منی پور میں خواتین کو برہنہ کرنے کی ویڈیو اور ہجوم کے ہاتھوں گینگ ریپ کے واقعات کیا ظاہر کرتے ہیں؟

منی پور کے فسادات کے دوران ایک پریشان کن ویڈیو میں ایک مشتعل ہجوم دو خواتین کو برہنہ کر کے ان پر جنسی تشدد کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پُرتشدد واقعات اور نسلی فسادات میں سب سے بڑی قیمت کس کو چکانی پڑتی ہے۔
تصویر
Getty Images
انڈیا میں ریپ کے واقعات کے خلاف اکثر احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں

منی پور کے فسادات کے دوران ایک پریشان کُن ویڈیو میں ایک مشتعل ہجوم دو خواتین کو برہنہ کر کے ان پر جنسی تشدد کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پُرتشدد واقعات اور نسلی فسادات میں سب سے بڑی قیمت کس کو چکانی پڑتی ہے۔

انتباہ: اس تحریر میں ایسی تفصیلات درج ہیں جو قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا یہ واقعہ لگ بھگ تین ماہ قبل پیش آیا تھا مگر یہ منظرِ عام پر اُسی وقت آیا جب جمعرات کو اس کی ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہوئی۔ پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے کے مطابق اس دوران ایک خاتون کا گینگ ریپ بھی کیا گیا تھا۔ خواتین کی شکایت میں درج ہے کہ ایک تیسری خاتون کو بھی برہنہ کیا گیا مگر انھیں ویڈیو میں نہیں دیکھا جا سکتا۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین پر جنسی تشدد کیا جا رہا ہے اور حملہ آور ان کے کپڑے اتروا کر انھیں علاقے کا چکر لگوا رہے ہیں۔ ویڈیو میں مردوں کے چہرے عیاں ہیں مگر گینگ ریپ کے الزام میں اب تک صرف ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس معاملے میں مجموعی طور پر چار افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں رواں برس مئی سے میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان نسلی فسادات جاری ہیں۔ عینی شاہدین نے اس دوران فائرنگ، لوٹ مار اور جنسی جرائم کے تکلیف دہ واقعات بیان کیے ہیں۔

ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق میتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ریپ اور قتل کی فیک نیوز پھیلنے کے بعد حالیہ دپُرتشدد واقعات شروع ہوئے اور حال ہی میں وائرل ہونے والی ویڈیو اسی کے ردعمل میں بنائی گئی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’میتی برداری کے مشتعل ہجوم نے کوکی قبائلی خواتین پر تشدد کے نئے دور کا آغاز کر دیا۔‘

مسلح اور مشتعل جتھوں کی لڑائی کے دوران ریپ کو ایک ہتھیار کے دوران پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

جنوبی ایشیائی خطے کے سب سے پُرتشدد واقعات، جیسا کہ 1947 میں تقسیم ہند، 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، 1984 میں سکھ مخالف فسادات، سری لنکا میں خانہ جنگی، 2002 کے گجرات فسادات وغیرہ میں وسیع پیمانے پر ریپ اور جنسی تشدد کی اطلاعات سامنے آئیں۔ بربریت کا یہ دور اتنا وسیع تھا کہ اس سے دہائیوں بعد ہی پردہ اٹھ سکا۔

متاثرین کے بیان کردہ احوال سے پتا چلتا ہے کہ انتقام اور غیرت کی خاطر دوسری برادیوں کی خواتین کا ریپ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں لڑائی ختم کرنے کے لیے حکومت نے فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز تعینات کیں، مگر ان پر بھی جنسی تشدد کا الزام لگایا گیا۔

دلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق پروفیسر انورادھا چنائی کہتی ہیں کہ ’خواتین کے جسموں پر تشدد کے جرائم اور اس کی قیمت کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے خواتین کی مختلف تحاریک اس پر توجہ دلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

تصویر
Getty Images
کوکی برداری نے جون میں ایک مظاہرہ کیا جس میں منی پور کے پُرتشدد واقعات کی مذمت کی گئی

اس دوران ریاست کی عدم توجہ معاملات بگاڑ دیتی ہے۔

منی پور میں جنسی تشدد کا یہ واقعہ 4 مئی کو پیش آیا تھا۔ متاثرہ خواتین کے ایک رشتہ دار نے پولیس کو درج کرائی گئی شکایت میں بتایا کہ گاؤں میں لوٹ مار اور تشدد سے بچنے کے لیے کوکی برادری کے ایک خاندان کے دو مرد اور تین خواتین فرار کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں پولیس کی ٹیم نے بچا لیا تھا مگر بعدازاں انھیں مشتعل ہجوم نے آ لیا۔ اس کے مطابق ہجوم نے دو مردوں کا قتل کر دیا جبکہ پکڑی گئی خواتین کے زبردستی کپڑے اتارے۔

شکایت میں درج ہے کہ 21 سال کی ایک خاتون کا ’دن کی روشنی میں گینگ ریپ‘ کیا گیا جبکہ باقی دو خواتین فرار ہونے میں کامیاب رہیں۔

ریاست اتر پردیش کے سابق پولیس سربراہ وکرم سنگھ نے کہا ہے کہ یہ ’شرمناک‘ واقعہ پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سنگین سوال اٹھاتا ہے۔

’دنیا کے کسی ملک کی انتظامیہ انڈیا کی طرح اتنی بے یار و مددگار نہیں کہ وہ خواتین کے ساتھ ایسے برتاؤ کو روک ہی نہ سکیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ مجرموں کے علاوہ زیرِ تفتیش پولیس افسران کو بھی سزا دی جانی چاہیے۔

تصویر
Getty Images
منی پور میں پُرتشدد واقعات نے ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے

اس کیس میں پہلی گرفتاری جمعرات کی صبح کی گئی جب یہ ویڈیو ٹوئٹر پر جاری کی گئی اور ملک کی سپریم کورٹ نے اسے ’انتہائی پریشان کن‘ قرار دیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی، جو اکثر خواتین کو خودمختار بنانے اور لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرتے ہیں، نے اب تک منی پور کے بحران پر عوامی سطح پر کوئی بات نہیں کی ہے۔ اس معاملے پر عام شہری اور اپوزیشن رہنما ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔

انھوں نے اب سے کچھ گھنٹے قبل اپنی خاموشی توڑ کر کہا کہ وہ درد اور غصے کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے ذمہ داران کو کڑی سزا دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

مگر یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ اس اقدام میں اتنی دیر کیوں ہوئی؟ خاص کر جب وائرل ویڈیو میں مجرموں کے چہرے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ورندا گروور، جنھوں نے جنسی تشدد کے متاثرین کی وکالت کی ہے، کا کہنا ہے کہ ’انصاف کی دستیابی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مگر اکثر کیسز میں ریاست اور انتظامیہ انصاف کے حصول کی جنگ میں لاپتہ رہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ’معجزاتی طور پر‘ ایک گرفتاری ہوتی ہے مگر یہ متاثرین کے لیے امید کی کرن ثابت نہیں ہو سکتی۔

منی پور کی حکمراں جماعت بی جے پی کی رکن خوشبو سندر نے اس ویڈیو کو ’خوفناک‘ اور ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ امن و امان کی مکمل ناکامی ہے۔ تاہم یہ وقت الزامات عائد کرنے کا نہیں۔‘

ان کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اعتراضات دور کر کے ’منی پور میں تشدد کے خلاف ایک ساتھ اکٹھا ہونا ہو گا۔‘

وکیل وریشہ فراست نے ریاست بہار میں سنہ 1989 کے فسادات پر تحقیق کی ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے دو کمیشن قائم کیے تھے جن میں سے کسی نے بھی جنسی تشدد یا ریپ کے الزامات کو رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے واقعے کے 21 سال بعد تحقیق کی اور لوگوں سے بات کی جو بات کرنے سے کترا رہے تھے۔ خاندان صرف ان کیسز پر بات کرنے کو تیار تھے جن میں متاثرین کی تشدد کے نتیجے میں وفات ہوئی۔ شاید اس لیے کہ ان کیسز میں ان کے لیے ریپ کے گرد شرم کا کوئی عنصر نہ تھا۔‘

تصویر
BBC
گجرات کے فسادات میں بلقیس بانو کا گینگ ریپ کیا گیا اور ان کے کیس میں مجرموں کو بی جے پی حکومت نے قبل از وقت رہائی دلوا دی تھی

انڈیا میں جنسی تشدد کی اکثر اطلاع نہیں دی جاتی ہے کیونکہ صدمے کا شکار ہونے والے متاثرین کو خوف ہوتا ہے کہ انھیں ان کا خاندان گھر سے نہ نکال دے یا انھیں معاشرے سے بے دخل نہ کر دیا جائے۔

وریشہ فراسات کہتی ہیں کہ تنازعات کا شکار علاقوں میں جنسی تشدد کے متاثرین کو کئی صدمات کا سامنا ہے، جیسے گھر میں آمدن کا واحد ذریعہ بننے والے افراد کی موت۔ اس سے وہ اپنے تجربات کو کم سے کم ظاہر کرتی ہیں۔

تاہم وہ مزید کہتی ہیں کہ ریپ پر بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہمیشہ شرم کی وجہ سے نہیں ہوتی۔

’مسئلہ یہ ہے کہ جب خواتین بولنے کے لیے باہر آتی ہیں تو انھیں انصاف نہیں ملتا۔ یہی چیز بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

اگرچہ ریپ کے کیسز میں انصاف کی بہت سی مثالیں موجود ہیں تاہم اس میں کئی سال لگتے ہیں۔ ان کا تعلق پسے ہوئے طبقات سے ہوتا ہے جنھیں عموماً گھر سے دور جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اتر پردیش میں 2013 کے نسلی فسادات کے دوران ایک مسلم خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے الزام میں رواں سال دو ہندو مردوں کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ گروور کے مطابق یہ تاریخی فیصلہ تھا مگر ابتدائی طور پر سات خواتین نے جنسی تشدد کا الزام لگا کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔

’آخر کار صرف ایک عورت کھڑی ہوئی اور اپنے حملہ آوروں کے خلاف گواہی دی۔‘

فراست نے بتایا کہ بلقیس بانو ایک دوسری مثال ہیں جن کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔ انھوں نے ریاست گجرات میں 2002 کے مسلم مخالف فسادات کے دوران اپنے خاندان کے 14 افراد کو ہندو ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا تھا۔

لیکن اس کیس کے 11 مجرموں کو پچھلے سال ریاست کی بی جے پی حکومت نے جیل سے جلد رہائی دی تھی۔

جب یہ مجرم انڈیا کے یوم آزادی پر آزاد ہوئے تو رشتہ داروں نے انھیں مٹھائی کھلائی اور ان کے پاؤں چھو کر جشن منایا۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کو ایک انتہا پسند ہندو تنظیم کے کارکنوں نے بھی ہار پہنائے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بلقیس کے کیس میں انصاف کے پہیے اس کے حق میں گھومے مگر لیکن اب مجرم دوبارہ باہر آ گئے ہیں۔ اس کے باوجود بلقیس ان محدود متاثرین میں سے ہیں جنھیں کچھ انصاف ملا۔ وہ اپنا مقدمہ لڑنے کے قابل تھیں۔ وہ ایک نایاب مثال ہیں کیونکہ انھوں نے اصول کے برخلاف کیس لڑا۔‘

گروور کہتی ہیں کہ ریاست اکثر متاثرین کو معاوضے کی پیشکش کرتی ہے لیکن انھیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ازالہ ہے۔

’اس میں متاثرین کی بحالی، دوبارہ حملہ نہ ہونے کی ضمانت اور سماجی و معاشی سطح پر مدد شامل ہیں۔‘

وریشہ فراسات نے مزید کہا کہ جس چیز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، وہ استثنیٰ کا کلچر ہے جو ہر پیش آنے والے نئے واقعے کے ساتھ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔

’صرف مشتعل ہجوم ہی نہیں بلکہ پولیس افسران اور سیاستدان، سب کے احتساب کی ضرورت ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow