آسٹریلوی میڈیا نے مسلح حملہ آوروں کی شناخت 50 سالہ باپ ساجد اکرم اور 24 سالہ بیٹے نوید اکرم کے ناموں سے کی ہے۔ آسٹریلیا کے وزیرِ داخلہ ٹونی برک کا کہنا ہے کہ پولیس کے ساتھ فائرنگ میں مارا جانے والا 50 سالہ حملہ آور ساجد اکرم 1998 میں بیرونِ ملک سے سٹوڈنٹ ویزا پر آسٹریلیا آیا تھا۔
دونوں حملہ آور بونڈائی ساحل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع جنوب مغربی سڈنی کے علاقے بونی رگ کے رہائشی ہیں’کیا وہ پاکستان سے تھے؟‘
آسٹریلیا کے وزیرِ داخلہ ٹونی برک بونڈائی ساحل پر شناخت کیے جانے والے حملہ آوروں کے بارے میں معلومات دے رہے تھے جب ایک صحافی نے ان سے یہ سوال کیا۔
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس مرحلے پر نیو ساؤتھ ویلز پولیس اس تحقیقات کی سربراہی کر رہی ہے۔ مجھے اس موقع پر ویزا کی تاریخ پر بات کرنے کی اجازت ملی ہے، جو میں نے کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ آسٹریلوی حکام نے اب تک یہ ظاہر نہیں کیا ہے کہ آیا ساجد اور نوید اکرم کا تعلق کسی دوسرے ملک سے تھا مگر بونڈائی ساحل پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سے آسٹریلیا کے مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بحث جاری ہے۔
آسٹریلوی میڈیا نے مسلح حملہ آوروں کی شناخت 50 سالہ باپ ساجد اکرم اور 24 سالہ بیٹے نوید اکرم کے ناموں سے کی ہے۔
آسٹریلیا کے وزیرِ داخلہ ٹونی برک کا کہنا ہے کہ پولیس کے ساتھ فائرنگ میں مارے جانے والا 50 سالہ حملہ آور ساجد اکرم 1998 میں ’بیرونِ ملک سے سٹوڈنٹ ویزا پر آسٹریلیا آیا تھا۔‘
آسٹریلوی وزیر کا کہنا ہے کہ 2001 میں ’اس نے پارٹنر ویزا حاصل کیا تھا۔‘ برک کا کہنا تھا کہ ساجد اکرم کو تین بار ریزیڈنٹ ریٹرن ویزے جاری کیے گئے تھے۔
دوسرا حملہ آور یعنی ساجد کا 24 سالہ بیٹا نوید اکرم زیرِ حراست ہے اور ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ ٹونی برک کے مطابق ’وہ آسٹریلیا میں ہی پیدا ہوئے اور ان کے پاس آسٹریلیا کی پیدائشی شہریت تھی۔‘
’نوید اکرم چھ سال قبل حکام کی نظروں میں آئے تھے‘
آسٹریلیا کے سرکاری نشریاتی ادارے اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق چھ برس قبل آسٹریلیا کی مقامی انٹیلیجنس ایجنسی اے ایس آئی او نے بونڈائی ساحل پر حملہ آور نوید اکرم کے سڈنی میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے ایک سیل سے تعلق کا جائزہ لیا تھا۔
اے بی سی کے مطابق ریاست اور وفاق کی ایجنسیوں پر مشتمل ایک مشترکہ انسداد دہشتگردی ٹیم (جے سی ٹی ٹی) کو معلوم ہوا تھا کہ حملہ آور نے نام نہاد دولت اسلامیہ سے اپنی وفاداری ظاہر کی تھی۔
اے بی سی کے مطابق سینیئر اہلکاروں نے کہا ہے کہ بونڈائی ساحل پر حملہ آور کی کار سے نام نہاد دولت اسلامیہ کے دو پرچم بھی ملے ہیں۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پرچم کار کے بونٹ پر ہے۔
جے سی ٹی ٹی کے اہلکار نے اے بی سی کو بتایا کہ اے ایس آئی او نے چھ برس قبل نام نہاد دولت اسلامیہ کے ایک حملے کو ناکام بنایا تھا اور اسی دوران انھوں نے نوید اکرم میں دلچسپی لی تھی۔
وزیراعظم انتھونی البنیز نے تصدیق کی ہے کہ اے ایس آئی او نے اکتوبر 2019 کے دوران چھ ماہ تک نوید اکرم کے بارے میں تحقیقات کی تھیں مگر اس وقت ’انھیں خطرہ نہیں سمجھا گیا تھا۔‘
ایک سکیورٹی اہلکار نے اے بی سی کو بتایا کہ نوید اکرم مطاری نامی شخص سے قریبی تعلق رکھتے تھے جو کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے خود ساختہ کمانڈر تھے اور حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انھیں سات سال قید کی سزا ہوئی تھی۔
اے ایس آئی او کے ڈائریکٹر جنرل مائیک برگیز کا کہنا تھا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک کے بارے میں ایجنسی کو پہلے سے معلوم تھا۔
دریں اثنا اے بی سی نے تصدیق کی ہے کہ نوید اکرم نے ایک سال تک مغربی سڈنی میں واقع المراد انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی۔ اس ادارے نے حملے کی مذمت کی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ آدم اسماعیل نے اے بی سی کو بتایا کہ نوید نے 2019 کے اواخر میں ادارے سے رابطہ کیا کہ وہ قرآن کی تلاوت اور عربی کلاسز لینا چاہتے ہیں اور ایک سال تک اس ادارے میں انھیں کلاسز دی گئی تھیں۔
پیر کی صبح نیو ساؤتھ ویلز پولیس کمشنر نے بتایا کہ ساجد اکرم کے پاس گذشتہ 10 برس سے اسلحے کے لائسنس تھےساجد اکرم کے پاس اسلحے کے لائسنس تھے
پیر کی صبح نیو ساؤتھ ویلز پولیس کمشنر نے بتایا کہ ساجد اکرم کے پاس گذشتہ 10 برس سے اسلحے کے لائسنس تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے پاس اسلحے کے چھ لائسنس تھے۔ ہم مطمئن ہیں کیونکہ ہمیں گذشتہ روز جائے وقوعہ سے چھ بندوقیں ملی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ساجد اکرم اسلحے کے لائسنس حاصل کرنے کے اہل تھے اور اتنے برسوں تک کوئی واقعہ نہیں ہوا اور یہ کہ لائسنس دینے کا تمام عمل نگرانی میں کیا جاتا ہے۔
ملزمان کے گھر چھاپہ
بی بی سی کی نمائندہ کیٹی واٹسن کے مطابق دونوں حملہ آور بونڈائی ساحل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع جنوب مغربی سڈنی کے علاقے بونی رگ کے رہائشی ہیں۔
حکام کے مطابق حملہ آور نے بونڈائی ساحل سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع کیمپسی نامی علاقے میں کرایے کا گھر حاصل کیا تھا، جو کہ اے بی سی کے مطابق ایئر بی این بی پراپرٹی تھی۔
جب اے بی سی کے نامہ نگاروں نے اتوار کی شب بونی رِگ میں نوید کی والدہ ونیرا اکرم سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’میں کچھ نہیں بولوں گی جب تک پولیس یہاں نہیں آتی۔‘
کیٹی واٹسن نے کیمپسی میں ایک سنگل سٹوری عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کا خیال ہے کہ یہی وہ گھر ہے جہاں حملہ آوروں نے اس حملے کی تیاری کی تھی اور وہ یہاں کچھ ہفتے قبل ہی منتقل ہوئے تھے۔
کیٹی واٹسن کے مطابق سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار علاقے میں لوگوں سے بات کر رہے ہیں کہ آیا انھیں کچھ معلوم ہے۔
جبکہ بونی رگ میں ساجد اور نوید کے پڑوسیوں نے حیرت ظاہر کی ہے۔
لیماناتوا فاتو اس مکان کے سامنے والے گھر میں رہتی ہیں جہاں دونوں حملہ آور رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بی بی سی کی نمائندہ کیٹی واٹسن سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیٹی نے انھیں چیخ کر کہا کہ ’ماں باہر دیکھو۔‘
فاتو نے بتایا کہ انھوں نے علاقے میں باہر بہت سارے پولیس اہلکار اور گاڑیاں دیکھی تھیں۔ ’وہ لاؤڈ سپیکر پر انھیں باہر آنے کا کہہ رہے تھے۔ پھر میں نے خبر دیکھی - میں نے سوچا اوہ میرے خدایا، یہ وہ نہیں ہو سکتے۔‘
فاتو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اکثر نوجوان حملہ آور کو گھر سے باہر آ کر کوڑا پھینکتے دیکھا تھا۔ ’ہم یہاں عام لوگوں کی طرح رہتے ہیں، یہ ایک اچھا علاقہ ہے۔‘
آسٹریلوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اکرم خاندان کے گھر کے قریب رہنے والی پڑوسن نے بتایا کہ وہ ’عجیب لوگ تھے۔ کسی کو ہیلو نہیں کہتے تھے۔‘
جب انھیں یہ علم ہوا کہ انھی کے پڑوسی حملہ آور تھے تو ان کے مطابق ’یہ ہمارے لیے خوفناک ہے۔‘
’نوید اکرم کو شکار کا شوق تھا‘
آسٹریلوی اخبار سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے مطابق نوید اینٹیں لگانے والے مزدور ہیں جبکہ ان کے والد ساجد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ نوید اکرم کی نوکری قریب دو ماہ قبل ختم ہوئی تھی جب ان کی کمپنی دیوالیہ ہو گئی تھی۔
اخبار گارڈیئن کی رپورٹ کے مطابق ایک آجر نے بتایا کہ انھوں نے نوید کو چھ سال قبل نوکری پر رکھا تھا اور وہ ہمیشہ محنتی تھے اور نوید نے ’کبھی چھٹی نہیں لی۔‘
’چند ماہ پہلے نوید نے کہا کہ باکسنگ کرتے ہوئے کلائی ٹوٹ گئی ہے اور وہ 2026 تک کام نہیں کر سکے گا۔‘ اس نے اپنی تمام واجبات اور سالانہ چھٹی کی رقم مانگی جو آجر نے ادا کر دی۔
آجر نے کہا کہ نوید خاموش طبیعت کا تھا۔ ’کام کے بعد کسی سے میل جول نہیں رکھتا تھا اور مذہب پر بات نہیں کرتا تھا۔‘
نوید کے کچھ ساتھیوں نے بتایا کہ ان کے والدین علیحدہ ہو گئے تھے اور وہ والد کے قریب تھا۔ آجر نے یہ دعویٰ مسترد کیا کہ نوید نے نوکری کھو دی تھی بلکہ ’وہ چاہتے تھے کہ نوید واپس آئے کیونکہ وہ اچھا کاریگر تھا۔‘
ایک سابق ساتھی نے نوید کو ’عجیب‘ مگر ’محنتی` قرار دیا اور بتایا کہ اسے شکار کا شوق تھا۔ ’اس نے خرگوش اور دیگر شکار کے بارے میں بات کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ وہ کروک ویل کے علاقے میں شکار کرتا تھا۔‘
یہ بھی غیر مصدقہ دعویٰ ہے کہ نوید کسی شکار کلب کا رکن تھا کیونکہ اس کے بٹوے سے ایک کارڈ کی تصویر سامنے آئی ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔