'میں سرینواس کے سینے سے خون بہتا دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ یہ جانتا، میں نے اسے اپنی بندوق سے گولی مار دی۔ اس کا سر کاٹ دیا ہے اور اس کے ہاتھ بھی۔ وہی ہاتھ جو مجھ پر مشین گن چلانا چاہتے تھے، میں نے اس کا کٹا ہوا سر ایک یادگار کے طور پر رکھ لیا۔‘
'میں سرینواس کے سینے سے خون بہتا دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ یہ جانتا، میں نے اسے اپنی بندوق سے گولی مار دی۔ اس کا سر کاٹ دیا ہے اور اس کے ہاتھ بھی۔ وہی ہاتھ جو مجھ پر مشین گن چلانا چاہتے تھے، میں نے اس کا کٹا ہوا سر ایک یادگار کے طور پر رکھ لیا۔‘
یہ الفاظ ایک بدنام زمانہ ڈاکو ویرپن کے ہیں جو ہاتھی دانت اور صندل کی لکڑی سمگل کیا کرتے تھے۔ انھوں نے یہ الفاظ ایک فاریسٹ آفیسر سرینواس کے قتل کے بعد ادا کیے تھے۔
سرینواس اور ویرپن کی آخری ملاقات سنہ 1991 میں ہوئی تھی لیکن یہ اس سے پانچ سال پہلے سے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ویرپن اپنی بہن کی موت کا ذمہ دار سرینواس کو ٹھہراتے تھے اور یہ قتل انھوں نے اسی لیے کیا تھا۔
سرینواس کو اپنے فرائض بااحسن انداز میں ادا کرنے پر انڈین حکومت نے ’کرتی چکر‘ سے نوازا گیا، جو کہ امن کے وقت انڈیا کا دوسرا سب سے گرانقدر بہادری کا اعزاز ہے۔
انڈیا کا بدنام زمانہ صندل سمگلر ویرپنموت سے پانچ سال پہلے
نومبر 1986 میں ’سارک‘ (ساؤتھ ایشیئن ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن) کا ایک اجلاس بنگلور میں ہو رہا تھا۔ چونکہ اس اجلاس دیگر ممالک کے سربراہان کے علاوہ سری لنکا کے صدر جے جے وردھنے بھی شرکت کے لیے آ رہے تھے اس لیے انڈیا کے شہر بنگلور میں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
جیسا کہ کسی بھی بڑی تقریب سے قبل ہوتا ہے، شہر میں پولیس نے سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی اور شہر بھر سے مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کا عمل جاری تھا۔
ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران پولیس کو بنگلور کے ایک بس سٹیشن پر ایک مشتبہ شخص کھڑا ہوا نظر آیا۔ پولیس کی جانب سے اس مشتبہ شخص سے اُس کی شناخت سے متعلق چند بنیادی سوالات پوچھے گئے، مگر وہ شخص ان سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ دے سکے۔
پولیس کو ابتدائی گفتگو کے بعد یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ مشتبہ شخص بنگلور میں بولی جانے والی ’کنڑ‘ زبان سے بھی واقف نہیں تھا۔ یہی وہ مشکوک معاملات تھے جس کے بعد پولیس نے اس شخص کو حراست میں لے کر اسے جیان نگر پولیس سٹیشن پہنچا دیا۔
پولیس سٹیشن پر ہونے والی تفتیش کے دوران اس مشتبہ شخص کی شناخت ویرپپن کے طور پر ہوئی۔
ویرپپن انڈین ریاست کرناٹک کے ضلع چامراج نگر کے گوپی ناتھم گاؤں میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ یہ گاؤں صندل کے درختوں اور ہاتھیوں کے ریوڑوں سے گھرے جنگلوں کے بیچ میں بسا ہوا ہے۔ یہ صندل کے درخت اور ہاتھی ہی تھے جو بعد میں ویرپپن کی شناخت کا حصہ بن گئے۔
تمل ناڈو کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے ویرپپن اور اُن کا گینگ جرائم کرتے اور پھر ایک ریاست سے دوسری ریاست فرار ہو جاتے تھے۔ پولیس کو ان کی سرگرمیوں کا علم تھا لیکن انھیں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ کرناٹک اور تمل ناڈو پولیس کو کافی عرصے بعد جب اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ویرپن گرفتاری کے لیے مشترکہ سپیشل ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔
سنہ 1972 میں وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ منظور ہونے کے بعد انڈیا میں ہاتھیوں کے غیر قانونی شکار پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ حکومتی اداروں کی جانب سے سختی کیے جانے کے بعد ویرپن کے حریفوں نے صندل کے درختوں اور ہاتھی دانتوں کی سمگلنگ کے کاروبار سے توبہ کر لی اور ویرپپن کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا۔
چامراج نگر میں تعینات فارسٹ ڈویژن آفیسر پی سرینواس نے ویرپن، اُن کی سرگرمیوں اور ان کے رابطوں کے بارے میں کافی معلومات اکٹھی کی تھیں۔
چنانچہ ویرپن کا کیس سرینواس کو سونپ دیا گیا جنھوں نے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر ویرپن کے گروہ، اُن کے گاہکوں اور گوداموں پر چھاپے مارے۔ یہ چھاپہ مار سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہیں۔
ویرپن کی گرفتاری باضابطہ طور پر نہیں دکھائی گئی۔ کیونکہ ایسا کرنے سے قانون کے مطابق پولیس گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہوتی۔ چنانچہ ویرپن کو فاریسٹ سیل نے اپنے قبضے میں لے لیا۔
پولیس کانسٹیبل اور فارسٹ گارڈز بوڈی پاداگا کے فاریسٹ گیسٹ ہاؤس میں زیر حراست ویرپن پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
ایک دن سرینواس کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے جب ویرپن فاریسٹ گیسٹ ہاؤس سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا کیونکہ پہرے پر موجود اہلکار آرام کر رہے تھے اور سکیورٹی فرائض سے غافل تھے۔
صحافی سناد رگھورام نے ویرپن کی گرفتاری اور فرار کے معاملے پر کافی کچھ لکھا ہے۔ انھوں نے ویرپن کی زندگی پر بھی تحقیق کی ہے اور ان پر ایک کتاب ’ویرپن: انڈیاز موسٹ وانٹیڈ مین‘ لکھی ہے۔

سرینواس بمقابلہ ویرپن
اس وقت کی آندھرا پردیش حکومت کے ذریعہ شائع کردہ سرینواس کی زندگی پر ایک کتابچہ کے مطابق پی سرینواس 12 ستمبر 1954 کو راجمندری میں (اس وقت یہ علاقہ آندھرا پردیش تھا) میں پیدا ہوئے۔
سرینواس نے آندھرا پردیش یونیورسٹی سے 1976 میں لائف سائنسز میں گولڈ میڈل کے ساتھ گریجوئیشن کیا۔ سنہ 1979 میں وہ انڈین فاریسٹ سروس میں شامل ہوئے۔ وہ چامراج نگر میں اسسٹنٹ کنزرویٹر آف فاریسٹ کے طور پر تعینات تھے اور بعد میں ڈپٹی کنزرویٹر آف فاریسٹ بن گئے۔
انھوں نے صندل کی لکڑی کے سمگلروں اور سپلائرز کے نام، تصاویر، رہائشی پتے، عمر اور گینگ سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ جنگل میں مواصلات کو بہتر بنانے کے لیے محکمہ جنگلات اور پولیس نے وائرلیس نیٹ ورک قائم کیا۔ کم سے کم وقت میں معلومات حاصل کرنے میں اس کا فائدہ ہونا شروع ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
ویرپپن: انڈیا کے صندل سمگلر جنھوں نے اپنے ٹھکانے کو خفیہ رکھنے کے لیے اپنی نوزائیدہ بیٹی کو قتل کیا
انڈیا میں ’ڈاکوؤں کا راجہ‘ کہلانے والے ملکھان سنگھ کے ہتھیار ڈالنے کی کہانی
یہ وہ دور تھا جب میڈیا میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ گاؤں والوں کو کبھی کبھی محکمہ جنگلات، پولیس یا سپیشل ٹاسک فورس کے اہلکار ویرپن کے بارے میں معلومات دینے کے لیے ہراساں کرتے تھے۔
دریں اثنا اسی دوران یہ خبر بھی آئی کہ ویرپپن نے شک کی بنیاد پر ایک شخص کا سر قلم کر دیا کیونکہ انھیں شبہ تھا کہ وہ شخص محکمہ جنگلات یا پولیس کا مخبر تھا۔
پولیس کی طرح ویرپن کو بھی اردگرد کے جنگلات، دریا، ندی نالوں، جانوروں اور پرندوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں کا مکمل علم تھا۔ اس لیے وہ ایس ٹی ایف کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ یہ جنگلات اتنے گھنے تھے کہ بعض جگہوں پر نہ تو سورج کی روشنی پہنچتی تھی اور نہ ہی باہر کا کوئی شخص وہاں قدم رکھ سکتا تھا۔
رگھورام لکھتے ہیں کہ 1987 میں سرینواس کو کرناٹک کے چکمنگلور علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا جو کہ کافی کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ لیکن ویرپن تک پہنچنے کی اُن کی خواہش جوں کی توں ان کے دل میں موجود رہی۔ وہ بس کے ذریعے چامراج نگر پہنچ کر اس ضمن میں نئی معلوماتاکھٹی کرتے۔
ویرپپن پر کننڑ فلم سٹار راج کمارکے اغوا کا بھی الزام تھارابن ہڈ
اس وقت کے آندھرا پردیش کے محکمہ جنگلات نے جنگلاتی وسائل کی حفاظت کرتے ہوئے مرنے ہونے والے اہلکاروں کی یاد میں ایک کتاب ’فاریسٹ مارٹرز‘ شائع کی تھی۔ بی آر ریڈی کی تدوین کردہ اس کتاب میں بتایا گيا ہے سرینواس کو خصوصی تربیت کے لیے امریکہ بھیجا گیا تھا۔
اپریل 1990 میں وہ واقعہ پیش آیا جب ویرپن نے پیچھا کرنے والے تین پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا اور جانی نقصان پہنچایا۔ اس واقعہ کے بعد کرناٹک اور تمل ناڈو حکومتوں نے مشترکہ ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا۔ سرینواس کو اس ٹاسک فورس کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ انڈیا واپس آئے اور مئی 1990 میں اس ٹاسک فورس میں شامل ہوئے۔
مقامی لوگوں میں ویرپن کی شبیہ ’رابن ہڈ‘ جیسی تھی جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ علاقے کے بہت سے نوجوانویرپن کے گینگ میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ ان نوجوانوں کو ویرپن کے گینگ کے لوگوں کو معلومات فراہم کرنے، ان کی نقل و حرکت کو خفیہ رکھنے اور انھیں سامان فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
رگھورام اپنی کتاب کے تیسرے باب میں لکھتے ہیں کہ سرینواس نے محسوس کیا کہ بنیادی خدمات اور معاشی مواقع کی کمی کی وجہ سے لوگوں نے ویرپن کے ساتھ تعاون کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے ویرپن کو بالواسطہ یا براہ راست اپنے گینگ میں شامل کرنا شروع کر دیا۔
گاؤں والوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے اس نے جنگلاتی مصنوعات فروخت کرنے والی چھوٹی چھوٹی کوآپریٹیوز قائم کی جبکہ گاؤں کے لیے پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کا نظام بہتر کیا۔
ابتدا میں سرینواس تشدد کے بجائے عدم تشدد کے ذریعے اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ سرینواس نے ویرپن کے گاؤں میں ایک کلینک کا آغاز بھی کروایا۔اپنے دادا سے سیکھی گئی آیورویدک تعلیمات کی بنیاد پر وہ گاؤں والوں کو نزلہ، کھانسی، بخار اور اسہال جیسی چھوٹی موٹی بیماریوں کی ادویات دیتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر وہ اپنی جیب سے ادویات پر خرچ کرتے تھے اور اس کے لیے دوستوں سے بھی مدد لیتے تھے۔
یہ صورتحال دیکھتے ہوئے ویرپن کے گینگ کے تقریباً 20 لوگوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ویرپپن کے ساتھ ان کی بیوی متولکشمی، بھائی ارجنن، اور بہن کے ساتھ ساتھ کئی پرانے اور بھروسہ مند دوست بھی موجود تھے۔
ویرپپن کی بیوی متولکشمی کا کہنا ہے کہ ’وہ بالکل بھی اچھا آدمی نہیں تھا، وہ اچھا ہونے کا ڈرامہ کرتا تھا۔ وہ اس گاؤں میں یہ جاننے کے لیے آیا تھا کہ گاؤں والے ویرپن کے ساتھ دیوتا کی طرح سلوک کیوں کرتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ اگر میں وہی کروں جو ویرپن کرتا ہے تو گاؤں والے ویرپن پر یقین کریں گے یا مجھ پر؟ یہ میرے شوہر کے لیے بہت پریشان کن تھا۔‘
رگھورام لکھتے ہیں کہ سرینواس نے مریمما مندر کی دوبارہ تعمیر کروائی اور پجاریوں اور عملے کو تنخواہ دینے کے لیے تین لاکھ روپے کی رقم بھی جمع کرائی۔
ویرپن پردرجنوں ہاتھیوں کو مارنے کا الزام بھی تھانفرت میں اضافہ؟
سرینواس نے ویرپن کی بہن ماری کو اپنے کلینک میں کام کرنے کے لیے رکھا۔ اس کا شوہر جیل میں تھا اور اس کے تین بچے تھے۔ ماری پانی گرم کرنے اور دوائی کی گولیاں بنانے جیسے کام کرتی تھیں۔ وہ ویرپن کی سب سے پیاری بہن تھیں۔
سرینواس سپیشل ٹاسک فورس کے سربراہ تھے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ ویرپن کو ہتھیار ڈلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی لیے انھوں نے سرکاری ریکارڈ میں ان کے ساتھیوں کی گرفتاری ظاہر نہیں کی۔
ایک بار ٹاسک فورس نے ویرپن کے گاؤں کا محاصرہ کر کے اسے پکڑ لیا۔ سرینواسن کی ٹاسک فورس کو ویرپن پر گولی نہ چلانے کی سخت ہدایات تھیں۔
لیکن اس سے ٹاسک فورس کے اہلکاروں میں سرینواس کے تئیں غصہ بڑھ گیا۔ ان کا تعلق محکمہ پولیس سے تھا اور سرینواس محکمہ جنگلات سے تھے۔ پروٹوکول کے مطابق پولیس نے رپورٹ سرینواس کو سونپنی تھی۔
ایس ٹی ایف میں 'ٹائیگر' کے نام سے مشہور اشوک کمار کے مطابق: ’جب گاؤں والوں نے شام 6-7 بجے کے قریب سری نواس اور ماری کو جیپ میں ایک ساتھ جاتے ہوئے دیکھا تو کانسٹیبل سودھن نے دونوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی۔‘
سپیشل ٹاسک فورس کو کچھ عرصے سے ویرپن کے خلاف کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی۔ ایس ٹی ایف کمانڈنٹ نے گوپی ناتھم کے رہائیشیوں کو گرفتار کر لیا۔ چونکہ یہ ایک غیر تحریری معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ گوپی ناتھم والے سری نواس سے سخت ناراض تھے۔
ویرپپن کی بیوی متولکشمی پولیس کی حراست سے فرار ہو گئی تھی، ماری نے مبینہ طور پر اس کی مدد کی تھی۔ اس سے سرینواس کو بہت غصہ آیا۔
رگھورام اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اگر ماری نے متولکشمی کے بارے میں تمام معلومات ظاہر نہیں کیں تو انھیں برہنہ کرنے اور بجلی کے جھٹکے دینے کی دھمکی دی گئی۔ ماری یہ سن کر ڈر گئی۔‘
متھولکشمی کے مطابق: 'ویرپپن نے اپنی بہن کو لکھا کہ اگر اب تم سرینواس سے ملو تو اسے گرم تیل ڈال کر مار دو۔ ورنہ تم میری بہن نہیں ہو۔‘
کچھ ہی دنوں میں ماری نے خودکشی کر لی۔ اس کی وجہ سے ویرپپن ناراض ہو گئے۔
اس وقت کے فاریسٹ آفیسر بی کے سنگھ کے مطابق: 'ایس ٹی ایف کے جوان ویرپپن سے متعلق ایک بھی کیس حل نہیں کر سکے، جب کہ سرینواس نے تنہا ہی 22 لوگوں کی خود سپردگی کروائی۔‘
ایک زمانے میں انڈیا میں ہاتھ دانت کے لیے ان کا شکار کیا جاتا تھاآخری ملاقات اور سرینواس کا اختتام
وہاں سرینواس نے ارجنن کو جیل سے نکالنے کے لیے اپنے ذاتی رابطوں کا استعمال کیا۔ سرینواس نے 12 ستمبر 1991 کو اپنی 37 ویں سالگرہ منائی۔ ویرپن ماری کی موت کی وجہ سے بہت ناراض تھا۔ لیکن سرینواس کو اس کا علم نہیں تھا۔
ایس ٹی ایف میں ان کا عہدہ ختم ہو گیا تھا، لیکن سرینواس کو امید تھی کہ ارجنن واپسی پر کوئی اچھی خبر لائے گا۔ چنانچہ اس نے سینیئرز سے 15 دن کا وقت مانگا۔
سرینواس کو دیے جانے والے اعزاز 'کیرتی چکر' کے متن کے مطابق ایک دن جب سرینواس کالی مندر میں پوجا کر رہے تھے، ارجن نے آ کر سرینواس سے کہا کہ ویرپن اپنے ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے شرط رکھی کہ سرینواس کے ساتھ ایک بھی پولیس اہلکار نہیں ہونا چاہیے۔ ایک غیر مسلح سرینواس نے 9 نومبر کی صبح گوپی ناتھم کو ارجنن کے ساتھ چھوڑا۔
تقریباً چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ارجنن نے ایک چشمے کے کنارے آرام کے لیے رکنے کو کہا۔ ویرپن کے گینگ کے رکن کولانڈی نے انھیں گولی مار دی۔ یہ ویرپپن اور سرینواسں کے درمیان ڈرامہ کا جیسے آخری سین تھا۔ ویرپن نے اپنی بہن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اپنے بھائی ارجنن کو استعمال کیا تھا۔
سرینواس کی لاش کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ اس کا سر اور ہاتھ دونوں کاٹ دیے گئے۔ ویرپن نے اپنے گاؤں، محکمہ جنگلات اور خصوصی ٹاسک فورس میں ایک مثال قائم کرنے کی کوشش کی۔ رگھورام اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ متولکشمی نے سرینواس کے سر پر لات ماری۔
18 اکتوبر 2004 کو، ویرپن اور تین دیگر ساتھیوں کو تمل ناڈو پولیس کی سپیشل ٹاسک فورس نے گرفتار کیا۔ ویرپپن کو پکڑنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے اور ہزاروں لوگوں کو ملازمت دی گئی۔
ہائیکورٹ میں کیس کی انکوائری کا مطالبہ کیا گیا۔ ویرپن اور اس کے گینگ پر تقریباً 2,000 نر ہاتھیوں کا غیر قانونی شکار کرنے، 40,000 کلو گرام صندل کی لکڑی سمگل کرنے، 124 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے، جن میں سے نصف جنگل کے اہلکار یا پولیس والے تھے۔
اس کے علاوہ ہائی کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کنڑ فلم اداکار راج کمار کو ویرپن کے اپنے ہی لوگوں نے اغوا کیا تھا۔ لیکن سی بی آئی کی جانچ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔