اگرچہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا لیکن ایسا محسوس ہوا جیسے وقت رک گیا ہو۔
میں درد سے چلا رہی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ سب کب ختم ہوا لیکن میں نے رونا شروع کر دیا تھا۔ اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے مجھے کہا کہ میں اب اس کی ہوں اور ہمیشہ اسی کی رہوں گی۔
میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا کیوںکہ مجھے لگا کوئی میری بات پر یقین نہیں کرے گا۔ ایک 14 سالہ لڑکی پر کون یقین کرتا کہ شہر کے سب سے بڑے چرچ کے معزز راہب نے میرے ساتھ یہ سب کیا تھا؟
’ وہ مجھ پر چلاتا تھا کہ میں اس دوائی کو استعمال کروں‘
ریپ کے اس واقعے کے بعد ایک بار پھر ایسا ہی ایک واقعہ ہوا۔ یہ اس ریکٹری میں ہوا جہاں وہ راہب رہتا تھا۔ اس نے مجھے ایک کمرے میں بند کیا اور میرے سامنے مشت زنی کرنے لگا۔
شاید میرے ساتھ یہ سب ہوتا رہتا لیکن کچھ ایسا ہوا جس نے سب کچھ بدل دیا: میری ماہواری بند ہو گئی۔ دو سال پہلے مجھے ماہواری آنا شروع ہو چکی تھی اور اسی لیے میں جانتی تھی کہ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔
میں نے تفصیلات بتائے بغیر ایک دوست سے بات کرنے کا فیصلہ کیا جس نے مجھے پیشاب کا ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا۔ تاہم اس ٹیسٹ کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا جس کے بعد میں نے ایک لیبارٹری سے خون کا ٹیسٹ کروانے کا ارادہ کیا۔
جب مجھے پتہ چلا کہ میں حاملہ ہوں تو میں نے راہب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت غصہ ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھے اس کا کیریئر برباد نہیں کرنے دے گا۔
پھر وہ مجھے ایک جگہ کسی خاتون کے پاس لے کر گیا۔ ان دونوں نے آپس میں بات چیت کی جس کے بعد اس خاتون نے میرا جائزہ لے کر کہا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ شاید اس کا مطلب تھا کہ ابھی کچھ کرنا جلد بازی ہو گی۔
پھر ہم ایک فارمیسی پر گئے جہاں اس نے دکاندار کو کچھ پیسے دیے اور پھر مجھے کچھ دوائیاں دے کر بتایا کہ مجھے ان کو کھانا ہو گا لیکن ان سے بہت درد ہو گا۔
اس نے مجھے کہا کہ اس سے ماہواری دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ اس نے مجھے اسقاط حمل کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
میں نے بہت دن تک اس بارے میں بات نہیں کی کیوںکہ میں خوفزدہ تھی۔ لیکن اس نے مجھ پر دباؤ ڈالا۔ وہ مجھ پر چلاتا تھا کہ میں اس دوائی کو استعمال کروں۔
دوائی کھانے کے بعد ایک دن صبح مجھے شدید درد ہوا اور خون کے لوتھڑے نکلنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے مجھے باتھ روم جانا پڑا۔ چند دن تک درد ہوتا رہا تو میں نے کلینک جانے کا فیصلہ کیا۔
وہاں مجھے علم ہوا کہ کیا ہوا ہے کیوںکہ انھوں نے اسقاط حمل کے بعد میرے جسم میں باقی رہ جانے والا مواد نکالا۔
میں چاہنے کے باوجود اس راز کو راز نہیں رکھ پائی۔ اس کیلنک پر میرے ایک عزیز کا جاننے والا تھا جس نے ان کو سب کچھ بتا دیا۔ وہ فوراً کلینک پہنچے اور انھوں نے مجھ پر غصہ کرتے ہوئے کہا تم کیسے حاملہ ہو گئی اور حمل گروا بھی دیا، تم جانتی ہو کہ کس کا بچہ تھا؟
میں گھر پہنچی تو وہ میری نانی کو بھی بتا چکا تھا۔ لیکن میں نے انکار کیا اور کہا میں کسی اور وجہ سے کلینک گئی تھی۔
اس کے بعد میں نے نانی سے اس موضوع پر بات نہیں کی۔
’میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے کیے کی سزا پائے‘
بہت سال بعد میں نے چرچ کے مقامی دفتر میں شکایت کرنے کی ہمت کی۔ مجھ سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ میں جانتی تھی کہ چرچ بااثر ہے۔ مجھے اسقاط حمل کی وجہ سے بھی احساس جرم ہو رہا تھا کیوں کہ میں جانتی تھی کہ یہ گناہ ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک راہب ہاتھ میں نوٹ بک تھامے میری شکایت لکھ رہا تھا۔ بعد میں اس نے میرے کندھے پر تھپکی دی اور مجھے درگزر کرنے کا کہا کہ وہ مرد ہیں اور ان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔
میری شکایت پر کچھ نہیں ہوا۔ مجھ سے کسی نے رابطہ تک نہیں کیا۔
اس دوران میں نے چرچ سے دوری اختیار کر لی تھی۔ میں نے فارمیسی کی پڑھائی مکمل کی لیکن میں کہیں دور جانا چاہتی تھی جہاں مجھے کوئی جانتا نہ ہو۔
2014 میں 24 سال کی عمر میں چلی پہنچنے کے بعد میری ملاقات میرے ہونے والے شوہر سے ہوئی اور پھر ہماری ایک بیٹی ہوئی۔
اسی وقت میں نے پہلے بار کیتھولک راہبوں کے خلاف بچوں کے جنسی استحصال کے الزامات کے بارے میں سنا۔
تب میں نے سوچا کہ میں بھی اتنے سال بعد اپنے اوپر بیتنے والے واقعے کی شکایت کیوں نہ درج کرواؤں۔
میں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا جس شخص نے میرا ریپ کیا تھا وہ ایک اور چرچ میں کام کر رہا تھا۔ اس سفر پر روانہ ہونے کے لیے شاید مجھے یہی سننا تھا۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود وہ شخص کیسے معزز بنا رہ سکتا تھا۔
میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے کیے کی سزا پائے۔ لیکن عارضی سزا یا معطلی کی شکل میں نہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے جرائم کی وجہ سے جیل جائے گا۔
جب میں نے واپس جانے کے بعد ایک بار پھر چرچ والوں سے پوچھا کہ میری پہلی شکایت پر کیا کارروائی ہوئی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے ایک بار پھر شکایت درج کروانے کا فیصلہ کیا۔
30 اگست 2022 کو آگزلری بشپ مونسیور ہوزے ماریسو ویلیز نے میری شکایت سنی اور سب کچھ ایک کمپیوٹر پر درج کیا۔ پھر انھوں نے اسے باآواز بلند پڑھا تاکہ میں جان لوں کہ کیا لکھا گیا ہے۔
آخر میں انھوں نے میرے بیان پر دستخط کروائے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ کافی سنجیدہ شکایت ہے۔ اس کی تفتیش ذمہ داری سے کرنا ہو گی۔
ستمبر 2022 میں، میں نے کولمبیا کے حکام کو بھی شکایت درج کروائی۔ میں تقریبا ڈیڑھ ماہ تک اس شہر میں رہی اور پھر چلی واپس لوٹ گئی۔ عدالتوں اور حکام کے سامنے بیانات ریکارڈ کروانے کے بعد روزمرہ زندگی میں لوٹنا آسان نہیں تھا۔
میرے ساتھ جو ہوا، اس نے مجھے زخم دیے جن کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ میری نفسیاتی اور جسمانی صحت متاثر ہوئی۔
میرے لیے سیکس ایک مشکل چیز ہے۔ ہر بار مجھے اسی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اور میرے ریپ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ میں آنکھیں بند کرتی ہوں، سانس لیتی ہوں، کوشش کرتی ہوں کہ اس کے بارے میں نہ سوچوں لیکن ایسا لگتا ہے وہ وقت میرا پیچھا کر رہا ہے۔
جب میں اپنی بیٹی کے ساتھ حاملہ ہوئی تو وہ وقت بھی میرے لیے کافی مشکل تھا کیوںکہ مجھے یہ احساس جرم ہوتا تھا کہ میں نے ایک زندگی کو جنم دیا تھا اور پھر اسے کھو دیا تھا۔
میں سوچتی تھی کہ اگر اس وقت میری اولاد ہوتی تو اب کتنی بڑی ہوتی۔
میں نہیں جانتی کہ ایک راہب اتنا بڑا جرم کرنے کے بعد کیسے کام جاری رکھ سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ یہ لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اکثر جن لوگوں پر الزام ہوتا ہے انھیں چھوٹے شہر بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کو کوئی نہیں جانتا۔
لیکن یہ سوچ کر مجھے غصہ آتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ اسی لیے میں نے خاموشی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ مضمون اور اس کے ساتھ تصاویر میرے بچپن اور نوجوانی کے وقت تک لوٹنے والے تکلیف دہ سفر کا آخری سٹاپ ہے۔
بی بی سی کی تحقیق
بی بی سی منڈو نے پانچ ماہ تک نتالیا کے کیس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
متعدد فون کالز، ای میلز اور ایک عدالتی فیصلے کے بعد میڈیئین کے آرچ ڈیوسس نے ہمارے سوالات کا تحریری جواب دینے کی حامی بھری۔
انھوں نے دو شکایت کی موجودگی کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہ جب پہلی شکایت درج کروائی گئی، اس وقت ایسا کوئی نظام موجود نہ ہونے کے باوجود چند گواہان کو سنا گیا اور مذید شواہد وصول ہونے تک تفتیش کو روک دیا گیا۔ تاہم 2022 میں جاری ہونے والی فہرست میں درج ہے کہ اس کیس پر تفتیش جاری ہے۔
نتالیا کی دوسری شکایت کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اس پر دو راہب تفتیش کر رہے ہیں جو 2019 میں چرچ کی جانب سے طے شدہ قوائد کے تحت جاری ہے۔
بی بی سی کی جانب سے اس راہب کا موقف جاننے کی بھی کوشش کی گئی جن پر نتالیا نے ریپ کا الزام لگایا ہے تاہم ایسی تمام کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
بی بی سی منڈو کو کولمبیا کے پراسیکیوٹڑ دفتر سے بھی جواب لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جس کے بعد انھوں نے نتالیا کی شکایت موصول ہونے کی تصدیق کی۔
انھوں نے واضح کیا کہ کولمبیا میں جن راہبوں کی فہرست شائع ہوئی ہے ان میں سے پانچ وفات پا چکے ہیں جبکہ 13 کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان میں وہ راہب بھی شامل ہیں جن پر نتالیا نے الزام عائد کیا ہے۔
دیگر 28 میں سے پانچ کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہے جب کہ تین کو سزا ہو چکی ہے اور باقی کی تفتیش جاری ہے۔
کچھ وقت کے بعد نتالیا کو پراسیکیوٹر کے دفتر سے جواب موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ ان کی شکایت میں جو واقعات بتائے گئے وہ اٹھارہ سال پہلے پیش آئے اس لیے قانونی طور پر ان کی تفتیش نہیں کی جا سکتی۔