اس مقابلے میں جو لوگ سب سے کم وقت میں 108 مسالے دار ڈمپلنگ کھا جاتے ہیں انھیں انعام میں ایک وقت کا مفت کھانا دیا جاتا ہے اور انھیں ’کھانا کھانے کا راجا‘ کے خطاب سے بھی نوازا جاتا ہے۔

چین میں ڈمپلنگ کھانے کے مقابلے کے لیے ایک ریستوراں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں کیونکہ کہا جا رہا ہے اس نے خوراک کے ضیاع کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس مقابلے میں جو لوگ سب سے کم وقت میں 108 مسالے دار ڈمپلنگ کھا جاتے ہیں انھیں انعام میں ایک وقت کا مفت کھانا دیا جاتا ہے اور انھیں ’کھانا کھانے کا راجا‘ کے خطاب سے بھی نوازا جاتا ہے۔
لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس وائرل چیلنج نے لوگوں کو ’گمراہ‘ کیا ہے اور وہ اس کے لیے ضرورت سے زیادہ آرڈر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کھانے کا ضیاع ہوتا ہے۔
چین نے سنہ 2021 میں کھانے کے ضیاع سے نمٹنے کے لیے قوانین بنائے تھے۔ چین میں خوراک کے ضیاع کو ملک کے رہنما شی جن پنگ نے خوراک کی ’حیران کن اور تکلیف دہ بربادی‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔
اس قانون کے نفاذ کے دو سال گزرنے کے بعد بھی لوگ اب تک اس سے بہت حد تک ہم آہنگ نہیں ہوئے ہیں کیونکہ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں میزبان اپنے مہمانوں کو ان کی بھوک سے زیادہ کھانا پیش کرتے ہیں اور اسے وہ اچھی مہمان نوازی سمجھتے ہیں۔
چینی قومی مقننہ کے سنہ 2020 کے سروے کے مطابق ہر سال چینی ریستورانوں میں کم از کم 34 ملین ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے۔
سیچوان صوبے میں موجود یہ کھانے کا ریستوراں ان متعدد ریستورانوں میں سے ایک ہے جن کے خلاف قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔
فوجیان صوبے کے ایک ہوٹل کے متعلق بھی تفتیش کی جا رہی ہے جہاں گذشتہ مارچ میں ہونے والے ایک مقابلے میں شرکا کو 30 منٹ میں تین کلو وزنی برگر ختم کرنے کا چیلنج دیا گیا تھا۔
چین میں کھانے پینے کے ایسے ریستوراں یا دکانیں جہاں ’گاہکوں کو ضرورت سے زیادہ آرڈر کرنے کی جانب راغب یا گمراہ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کھانا ضائع ہوتا ہے‘ پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
ریستوراں والے ان صارفین سے بچے ہوئے کھانے کو ٹھکانے لگانے کی فیس بھی لے سکتے ہیں جو اپنی پلیٹوں میں زیادہ مقدار میں کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔
چین نے ایک ہی نشت میں بہت زیادہ کھانا کھانے اور کھانے کے مقابلوں کی لائیو سٹریمنگ پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے افراد کو دکھانے والے بہت سے آن لائن اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔
کچھ چینی انٹرنیٹ صارفین نے ریستورانوں کے بارے میں حکام کی حالیہ تحقیقات کو حد سے تجاوز کی کوشش قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک صارف نے چین کے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ویبو پر لکھا کہ ’یہ حکومت کا معاملہ کس طرح ہے؟ کیا اس کی حکومتی نگرانی ہونی چاہیے؟ کیا ایسا ہونا چاہیے؟‘
ایک دوسرے صارف نے ویڈیو شیئرنگ ایپ ڈوئن پر لکھا کہ ’حکام کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ فوڈ سیفٹی کے مسائل پر زیادہ توجہ دیں۔‘
متعدد مقامی حکام اور ریستورانوں اور کھانے پینے کے ڈھابوں نے کھانے کے ضیاع کے خلاف مہم کی حمایت میں انفرادی سطح پر بھی پالیسیاں بنائی ہیں۔
مثال کے طور پر ووہان کیٹرنگ انڈسٹری ایسوسی ایشن کا شہر کے ریستورانوں کے لیے یہ مشورہ ہے کہ وہ ایسے نظام کی پیروی کریں جہاں لوگ جب گروپ میں آئیں تو وہ اپنے گروپ میں شامل افراد کی تعداد سے کم ڈشز کا آرڈر دیں۔
یہاں تک کہ کچھ ریستوراں میں تو گاہکوں کا کھانے سے پہلے وزن کیا جاتا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ انھیں کتنا کھانا دیا جانا چاہیے۔