بائیجو کا کبھی دنیا کے سب سے قابل قدر ایجوکیشن ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس میں شمار ہوتا تھا اور یہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران سرمایہ کاروں کو انتہائی عزیز ہوا کرتا۔ لیکن اب حالیہ مہینوں کے دوران اس کی قدرو قیمت میں ڈرامائی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔

بائیجو کا کبھی دنیا کے سب سے قابل قدر ایجوکیشن ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس میں شمار ہوتا تھا اور یہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران سرمایہ کاروں کو انتہائی عزیز ہوا کرتا۔ لیکن اب حالیہ مہینوں کے دوران اس کی قدرو قیمت میں ڈرامائی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کے آپریشن کو دھچکہ پہنچا ہے جس کی وجہ سے اسے مالیاتی نقصان بھی ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ دھچکہ انڈیا میں سٹارٹ اپس کی کانٹے کی دوڑ میں ضروری اصلاح کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
ایک آزاد کارپوریٹ گورنینس ریسرچ اور ایڈوائزری فرم کے سربراہ شری رام سبرامنیم کہتے ہیں کہ ’بائیجو ایک کمپنی ہے جس نے بہت جلد اور بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔‘
سنہ 2011 میں قائم ہونے والی کمپنی بائیجو نے سنہ 2015 میں اپنی سیکھنے کی ایپ شروع کی اور تین سال کے اندر ہی سنہ 2018 تک اس کے ڈیڑھ کروڑ سبسکرائبرز بن گئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایک بڑی کمپنی بن گئی جس کی مالیت ایک ارب ڈالر لگائی گئی۔
کووڈ 19 کی وبا کے دوران اس میں کافی حد تک مزید توسیع ہوئی کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلبا نے آن لائن کلاسز کا رخ کیا۔ لیکن سنہ 2021 میں اس نے 32 کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر کے نقصان کا اعلان کیا جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 17 گنا زیادہ تھا۔
اس کے بعد سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ اس بڑی کمپنی غیر معمولی گراوٹ شروع ہو گئی اور گذشتہ سال اس کی مالیت جہاں 22 ارب ڈالر تھی وہیں اس کمپنی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والی اور شیئر ہولڈر کمپنی پورس این وی کے مطابق رواں سال اس کی مالیت کم ہو کر پانچ اعشاریہ ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے۔
کمپنی نے اس متعلق بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
مسٹر سبرامنیم کا کہنا ہے کہ ’وبا کے بعد جب بچے سکولوں میں واپس جانے لگے تو اس میں گراوٹ ہونا ہی تھی۔ لیکن بائیجو ترقی کرتی رہی اور سرمایہ کار اس میں پیسہ لگاتے رہے۔ انھیں اس بات کے آثار نظر نہیں آئے کہ اس کاروبار میں مندی آ سکتی ہے۔‘
چھوٹے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والی دولت مند کاروباری انیرودھ مالپانی، بائیجو کے کاروباری ماڈل کے ناقد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کمپنی کی ’قدر‘ اور ’سرمائے‘ میں بڑا فرق ہے۔
کووڈ وبا کے دوران تیزی سے بڑھنے کے ساتھ بائیجو نے سنہ 2021 میں دوسری ایجوکیشن کمپنیوں کو حاصل کرنے کی مہم شروع کردی اور اس نے وائٹ ہیٹ جونیئر، آکاش، ٹاپر، ایپک اور گریٹ لرننگ جیسے سٹارٹ اپس اور کمپنیوں کو خرید لیا۔
اس نے جلد ہی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے پلیٹ فارم پے ٹی ایم کو پیچھے چھوڑ دیا اور انڈیا کی سب سے قیمتی اسٹارٹ اپ کمپنی بن گیا۔
2018 میں بائیجوز کی مالیت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر لگایا گیا تھا بائیجو نے اپنی مارکیٹنگ میں لاکھوں لوگوں کو شامل کر لیا جن میں بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان اور فٹبال سٹار لیونل میسی بھی اس کے برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر شامل ہیں۔ یہ انڈین کرکٹ ٹیم کا مرکزی سپانسر اور 2022 فیفا ورلڈ کپ کا باضابطہ سپانسر بن گیا۔
لیکن حالیہ مہینوں میں کمپنی کو شکایات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سے والدین اس پر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انھیں ایسے کورسز خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں جس کے اخراجات وہ برداشت نہیں کر سکتے اورپھر وعدہ کی گئی خدمات بھی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ بعض نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ فرم نے صارفین کا استحصال کرنے کے لیے شکاری طریقوں کا استعمال کیا ہے۔
بائیجو کے سابق ملازمین نے زیادہ دباؤ والے سیلز کلچر اور غیر حقیقی اہداف رکھنے کی شکایت کی ہے۔ دوسری جانب فرم نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے گذشتہ سال ہزاروں ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔
بائیجوز نے والدین اور سابق عملے کی طرف سے اس پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم اسے حکومت کی جانب سے بھی تحقیقات کا سامنا ہے۔
رواں سال اپریل میں بنگلورو میں کمپنی کے دفتر پر انڈین حکام نے غیر ملکی کرنسی کے قوانین کی مشتبہ خلاف ورزیوں کے لیے چھاپہ مارا تھا۔ کمپنی نے کسی غلط کام کرنے کی تردید کی ہے اور اپنے ملازمین کو یقین دلایا کہ اس نے قوانین کی مکمل پیروی کی ہے۔
مئی کے مہینے میں کمپنی کو قرض فراہم کرنے والوں نے امریکی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں اس پر ادائیگیوں میں ڈیفالٹ اور قرض کے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔
اس کے ساتھ انھوں نے مالیاتی گوشوارے جاری کرنے میں مہینوں کی تاخیر کی بھی شکایت کی ہے۔ قرض دہندگان نے کمپنی پر امریکہ میں قائم اپنی ذیلی کمپنی الفا کے ذریعے رقوم کی منتقلی کا بھی الزام لگایا ہے لیکن بائیجو نے اس کی تردید کی ہے۔
کمپنی نے گزشتہ ایک سال میں ہزاروں ملازمین کو نوکری سے نکالا ہےجون میں مبینہ طور پر تقریباً 40 ملین ڈالر سود کی ادائیگی نہ کر سکنے کے بعد بائیجو نے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے پر قرض دہندگان پر مقدمہ دائر کر دیا۔
اس کے بعد اس نے تقریباً ایک ہزار ملازمین کو برطرف کرتے ہوئے برطرفی کا ایک اور دور شروع کردیا۔ اس کے اپنے آڈیٹرز کی جانب سے بھی مزید پریشانیاں اس کی منتظر تھیں۔
ڈیلوائٹ ہیسکنس اور سیلس ایل ایل پی نے بائیجو کے مالیاتی گوشوارے جمع کرانے میں تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے کمپنی کے آڈیٹرز کے طور پر استعفیٰ دے دیا۔
آڈیٹرز نے کہا کہ اس بات نے کمپنی کے حساب کتاب کا اندازہ لگانے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ اس کے بعد فوراً یہ خبر آئی کہ اس کے بورڈ کے تین ممبران نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے، جس کے بعد صرف کمپنی کے سی ای او بائیجو رویندرن، ان کی اہلیہ دیویہ گوکل ناتھ اور بھائی ریجو رویندرن ہی بورڈ میں بچ گئے ہیں۔
اب یہ سٹارٹ اپ مبینہ طور پر اپنے قرضوں کو دوبارہ ریسٹریکچر کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔
ایسی خبریں بھی ہیں کہ رواں ہفتے شیئر ہولڈرز کی میٹنگ میں سی ای او کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن کمپنی کے دو سرمایہ کاروں نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
ایک سیریل انٹرپرینیور اور اینجل انویسٹر کے گنیش جنھوں نے انڈیا کے سب سے بڑے آن لائن گروسرز بگ باسکٹ کی بنیاد رکھی ہے کا کہنا ہے کہ ’بائیجو اپنے آپ کو اپنی سائز کی کمپنی کے متوقع معیار کے مطابق رکھنے میں ناکام رہی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ مالیاتی گوشوارے داخل کرنے میں تاخیر ’ناقابل قبول اور ناقابل فہم‘ ہیں۔
مسٹر گنیش نے کہا کہ ’زیادہ تر سیکٹر جنھوں نے وبائی امراض سے فائدہ اٹھایا اور تیزی سے پھیلے اب سرد مہری کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ معمول پر واپسی ان کی توقع سے زیادہ سخت رہی ہے۔ یہ بات ایڈ ٹیک شعبے کی تمام کمپنیوں کے لیے درست ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ وبائی امراض کے دوران اس شعبے کی صلاحیت کو بہت زیادہ سمجھا گیا تھا۔
ڈاکٹر مالپانی کا کہنا ہے کہ ’ٹیکنالوجی اپنے آپ ہمیشہ کام نہیں کرے گی۔ آپ کو بچوں کے لیے محفوظ جگہ کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے جہاں بالغوں کی نگرانی ہو اور برابری کے لوگوں کے ساتھ سیکھنے کی سہولت ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بائیجوز بنیادی طور پر ہارڈ ویئر فروخت کر رہا تھا، جیسے کہ اس کے ٹیبلٹس جو کہ مطالعہ کے مواد کے ساتھ مفت میں آن لائن مل سکتے ہیں۔‘

گنیش کہتے ہیں کہ سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالیت کا جو اندازہ کورونا وبا کے دوران لگایا گیا وہ غیر حقیقی تھا اور اب حقیقی سطح پر تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بائیجوز اس وقت دوراہے پر ان کمپنیوں کے نقصان دہ بورڈ کی وجہ سے ہے جو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔
’جب ان کمپنیوں کے مینیجر، بانی اور سرمایہ کار اپنا اپنا مفاد دیکھیں گے تو کمپنی کے مفاد کو محفوظ کرنے والا کوئی باقی نہیں بچتا۔ یہ ان عوامی طور پر لسٹ ہونے والی کمپنیوں سے مختلف ہوتا ہے جن کو ضوابط کے تحت آزادانہ بورڈ آف ڈائریکٹرز بنانا ہوتا ہےاور آزادانہ آڈٹ کمیٹی رکھنی ہوتی ہے۔‘
متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک مخصوص سطح تک پہنچ جانے کے بعد سٹارٹ اپ کمپنیوں کو بھی عوامی طور پر لسٹڈ کمپنیوں کی طرز پر کام کرنے کا کہا جانا چاہیے۔
گنیش اور شری رام کا کہنا ہے کہ بائیجوز اب بھی اپنےغلط اقدامات کا اعتراف کر لے اور فوری طور پر چند اقدامات اٹھانے کا اعلان کرے تو اپنی سمت درست کر سکتی ہے۔
لیکن ڈاکٹر مالپانی سمجھتے ہیں کہ اس کمپنی نے اب تک ایسا کرنے کی نیت نہیں دکھائی۔
شری رام کا کہنا ہے کہ ان کو چاہیے کہ زیادہ سےزیادہ کیش بچا کر رکھیں اور اخراجات کم کریں جس کے لیے نوکریاں ختم کرنا کافی نہیں، ان کو کاروبار کا کچھ حصہ بھی بیچنا پڑے گا تاکہ سرمایہ اکھٹا کر سکیں۔
بائیجوز نے ستمبر تک 2022 اور دسمبر تک 2023 کا آڈٹ مکمل کرنے کا وقت رکھا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بائیجوز کی موجودہ صورت حال سے انڈیا میں سٹارٹ اپ کمپنیوں کے نظام کو قلیل المدتی فائدہ ہو گا۔
گنیش کہتے ہیں کہ آڈیٹر کی ضرورت، آزاد بورڈ اراکین اور کارپوریٹ گورننس کے قوائد و ضوابط سمیت بانیوں کے حقوق کا ہونا ضروری ہوتا جائے گا جن کو پہلے نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔
شری رام کے مطابق انڈیا میں اچھے کارپوریٹ قوانین ہیں اور سرماریہ کاروں کو چاہیے کہ وہ بائیجوز سے مطالبات کریں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ سرمایہ کار نفع نقصان کے عادی ہوتے ہیں اور جب اس طرح کا کوئی موقع آتا ہے تو ان کی یادداشت دیرپا نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر مالپانی کا کہنا ہے کہ ’دو سال میں اس طرح کا ایک اور واقعہ ہو گا۔‘