40 افراد کو قتل کرنے اور کوئی سراغ نہ چھوڑنے والے سیریل کِلر تک پولیس کیسے پہنچی؟

انڈیا کی مغربی ساحلی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں رمن راگھو نامی ایک قاتل نے انتہائی پیچیدہ اور وحشیانہ حملے میں نو افراد کو قتل کر دیا تھا۔ بعد میں جب اس نے تھانے آکر پولیس کو بتایا کہ اس نے قتل کیے ہیں تو پولیس نے سمجھا کہ وہ کوئی ذہنی مریض ہے۔ اس لیے رمن راگھو کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔

انڈیا کی مغربی ساحلی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں رمن راگھو نامی ایک قاتل نے انتہائی پیچیدہ اور وحشیانہ حملے میں نو افراد کو قتل کر دیا تھا۔ بعد میں جب اس نے تھانے آ کر پولیس کو بتایا کہ اس نے نو قتل کیے ہیں تو پولیس نے سمجھا کہ وہ کوئی ذہنی مریض ہے۔ اس لیے رمن راگھو کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔

وہی رمن راگھو جب اگلے چند برسوں میں 40 لوگوں کی جان لینے والا سیریل کلر بن گیا تو نہ صرف ممبئی بلکہ پورے ملک میں خوف پھیل گیا۔

بغیر کسی جدید ہتھیار کے اس نے بے گناہوں کو بیدردی سے سروں پر پتھر اور لوہے کی سلاخوں سے مار ڈالا۔

یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ خیالی فلمی ولن کے بجائے رمن راگھو نے یہ تمام قتل انتہائی سفاکانہ انداز میں کیے جو بعد میں بہت سی دستاویزی فلموں اور ویب سیریز وغیرہ کا موضوع بنے۔

انوراگ کشیپ کی فلم رمن راگھو 2.0 ان فلموں میں سے ایک ہے۔

اس فلم میں نواز الدین صدیقی نے رمن راگھو کا کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ یہ فلم رمن راگھو کی سچی کہانی بتانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ حقیقی رمن راگھو کی کہانی نہیں ہے۔

رمن راگھو نے اصل میں کیا کیا؟

سیریل کلر رمن راگھو نے پوچھ گچھ کے دوران پولیس کو بتایا کہ بھگوان نے اسے یہ قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ رمن راگھو نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ ان کے ساتھ وائرلیس رابطے میں تھا اور انھوں نے مزید کچھ باتیں کہی تھیں جسے اس وقت میڈیا نے رپورٹ کیا تھا۔

جس پولیس افسر نے رمن راگھو کو پکڑا اور جیل تک پہنچایا، انھوں نے تحقیقات کی تفصیلات کو کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے جو کہ انٹرویوز پر مبنی ہے۔

رمن راگھو واقعی کون ہے؟ اس نے معصوم شہریوں کو کیوں مارا؟ آخر میں اس کے ساتھ کیا ہوا؟

آئیے ہم رمن راگھو کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

رمن راگھو
BBC

ممبئی خوف کی گرفت میں

ہم نے پرانی فلموں میں دیکھا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ممبئی کیسا نظر آتا تھا۔ ممبئی ایک بھیڑ بھاڑ والا بڑا شہر تھا۔

ممبئی کی دلکشی کی وجہ سے ملک بھر سے لوگ یہاں رہنے کے لیے آتے تھے۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ممبئی کے گنجان آباد علاقوں میں رہتی تھی، چونکہ یہ ایک مہنگا شہر ہے اس لیے بعض اوقات لوگ فٹ پاتھوں پر بھی رہنے کے لیے مجبور ہوتے تھے۔

1965-66 کے دوران فٹ پاتھوں اور کچی جھونپڑیوں میں رہنے والے بہت سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

اسی دوران نامعلوم افراد کی جانب سے رات کے وقت فٹ پاتھ سمیت کھلے مقامات مقامات پر سوئے ہوئے معصوم شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے واقعات پیش آنے لگے۔ اس میں مشرقی مضافات میں جی آئی پی لائن کے آس پاس رہنے والے 19 افراد پر حملہ شامل تھا۔ یعنی ریلوے سٹیشن کے قریب رہنے والے 19 افراد پر وحشیانہ حملہ کیا گیا جن میں سے 9 افراد تو جائے واردات پر ہی دم توڑ گئے۔

یہاں تک کہ پولیس بھی یہ پتہ لگانے سے قاصر رہی کہ یہ حملے کون کر رہا ہے۔ پولیس کو یہ شبہ بھی تھا کہ شاید کسی ذہنی مریض نے ایسا وحشیانہ حملہ کیا ہو۔ ان واقعات میں زندہ بچ جانے والوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ ان پر کس نے حملہ کیا۔ اس سے پولیس کے لیے مجرم کی شناخت کرنا اور اس کے قریب پہنچنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گیا تھا۔

دریں اثنا پولیس نے پرانے اور عادی مجرموں سے پوچھ گچھ شروع کر دی، پورے علاقے میں رات کا گشت کیا جانے لگا۔

اسی تفتیش کے دوران پولیس نے ایزام نامی شخص کو پکڑ کر پوچھ گچھ کی تو اس کا اصل نام رمن راگھو نکلا۔

لیکن پولیس نے اسے رہا کر دیا کیونکہ اس کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں تھے کہ اسی نے وحشیانہ حملے اور قتل کیے تھے اور اسے ممبئی سے دور رہنے کے لیے کہا گیا۔ پولیس نے اسے ممبئی میں داخل نہ ہونے کی بھی وارننگ دی تھی۔

دو سال بعد وہی رمن راگھو سندھی تلوائی، ویلسوامی، تھمبی، انّا وغیرہ جیسے ناموں کے ساتھ ممبئی واپس آیا اور بہت سے معصوم غریبوں کا قتل عام کیا۔

دو سال بعد قتل عام دوبارہ شروع ہوا

1968 کے وسط تک ممبئی کی سڑکوں پر ایسے ہی واقعات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے معصوم شہریوں کو لوہے کی سلاخوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اگرچہ رمن راگھو عرف سندھی تلوائی نے پولیس ریکارڈ میں 24 قتل کیے تھے لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس وقت راماکانت کلکرنی نئے نئے پولیس افسر تعینات ہوئے تھے۔ انھوں نے حملہ کیس پر زیادہ توجہ دینا شروع کی۔

وہی رماکانت کلکرنی بعد میں مہاراشٹر کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ان کی تفتیش کا طریقہ اس دور میں بہت مشہور تھا۔ ان کا موازنہ مشہور زمانہ جاسوسی ناول کے کردار شرلاک ہومز سے کیا جانے لگا۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے 'فووٹ پرنٹس آن دی سینڈ آف کرائم' کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے مشکل اور پیچیدہ مقدمات کی تفصیلات اور مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے تجربات درج کیے۔ اس میں رمن راگھ کی کہانی بھی شامل ہے۔

انھوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح رمن راگھو کو راماکانت کلکرنی نے پکڑا اور ایک سیریل کلر کے طور پر اس کی تفتیش کی۔

بالی وڈ فلموں اور ان کی کہانیوں پر یقین رکھنے والی نسل کو ایسا لگتا ہے کہ جب پولیس مجرم کو پکڑتی ہے تو کیس ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن پولیس کے لیے کیس وہاں سے شروع ہوتا ہے۔

مسٹر کلکرنی نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ 'انڈین عدلیہ ملزمان کی جانب سے پولیس کو دیے گئے بیانات کو قبول نہیں کرتی۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے ہی صرف ملزم کا بیان قابل قبول ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کی طرف سے رپورٹ کی گئی ہر تفتیشی معلومات کے لیے الگ الگ شواہد عدالت میں پیش کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اس کے خلاف جرم ثابت ہو سکتا ہے۔'

سیریل کلر کو کیسے تلاش کیا گیا؟

راماکانت کلکرنی نام کے ایک نوجوان پولیس افسر نے ممبئی پولیس سٹیشنوں کے پرانے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دیکھا کہ ایک شخص کو دو سال قبل سڑک کے کنارے قتل کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔

اس بار بھی تفتیشی افسروں نے رمن راگھو پر مجرم ہونے کا شبہ کیا جس کے تحت انھوں تفتیش کے نقطوں کو جوڑنا شروع کیا۔ رمن راگھو کو کئی ناموں سے جانا جاتا تھا۔ ممبئی سے نکالے جانے کے بعد پولیس کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔

رمن راگھو کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ سڑک پر رہتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے تھانے میں اس کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔

ان دنوں ایک عام نظر آنے والے گلی میں رہنے والے کی تلاش ممبئی جیسے شہر میں بہت آسان کام نہیں تھا۔

اور اتنی تلاش کے باوجود ایسے قتل کرنے والے شخص کا ملنا بہت غیر متوقع تھا۔ اتنا ہی نہیں پولیس کے پاس رمن راگھو عرف صدیق تلوائی عرف تمبی کے نام والے شخص پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے ٹھوس شواہد نہیں تھے۔

راماکانت کلکرنی کی کتاب میں لکھا ہے کہ 'یہ اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر کے طور پر کام کرنے والے نوجوان ایلکس فیالہو کی دریافت تھی جس کی وجہ سے رمن راگھو کی گرفتاری عمل میں آئی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’فریج قتل‘: کیا انڈیا میں قاتل ایک دوسرے کی نقل کر رہے ہیں؟

دولت کی ہوس، نائیلون کی رسی اور 10 افراد کی موت، وہ ہولناک قتل جو دہشت کی علامت بن گئے

میڈیا آؤٹ لیٹ 'کرائم وائر' میں شائع ایک مضمون میں فیالہو نے اس تجربے کو بیان کیا ہے۔ 'میری جیب میں اس سیریل کلر کی خیالی تصویر تھی۔ اور ایک دن جب میں کام پر جانے کے لیے بس سٹیشن پر انتظار کر رہا تھا، مجھے خاکی اور نیلے رنگ میں ایک شخص ملا جو میری جیب میں موجود تصویر میں موجود شخص کے چہرے سے ملتا جلتا دکھتا تھا۔

'اس شخص نے ہاتھ میں گیلی چھتری پکڑی ہوئی تھی۔ لیکن جنوبی ممبئی کے علاقے میں جہاں میں اس وقت تھا وہاں بارش نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے جو گیلی چھتری پکڑی ہوئی تھی اس سے میرے شبہے کو تقویت ملی۔ جب میں نے اس آدمی سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ مالات سے آیا ہے۔ دو دن پہلے ممبئی کے اسی علاقے میں چار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔'

'کرائم وائر' میں لکھا ہے کہ ’جب اسے پولیس سٹیشن لے جایا گیا اور اچھی طرح سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس کے پاس دھات کی انگوٹھی پائی گئی جسے درزی سوئی چبھنے سے بچنے کے لیے پہنتا ہے۔ دو دن پہلے مالات کے قتل عام میں ایک درزی بھی مارا گیا تھا۔ پتہ چلا کہ اس شخص نے جو دھات کی انگوٹھی پہن رکھی تھی وہ اسی درزی کی تھی۔‘

رمن راگھو کو 27 اگست 1968 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پھر مقدمہ اس کے جرم کے اعتراف، عدالتی سماعتوں، فیصلے اور ہائی کورٹ میں دوبارہ ٹرائل کے ساتھ آگے بڑھا۔

چکن کھانے کے بعد ہی منہ کھولا

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیریل کلر رمن راگھو ذہنی طور پر بیمار تھا۔ لیکن پولیس نے اندازہ لگانا شروع کر دیا کہ وہ کس قدر مشکل اور سنکی انسان ہے۔

راماکانت کلکرنی کی کتاب کے مطابق اس کا منہ کھلوانا آسان کام نہیں تھا۔ یہیں سے پولیس کی اصل جدوجہد شروع ہوئی۔ کلکرنی کو لگا کہ انھیں بھی اس پوچھ گچھ کے دوران بات کرنی پڑے گی۔

کیوںکہ پولیس کے لاکھ پوچھنے کے باوجود وہ کچھ بھی بولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس معاملے میں تفتیشی افسران نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ چکن چاہیے؟ اس کے بعد پولیس نے مرغی کا گوشت خریدا۔

بعد ازاں اس نے پولیس سے خوشبودار تیل اور آئینہ مانگا۔ تیل سر پر مالش کرنے کے لیے درکار تھا۔ پھر پولیس والوں نے آہستہ آہستہ اس سے چیزیں نکالنے کی کوشش کی اور وہ سر پر خوشبو دار تیل ملنے کے بعد مطمئن تھا۔

اس کے بعد ہی قاتل نے منہ کھولا اور کئی سچ باتیں بتائيں۔ وہ پولیس کے ساتھ گیا اور انھیں وہ جگہیں دکھائیں جہاں قتل ہوا تھا، وہ جگہ جہاں قتل کے لیے استعمال ہونے والے آلات رکھے تھے اور قتل کی جگہ سے اٹھائی گئی کچھ چیزیں دکھائیں۔ اس نے عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے بھی ایسا ہی بیان دینے کا وعدہ کیا۔

پہلے سزائے موت، پھر عمر قید

جب رمن راگھو کے خلاف نچلی عدالت میں مقدمہ زیر التوا تھا تو اس نے عدالت کو وہ سب کچھ بتایا جو ان کے ذہن میں آیا۔ اس نے ایسا سلوک کیا جیسے وہ ذہنی مریض ہو۔ تاہم عدالت نے ان کے بیانات سننے کے بعد پایا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار دکھائی نہیں دیتے اور انھیں سزائے موت سنائی۔

لیکن موت کی سزا براہ راست نہیں دی جا سکتی۔ اس کے لیے ہائی کورٹ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ اس کے مطابق اس سیریل کلر کو سنائی گئی سزائے موت سے متعلق کیس ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔

ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق نفسیاتی ماہرین کی ایک ٹیم کو یہ معلوم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا کہ کیا رمن راگھو ذہنی طور پر بیمار تھا اور جرم کے وقت اس کی ذہنی حالت کیا تھی۔

رامن راگھو نے کہا کہ انھوں نے بھگوان کا حکم پورا کیا ہے۔

ہائی کورٹ نے اپنے چار اگست 1987 کے فیصلے میں کہا کہ ’وہ کہتا ہے کہ اسے بھگوان نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسے یہ پتا چلتا ہے کہ ملزم نے کسی خیالی دنیا میں رہتے ہوئے یہ حرکتیں کی ہیں۔ اسے دائمی پیرانائڈ شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس لیے موت کی سزا کو ختم کیا جانا چاہیے اور عمر قید کی سزا ہونی چاہیے۔ اسے نفسیاتی علاج دیا جانا چاہیے۔‘

عمر قید اور جیل میں موت

شیزوفرینیا ایک اصطلاح ہے جس سے مراد مکمل ذہنی بیماری ہے۔ اس عارضے میں مبتلا شخص کی شخصیت مختلف حالت میں مختلف ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ ایک خیالی دنیا میں رہتا ہے۔

اس سے متاثرہ لوگ ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی ان سے بات کر رہا ہو۔ ان کے کانوں میں نہ صرف آوازیں گونجتی رہتی ہیں بلکہ منفی خیالات بھی اُبھرتے رہتے ہیں۔ یہ بات ایسے لوگوں کو جارحانہ بنا دیتی ہے۔ نیز یہ خطرہ بھی رہتا ہے کہ ان کے ذہنوں میں دوسروں کو مارنے کے خیالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق ماہر نفسیات آنند بھٹکر نے رمن راگھو سے کئی بار بات کی جب وہ 70 کی دہائی میں جیل میں تھے۔ ماہر نفسیات بھٹکر کی پیشین گوئی کے مطابق طویل ذہنی بیماری نے رمن راگھو کو قاتل بنا دیا۔

ممبئی کی تاریخ کے اس سفاک، سنکی، نفسیاتی سیریل کلر کو بالآخر عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اسے پونے کی یرودا جیل بھیج دیا گیا۔

اس بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ آیا اس کا واقعی علاج کیا گیا تھا، یا اس کی ذہنی حالت جیل میں کیسی تھی۔ لیکن اپریل 1995 میں رمن راگھو کی یرودا سینٹرل جیل میں گردے فیل ہونے سے موت واقع ہو گئی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US