دریائے بیاس کے قریب گنجان آباد علاقوں جیسے سیاحتی مقام منالی میں شدید تباہی ہوئی ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق اس کی وجہ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔
گذشتہ کچھ دنوں سے موسلا دھار بارش کی وجہ سے انڈین ریاست ہماچل پردیش میں شدید تباہی ہوئی ہے۔ دریائے بیاس، ستلج، راوی، چناب اور جمنا میں طغیانی ہے۔ پانی اور تیز ہواؤں نے جان و مال کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
دریائے بیاس کے قریب گنجان آباد علاقوں جیسے سیاحتی مقام منالی میں شدید تباہی ہوئی ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق اس کی وجہ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔
منڈی سے منالی جانے والی شاہراہ کئی مقامات پر بند ہے۔ سڑک کے کئی حصے ٹوٹ گئے ہیں۔ گذشتہ دو دنوں میں تیز رفتاری سے بہنے والا پانی کئی پُل، عمارتیں اور گاڑیاں اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے۔
ریاستی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کے مطابق ہماچل پردیش میں گذشتہ 60 گھنٹوں میں موسلا دھار بارش کی وجہ سے 17 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
ترجمان کے مطابق ہماچل پردیش میں 29 مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے، ایک جگہ بادل پھٹے ہیں، 24 مقامات پر سیلاب آیا ہے، 825 سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے اور 4597 بجلی کی لائنوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ پانی کے 795 پائپ بھی ٹوٹ چکے ہیں۔
موسلادھار بارش کی وجہ سے پہاڑوں سے بہنے والے پانی کے ساتھ ملبہ بھی آ رہا ہے اور شملہ کالکا ہائی وے کو بار بار بند کرنا پڑ رہا ہے۔ تیز پانی کے ساتھ پتھر گر رہے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔
موسلا دھار بارش کی وجہ سے مقامی باشندے اور سیاح کئی مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں۔ این ڈی آر ایف کی ٹیموں نے بھی بہت سے لوگوں کو بچایا ہے۔
منڈی میں رہنے والے کئی بزرگوں نے بتایا کہ انھوں نے پہلے کبھی دریائے بیاس میں اس طرح کا پانی نہیں دیکھا تھا۔
سینیئر فوٹو جرنلسٹ بیربل شرما کہتے ہیں: ’بیاس میں پانی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ قدیم پنچ وکترا مندر پانی میں ڈوب گیا ہے، میری زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘
وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو کا کہنا ہے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق ریاست کو تین سے چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
بھگوان کی سرزمین کہلائے جانے والے ہماچل پردیش میں موسلا دھار بارش سے ہونے والی تباہی غیر متوقع نہیں ہے۔
گذشتہ کئی دہائیوں میں سیاحت کی مرکز اس پہاڑی ریاست نے ترقی کے معاملے میں میدانی علاقوں کے راستے پر چلنے کی کوشش کی ہے اور اس کا نتیجہ قدرتی آفات کے طور پر نظر آتا ہے۔
چاہے وہ کمزور پہاڑوں میں چار لین ہائی وے کی تعمیر ہو یا ہائیڈرو پروجیکٹس کے لیے سرنگیں کھودنا ہو۔ اس کی وجہ سے پہاڑ اور پتھر حرکت کرتے ہیں۔
ہر جگہ بھاری، بے ترتیب اور غیر محفوظ تعمیرات ہو رہی ہیں اور تعمیراتی فضلہ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں تک پہنچ رہا ہے۔ ان سب نے مل کر بارش کی تباہی میں اضافہ کر دیا ہے۔
ہماچل پردیش میں مبینہ طور پر غیر سائنسی طریقے سے کی گئی کان کنی نے بھی اس طرح کی آفات کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ہماچل پردیش میں دریاؤں خاص طور پر بیاس میں طغیانی سے ہونے والی تباہی کی ایک وجہ خاص طور پر واضح ہے۔
اور اس کا موازنہ سال 2000 میں دریائے ستلج میں آنے والے سیلاب سے کیا جا سکتا ہے۔ رام پور شہر میں زبردست تباہی ہوئی ہے جہاں دریا کے قریب بنائی گئی عمارتوں میں بہت سے لوگ رہ رہے تھے۔
یہاں تک کہ بیاس کی وادی میں بھی تعمیرات دریا کے بہت قریب پہنچ چکی ہیں جس سے اس طرح اچانک سیلاب کی وجہ سے نقصان کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
بیاس میں تیز رفتاری سے آنے والے پانی نے اپنا رخ تبدیل کیا اور منالی اور منڈی کے درمیان قومی شاہراہ کے بہت سے گھروں، گاڑیوں اور جانوروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر بہا لے گیا۔
ویسے بھی اس علاقے میں بیاس کی رفتار تیز ہے اور پانی سڑک سے زیادہ دور نہیں ہے۔
ماحولیات کے ماہر سنجے سہگل کہتے ہیں: ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم سیاحت سے چلنے والی اس ریاست میں ترقی کا ایک ایسا ماڈل اپنائیں جو ماحول دوست ہو۔
’ہم فطرت کے ساتھ ایک حد سے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتے۔ غیر سائنسی ترقیاتی کاموں کے لیے پہاڑوں کو دھماکے سے اڑانا اور منصوبہ بندی کے بغیر تعمیراتی کاموں کا ملبہ پھینکنا اور پہاڑی سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی بے قابو تعداد کے منفی نتائج ہوسکتے ہیں۔ ہم اس کا احساس نہیں کر پا رہے ہیں۔‘
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے انکشاف کیا کہ ہماچل پردیش میں کل 118 ہائیڈرو پروجیکٹ ہیں جن میں سے 67 لینڈ سلائیڈنگ زون میں ہیں۔
جب کنور، کلی اور ریاست کے کئی دیگر حصوں کے آدیواسی اکثریتی اضلاع میں ہائیڈرو پروجیکٹ لگائے جا رہے تھے، تو ماحولیات کے ماہرین اور متاثرہ مقامی شہریوں نے ان کی مخالفت کی اور کئی عوامی مہم بھی چلائی گئی۔
لیکن اس وقت کی حکمراں سیاسی جماعتوں نے انہیں نظر انداز کر دیا تھا۔
ممتاز ماہر ماحولیات کلبھوشن ابھیمنیو کا کہنا ہے کہ ماحولیات کے ماہرین اس بات سے آگاہ ہیں اور سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے ترقیاتی نقطہ نظر کو از سر نو ترتیب دیں۔
چمبا ضلع کے رہنے والے اور چپکو تحریک کا حصہ رہنے والے ابھیمنیو کہتے ہیں کہ ’وقت آگیا ہے کہ ہم اس قدرتی آفت سے سیکھیں جو اس حساس علاقے میں ماحول کی قیمت پر غیر متوازن ترقی کی وجہ سے آئی ہے۔ قدرت کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔‘
ابھیمنیو کا کہنا ہے کہ ہماچل پردیش ایک سیاحتی ریاست ہے اور لوگ قدرتی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔
وہ پوچھتے ہیں: ’دیکھو، ہم فطرت کے ساتھ کھیل کر اپنے خوبصورت پہاڑوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ بدلے میں فطرت ہمارے لیے خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں چار لین سڑکوں، بڑے بنیادی ڈھانچے یا ہائیڈرو پروجیکٹس کی ضرورت کیوں ہے؟
’ہمیں ان لوگوں کی کیا ضرورت ہے جو پہاڑوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں؟ ہم اس طرح کے منصوبے شروع کرنے سے پہلے پہاڑوں اور ندیوں کی گنجائش کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے تاکہ ماحول کو بچایا جا سکے۔‘