افغانستان میں طالبان کی بیوٹی پارلر پر پابندی: ’بیوٹی سیلون ہمیں دکھ چھپانے میں مدد دیتے تھے‘

افغانستان میں تقریبا 60 ہزار خواتین بیوٹی پارلر کے شعبے سے منسلک ہیں لیکن طالبان حکومت نے 24 جولائی تک تمام بیوٹی پارلر بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
طالبان
Getty Images

’مجھے اپنے گھر سے اکیلے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن میں نے اپنے شوپر کو منایا اور مجھے سال میں دو سے تین بار بیوٹی پارلر جانے کی اجازت مل گئی۔‘

23 سالہ زرمینہ کو بیوٹی پارلر جانے سے آزادی کا احساس ملتا تھا۔

16 سال کی عمر میں ہی ان کی شادی ہو گئی تھی۔ انھوں نے ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن شادی کے بعد ان کے شوہر کے خاندان نے انھیں یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔

وہ پارلر جانے کا شدید انتظار کرتی تھیں لیکن پھر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت نے تمام بیوٹی پارلر بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

ایک غمگین الوداع

ایک مہینہ قبل جب وہ آخری بار پارلر گئیں تو زرمینہ اپنے بال گہرے بھورے رنگ کے کروا رہی تھیں۔ اسی وقت پابندی کی خبر ان تک پہنچی۔

زرمینہ بتاتی ہیں کہ ’پارلر کی مالک نے رونا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچوں کے لیے روزگار کماتی تھی۔‘

افغانستان میں تقریبا 60 ہزار خواتین بیوٹی پارلر کے شعبے سے منسلک ہیں۔

زرمینہ کہتی ہیں کہ ’میری بھنویں سنواری جا رہی تھیں لیکن میں شیشے میں خود کو دیکھ ہی نہیں پا رہی تھی۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔ وہاں بالکل خاموشی چھا چکی تھی۔‘

A women getting her make-up done in Afghanistan
Getty Images

زرمینہ اپنے گھر کے قریب ہی رہنے والی ایک خاتون کے ہمراہ پارلر جاتی تھیں۔ پارلر میں کام کرنے والوں سے بھی ان کی دوستی ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ماضی میں خواتین بات کرتی تھیں کہ وہ کس طرح اپنے شوہر کو لبھا سکتی ہیں۔ چند خواتین اپنے عدم تحفظ پر کھل کر بات کرتی تھیں۔‘

اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد رفتہ رفتہ افغانستان میں معاشی بحران نے سر اٹھانا شروع کیا۔

’اب خواتین صرف بیروزگاری اور غربت کی باتیں کرتی ہیں۔‘

زرمینہ جنوبی افغانستان میں قندھار کی رہائشی ہیں جو قدامت پسند طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ طالبان کے سربراہ بھی اسی شہر میں رہتے ہیں۔

زرمینہ کہتی ہیں کہ ’مرد اکثر اپنی بیٹیوں کو میک اپ کرنے یا پارلر جانے سے روک دیتے ہیں۔‘

’یہاں زیادہ تر خواتین برقعے یا حجاب لے کر نکلتی ہیں۔ ہم نے اسے اپنی تہذیب سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔‘

دو سال قبل جب ان کے شوہر کی اچھی تنخواہ والی نوکری ختم ہوئی تو انھوں نے ایک اور شہر کا رخ کیا۔ زرمینہ چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر خود بھی کچھ کما لیتی ہیں۔

اس دن جب وہ سیلون سے نکلیں تو بار بار مڑ کر دکان کو دیکھتی رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ کیا کھونے والی ہیں۔۔۔ آزادی۔

’میں سیلون پر اپنے پیسے ادا کرتی تھی اور اس سے مجھے طاقت ملتی تھی۔ میرے پاس پیسے ہیں لیکن میں اپنے اوپر بیوٹی سیلون میں خرچ نہیں کر سکتی۔ اس سے مجھے غربت کا احساس ہوتا ہے۔‘

خوبصورتی

مدینہ کابل کی رہائشی 22 سالہ خاتون ہیں۔ وہ خوبصورتی کے تازہ ٹرینڈ دیکھتی رہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری جاننے والی ہر عورت اپنا سٹائل بہتر بنانا چاہتی ہے۔ مجھے نت نئے فیشن اور میک اپ اچھے لگتے ہیں۔‘

Afghan women getting a new hair style
Getty Images

وہ کہتی ہیں کہ بیوٹی پارلر جانے کی وجہ سے ہی ان کا رشتہ ازدواج تروتازہ رہا۔

’میرے شوہر کو مختلف رنگوں میں میرے بال دیکھ کر اچھا لگتا اور مختلف سٹائل کا ہیئر کٹ بھی۔‘

وہ فخر سے بتاتی ہیں کہ ’میرا شوہر ہی مجھے پارلر لے کر جاتا اور پھر صبر سے باہر بیٹھ کر انتظار کرتا تھا۔‘

’جب میں باہر نکلتی تو وہ مجھے دیکھ کر میری تعریف کرتا جو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘

وہ خود وکیل بننا چاہتی تھیں لیکن طالبان نے خواتین کو یونیورسٹی جانے سے روک دیا۔ اب ان کو کام نہیں مل رہا کیوں کہ بہت سے شعبے خواتین کے لیے بند ہو چکے ہیں۔

گھر سے نکلتے ہوئے وہ سر پر سکارف اوڑھ لیتی ہیں۔ صرف ان کے شوہر اور خاندان کے چند لوگ ہی ان کے رنگے ہوئے بال دیکھ سکتے ہیں۔

Three women waiting in a beauty parlour in Kabul
Getty Images

ان کو طالبان سے پہلے کا وقت یاد ہے جب خواتین کو زیادہ آزادی حاصل تھی۔

جب وہ چھوٹی تھیں تو اپنی والدہ کے ساتھ پارلر جاتی تھیں اور ان کو یاد ہے کہ خواتین کیسے اپنی اپنی کہانیاں کھل کر ایک دوسرے کو سناتی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اب پارلر میں کام کرنے والی خواتین سکرٹ یا جینز نہیں بلکہ سب ہی حجاب پہن کر رکھتی ہیں۔‘

اس کی ایک وجہ خوف ہے۔

مدینہ کا کہنا ہے کہ ’کوئی نہیں جانتا کہ طالبان کا حامی کون ہے اور کوئی سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتا۔‘

ماضی میں شادی کرنے والے جوڑوں میں مرد کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ اپنی دلہن کو پارلر میں تیار ہوتے ہوئے دیکھ سکے۔

مدینہ کو یاد ہے کہ اس زمانے میں مرد پارلر میں تصاویر بھی کھنچواتے تھے۔ اب اس پر پابندی لگ چکی ہے۔

لیکن کم از کم مدینہ کے پاس اپنے اس دن کی اچھی یادیں موجود ہیں۔

’میں بیوٹی سیلون گئی تھی اور میں نے گزشتہ سال شادی سے پہلے پورا برائیڈل میک اپ کروایا تھا۔‘

’جب میں نے خود کو شیشے میں دیکھا تو میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ میک اپ نے مجھے بدل کر رکھ دیا تھا۔ میں اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتی۔‘

چھپا ہوا علاج

مزار شریف کی 27 سالہ سمیا سمجھتی ہیں کہ بیوٹی پارلر ایک ضرورت ہے۔

تین سال قبل ان کا چہرہ جھلس گیا تھا اور ان کی پلکیں اور بھنویں ختم ہو گئی تھیں جب کمرے میں موجود ہیٹر پھٹ گیا تھا۔

A woman putting on nail polish
Getty Images

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اپنا چہرہ نہیں دیکھ پاتی تھی۔ میں بدصورت نظر آتی تھی۔‘

’مجھے لگتا تھا ہر کوئی مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے کیونکہ میری پلکیں ہی نہیں۔ میں دو ماہ تک باہر ہی نہیں نکلی۔ اس وقت میں بہت روتی تھی۔‘

طبی علاج سے ان کے زخم تو بھر گئے لیکن ان کی خود اعتمادی بیوٹی پارلر کی مدد سے بحال ہوئی۔

Large photos of women on the doors of beauty salons were covered up after the Taliban took control across the country
Getty Images

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں بیوٹی سیلون گئی اور میں نے مائیکرو بلیڈنگ کروائی جس سے میری شکل بہتر ہو گئی۔‘

’جب میں نے اپنا چہرہ دیکھا تو مجھے رونا آ گیا۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ بیوٹی سیلون نے مجھے میری زندگی لوٹا دی۔‘

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ان کے شہر میں متعدد سیلون بند کر دیے گئے تھے۔ ان پارلرز کی تشہیر کرنے والے رنگا رنگ پوسٹر بھی غائب ہو گئے کیونکہ طالبان نے برقعے کے بغیر کسی بھی عورت کا چہرہ نظر آنے پر پابندی لگا دی تھی۔

سمیا نفسیات میں ماسٹر کر چکی ہیں۔ وہ ذہنی صحت کی کونسلر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ طالبان کی جانب سے پابندیوں کے بعد ان سے مدد لینے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

Afghan women protest against the Taliban's decision to close the salons
Getty Images

علاج کے لیے بیوٹی پارلر کا استعمال کرنے والی سمیا واحد خاتون نہیں۔ افغانستان میں جنگ کی تباہی کی وجہ سے بہت سی خواتین کے چہرے زخمی ہوئے جو مہنگا علاج کروانے کی مالی سکت نہیں رکھتیں۔

سمیا کہتی ہیں کہ ’ہمارے لیے بیوٹی پارلر صرف میک اپ کروانے کی جگہ نہیں۔ یہ ہمیں اپنے دکھ چھپانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان سے ہمیں توانائی اور امید ملتی ہے۔‘

نوٹ: اس رپورٹ میں تمام خواتین کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow