لوئیلا اگنیئشیس نے 32 سال کی عمر میں اس خصوصی ٹاسک فورس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس وقت نئے شادی شدہ پولیس اہلکار اس خصوصی ٹاسک فورس میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے۔

انڈیا میں جرائم کی تاریخ میں ’موسٹ وانٹڈ‘ (یعنی انتہائی مطلوب) کی فہرست بدنام زمانہ مجرم ویرپن کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
ویرپن کو زندہ پکڑنے کے لیے ایک بار سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ اس آپریشن کے ایک حصے کے طور پر نوجوان پولیس اہلکاروں پر مشتمل ایک دستہ ویرپن کو پکڑنے کے لیے تمل ناڈو ایکشن فورس میں شامل کیا گیا تھا۔
یہ 17 فروری 1996 کی بات ہے جب یہ پولیس اہلکار تمل ناڈو اور کرناٹک کی سرحد پر اوسور کے علاقے کے قریب گشت کر رہے تھے۔ اُس دن تقریباً 5.30 بجے ٹاسک فورس کو اطلاع ملی کہ ویرپن کے ساتھی اوسور کے قریب جنگل میں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ خبر ملتے ہی اس یونٹ کے 10 جوان موقع پر پہنچ گئے۔
ٹاسک فورس کے اس دستے کو دیکھتے ہی ویرپن کے ساتھیوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ اس تصادم میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت ہوئی جبکہ دیگر شدید زخمی ہو گئے جنھیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
ان زخمی پولیس اہلکاروں میں ایک لوئیلا اگنیئشیس بھی تھے جن کے سر میں گولی لگی تھی۔ لوئیلا آج کل ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ٹاسک فورس کے آپریشن کا حصہ رہنے والے ریٹائرڈ پولیس آفسر لوئیلا اگنیئشیس اس پولیس مقابلے کا احوال بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’وہاں تقریباً 15 لوگ تین یا چار قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ جب فائرنگ شروع ہوئی تو ایک گولی میرے سر کے پچھلے حصے میں آ لگی، میں نے سوچا کہ میں مر جاؤں گا۔ گولی لگنے کے فوراً بعد میں بے ہوش ہو گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میسور کے باسپا ہسپتال میں مجھے تین دن بعد ہوش آیا۔‘
سر میں گولی

لوئیلا اگنیئشیس نے جب اس خصوصی ٹاسک فورس میں شمولیت اختیار کی تب ان کی عمر 32 سال تھی اور ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اپنی شادی کی وجہ سے وہ اس خصوصی ٹاسک فورس میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے۔
فروری 1997 میں ویرپن کے ساتھیوں کے ساتھ پولیس مقابلے میں انھیں لگنے والی گولی آج 27 برس بعد بھی ان کے سر میں موجود ہے۔
لوئیلا بتاتے ہیں کہ ’گولی میری کھوپڑی سے ہوتی ہوئی دماغ کے قریب چلی گئی۔ شروع میں بہت درد میں تھا۔ میرا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے کہا کہ گولی کو کھوپڑی سے نکالنا خطرناک ہو گا۔ ‘
اس وقت کی یاد تازہ کرتے ہوئے لوئیلا بتاتے ہیں کہ ’میں بہت خوش قسمت تھا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میرے سر میں گولی داخل ہونے کے بعد بھی دماغ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔‘
ڈاکٹروں نے اس وقت لوئیلا کو بتایا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے زندہ بچنا ایک بہت ہی انہونی بات ہے۔
لوئیلا کی اہلیہ جو اس وقت تین ماہ کی حاملہ تھی نے جب اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ ’ایک پولیس اہلکار کو ویرپن کے ساتھیوں نے انکاؤنٹر میں مار دیا ہے‘ تو وہ خوفزدہ ہو گئی تھیں اور فوراً اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کو گود میں لیے ستھیامنگلم پہنچ گئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہیلن مجھے ڈھونڈنے کے لیے ستھیامنگلم پہنچی۔ میں وہاں نہیں تھا، اس لیے اسے بعد میں میسور اور چنئی جانا پڑا اور آخر کار تین دن کے بعد وہ مجھ سے مل سکی۔ اس حملے نے مجھ سے زیادہ ہیلن کو متاثر کیا۔‘
سپیشل ٹاسک فورس میں دوبارہ شمولیت نہیں ہوئی

سنہ 1989 کے آس پاس، پولیس نے ویرپن کی تلاش شروع کی اور 1993 میں تامل ناڈو حکومت نے والٹر دیورام کی قیادت میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا تقرر کیا۔
لوئیلا 1993 میں اس سپیشل فورسز میں شامل ہوئے اور 1996 میں پولیس مقابلے میں زخمی ہونے تک وہیں تعینات رہے۔
لوئیلا اس پولیس مقابلے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دن کانسٹیبل سیلواراج بھی مارا گیا تھا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ تمل سیلوان، موہن نواز، رگھوپتی، ایلنگوون اور کچھ دیگر پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں یہ پولیس مقابلہ ہوا تھا وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ گاؤں سے فون پر رابطہ کرنا مشکل تھا۔ اور ریسکیو ٹیم کو کرناٹک کے ہیڈکوارٹر مدھیشورن ہل سے رابطہ کرنے میں تین گھنٹے لگے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انکاؤنٹر میں میرے سر کے پچھلے حصے میں لگنے والی گولی کی وجہ سے مجھے میری شمولیت کی درخواست کے باوجود دوبارہ سپیشل ٹاسک فورس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد میں نے بطور پولیس سب انسپکٹر اپنی ڈیوٹی شروع کی۔‘

بعدازں لوئیلا سنہ 2000 میں پولیس انسپکٹر، 2010 میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور 2014 میں ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر ترقی کر گئے۔
لوئیلا کے مطابق ’اس وقت کی وزیر اعلیٰ جئے للیتا نے 1996 کے انکاؤنٹر میں ڈیوٹی انجام دینے والے ملازمین کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن ان کی حکومت بدل گئی اور یہ پروموشن نہیں دی گئی۔ اقتدار میں واپس آنے پر سپیشل ٹاسک فورس کی سرگرمیاں دوبارہ زوروں پر شروع ہوئیں۔‘ اور اس وقت ویرپن کی تلاش میں شامل اہلکاروں کو ترقیاں دی گئیں۔
2004 میں ویرپن کے قتل کے بعد بھی، آپریشن میں شامل پولیس اہلکاروں کو مکانات اور ترقیاں دی گئیں، انھیں مناسب اعزازات سے نوازا گیا۔
وہ کہتے ہیں ’حالانکہ میں اس وقت سپیشل ٹاسک فورس کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن ویرپن کو پکڑنے جانے پر ملنے والے اعزازات سے مجھے بھی فائدہ ہوا۔‘
پولیس فورس میں ٹاسک فورس کے بعد کے اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے، لوئیلا کہتے ہیں کہ 1997 تک وہ کبھی کبھار سر درد میں مبتلا رہتے تھے۔ مگراس کے بعد ان کی زندگی معمول پر آ گئی۔
وہ بتاتے ہیں ہے کہ ’اس کے بعد مجھے کوئی درد محسوس نہیں ہوا۔ میں نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دس سال تک دوا لی۔ پھر میں نے خود ہی دوا لینا چھوڑ دی۔ میں 32 سال کا تھا جب مجھے گولی لگی تھی۔ اسکے بعد میں نے 26 سال مختلف شہروں میں کام کیا جیسے رامناتھ پورم، سیوا گنگائی، تھوتھکوڈی، چنئی، کرشناگری۔
’آج میں ریٹائرمنٹ کے بعد میں ترونیل ویلی میں اپنے خاندان کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہا ہوں۔‘