قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی بحریہ ٹاون میں اربوں روپے مالیت کی جائیدادوں کی نیلامی کے لیے سات اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔ احتساب عدالتوں نے جن جائیدادوں کو نیلام کرنے کا حکم دیا تھا، ان میں سے زیادہ تر راولپنڈی اور اسلام آباد کی حدود میں واقع ہیں اور یہ تمام جائیدادیں کمرشل بنیادوں پر چلائی جا رہی تھیں۔

قومی احتساب بیورو نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے تعمیراتی پراجیکٹ بحریہ ٹاؤن کے دو کارپوریٹ دفاتر سمیتاربوں روپے مالیت کی چھ جائیدادوں کی نیلامی کے لیے سات اگست کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
نیب کی جانب سے ان جائیدادوں کی نیلامی کی تاریخ کا تعین اسلام آباد ہائی کورٹ کے منگل کو سنائے گئے اس فیصلے کے بعد کیا گیا جس میں ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی جانب سے احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نیلامی رکوانے کے لیے دائر کی گئی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
ان تمام جائیدادوں کی نیلامی کا حکم احتساب عدالت نے تین مختلف مقدمات میں ملک ریاض کو اشتہاری قرار دینے کے بعد کیا تھا۔
ان تینوں مقدمات میں ایک مقدمہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کا بھی ہے جس میں احتساب عدالت نے عدم پیشی کی بنا پر ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کو اشتہاری قرار دیا تھا اس کے علاوہ ان مقدمات میں فیک بینک اکاؤنٹ کیس بھی شامل ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جب 190 ملین پاؤنڈ کا مقدمہ چل رہا تھا تو اس وقت ملک ریاض کی جانب سے دیا گیا بیان سوشل میڈیا کی زینت بنا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بنیں گے۔
اس کے علاوہ ملک ریاض کے خلاف ایک مقدمہ راولپنڈی کی احتساب عدالت میں زیرِ سماعت تھا۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے مطابق 'ملک ریاض کی پراپرٹیزکی نیب نیلامی سات اگست 2025 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس ون میں واقع نیب راولپنڈی کے دفتر میں ہو گی۔‘
احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نیب نے اس ضمن میں مختلف اخبارات میں اشتہار بھی شائع کروایا تھا جس میں ان جائیدادوں کی تفصیلات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اب سات اگست کو نیلام کی جائیں گی۔
https://twitter.com/PTVNewsOfficial/status/1952424102158864426
احتساب عدالتوں نے جن جائیدادوں کو نیلام کرنے کا حکم دیا، وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی حدود میں واقع ہیں اور ان تمام جائیدادوں کو تجارتی بنیادوں پر چلایا جا رہا تھا۔
ان جائیدادوں میں بحریہ ٹاؤن کے دو کارپوریٹ دفاتر، ایک تعلیمی ادارے کی عمارت، سفاری کلب اور ایک شادی ہال کے علاوہ سنیما گھر بھی شامل ہے۔
مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے اس اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ان اثاثوں کی بولی اشتہار میں دی گئی قیمت سے شروع ہو گی اور سب سے زیادہ بولی دینے والے شخص کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔
ان میں نیب نے بحریہ ٹاؤن کے کمرشل ایریا میں واقع سنیما گھر کی قیمت ایک ارب دس کروڑ روپے تجویز کی ہے جبکہ ایک انٹرنیشل اکیڈمی کی عمارت کی نیلامی کی بولی ایک ارب سات کروڑ روپے سے شروع ہو گی۔
اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں واقع سفاری کلب کی قیمت ایک ارب چوبیس کروڑ روپے رکھی گئی ہے۔
اس اشتہار میں کہا گیا ہے کہ کامیاب بولی دہندہ کو نیلامی والے دن جائیداد کی قیمت کا پانچ فیصد سکیورٹی ڈیپازٹ میں ادا کرنا ہو گا اور ایک ماہ کے اندر دس فیصد جبکہ جائیداد کا باقی پچاسی فیصد تین ماہ کے اندر ادا کرنا ہو گا اور جائیداد کی مکمل رقم جمع ہونے کے بعد یہ جائیداد بولی میں کامیاب ہونے والے کے نام کی جائے گی جبکہ ناکامی کی صورت میں زربیعانہ کی رقم ضبط تصور ہو گی۔
اس اشتہار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ٹیکسز، ٹرانسفر فیس اور دیگر حکومتی اخراجات بھی بولی میں کامیاب ہونے والا ہی برداشت کرے گا۔
ملک ریاض یا بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم رواں سال کے آغاز میں ملک ریاض نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں نیب کی جانب سے مختلف شہروں میں سرکاری زمینوں پر قبضے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیب کا ’بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ ہم نے پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے قانون کی پاسداری کی اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔‘
انھوں نے نیب کے بیان کو ملک میں سیاسی صورتحال سے جوڑتے ہوئے نیب پر بلیک میلنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ کسی کے خلاف گواہی دیں گے اور نہ ہی کسی کے خلاف استعمال ہوں گے۔‘
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’گواہی کی ضد‘ کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے۔
خیال رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کی ان بااثر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں دونوں میں اہم لوگوں سے رابطے رکھتے ہیں تاہمگذشتہ چند برسوں میں پاکستان کی اس بااثر کاروباری شخصیت کے ستارے گردش میں رہے ہیں۔
کیا یہ جائیداد نیلامی کے بعد اصل مالک کو واپس ہو سکتی ہے؟
خیال رہے کہ کسی بھی شخص کو اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد عدالت کی جانب سے اسے 30 روز میں پیش ہونے کا وقت دیا جاتا ہے اور تب تک اس کی تمام جائیدادیں ضبط کر دی جاتی ہیں۔ اگر اشتہاری قرار دیا جانے والا ملزم پیش ہو جائے تو جائیدادوں کی ضبطگی ختم کر دی جاتی ہے۔
تاہم اگر ملزم تب بھی پیش نہ ہو تو یہ جائیدادیں عموماً ریاست کی پراپرٹی سمجھی جاتی ہیں اور عدالت کے حکم پر ہی انھیں نیلام کیا جاتا ہے۔
قومی احتساب بیورو کے سابق پراسیکوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ ’بہت سی ایسی مثالیں ہیں جن میں کسی شخص کی جائیداد نیلام کر دی گئی ہو اور اعلیٰ عدالتوں نے اشتہاری قرار دیے جانے والے شخص کا مؤقف درست تسلیم کیا، تو پھر نیلام کی گئی جائیداد اسے واپس مل جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ضابطۂ فوجداری کے سکیشن 87 اور 88 میں کسی بھی شخص کو اشتہاری قرار دینے سے لے کر اس کی جائیداد کی ضبطگی اور نیلامی کا طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ ملک ریاض کی جائیداد کی نیلامی اسلام آباد کے علاقے میلوڈی میں موجود نیب آفس میں سات اگست کو ہونی ہے۔
قومی احتساب بیورو کے سابق پراسیکوٹر عمران شفیق نے کہا کہ ’اسحاق ڈار کو جب ایک مقدمے میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا اور عدالتی حکم پر ان کے نام پر لاہور میں جو جائیدادیں تھیں ان کو ضبط کر کے نیلامی کے مرحلے میں لے جایا گیا تھا تام اس ضمن میں اسحاق ڈار کا مؤقف تھا کہ یہ جائیدادیں اگرچہ ان کے نام پر ہیں تاہم اس کی آمدن ٹرسٹ کو جاتی ہے۔‘
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ ’اسحاق ڈار کی وطن واپسی پر اعلیٰ عدالتوں نے ان کے مؤقف کو درست تسلیم کیا اور تمام جائیدادیں ان کو واپس کر دی گئیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’منقولہ جائیداد جس میں گاڑیوں کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا جن کا خراب ہونے کا احتمال ہو اس کو فروخت کر دیا جاتا ہے اور اگر اعلیٰ عدلیہ وطن واپسی پر ایسے اشتہاری کے مؤقف کو درست تسلیم کر لے تو وہ رقم جو کہ منقولہ جائیداد فروخت کر کے حاصل کی گئی تھی اس کے مالک کو واپس کر دی جاتی ہے۔‘