اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت پر رہائی کی منظوری دی ہے۔منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژنل بینچ طے شدہ وقت سے تقریباً پونے دو گھنٹے تاخیر سے عدالت میں پہنچا۔ وکلا مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندگان کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے ایک جملے میں فیصلہ سنایا۔چیف جسٹس نے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کل کی سماعت کا کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں سنایا جائے گا بلکہ ایک گھنٹے بعد آپ کو تحریری فیصلہ مل جائے گا۔‘ وکلا نے استفسار کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔جس کے بعد وکلا کمرہ عدالت سے باہر آ گئے۔ اس موقع پر عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن بیرسٹر گوہر نے صحافیوں کو بتایا کہ عمران خان کی سزا معطل ہو گئی ہے اور ہمیں جونہی فیصلہ ملے گا ہم روبکار لے کر اٹک جیل جائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اخلاقی طور پر عمران خان کو اب گرفتار نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر ایسا کرتے ہیں تو ہم نے اس کے حوالے سے بھی ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔‘سزا معطلی کا مطلب کیا ہے؟تحریک انصاف کی لیگ ٹیم کی رکن مشال آفریدی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’عملی طور پر توشہ خانہ کیس آج ختم ہو گیا ہے اور ہم نے عوام کی مدد سے انصاف چھین کر حاصل کیا ہے۔اس کیس کے علاوہ کسی کیس میں گرفتاری کے خدشے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہم نے سائفر کیس میں درخواست دائر کی ہوئی ہے اور نمبر لگ چکا ہے۔ قانون کے مطابق جب نمبر لگ جائے تو اس میں کوئی گرفتاری نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ نامعلوم ایف آئی آرز کے حوالے سے بھی عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔عمران خان کے وکلا نے بتایا کہ آج کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو جو سزا سنائی تھی اس میں ان کی سزا معطل ہوئی ہے تاہم اس کیس میں اپیل پر سماعت بعد میں ہو گی جس کے تحت کوشش کریں گے کہ عدالت ان کو بری کرے۔کیا عمران خان کی نا اہلی ختم ہو گئی ہے؟عدالت کی جانب سے عمران خان کی سزا معطل ہونے کے بعد یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان کی نا اہلی بھی ختم ہو گئی ہے؟ اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ہنگامی بنیادوں پر ایک شخص کی آزادی کے حق کو سامنے رکھتے ہوئے جلدی میں فیصلہ کیا ہے جس کو سراہا جانا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کی سزا معطلی نا اہلی کی معطلی نہیں ہے۔ ان کی نااہلی دو طرح کی ہے۔ ایک نا اہلی سول ہے جو الیکشن کمیشن نے کی جبکہ دوسری اسی میں سے شاخ نکلی جو کرمنل ہے۔ اس وقت صرف ان کو جیل سے رہائی ملے گی۔ جب اپیل میں فیصلہ ہو گا تو اس وقت اگر ان کو بری کر دیا جاتا ہے تو اس وقت ان کی نا اہلی برقرار رہے گی۔‘ ماہر قانون عمر گیلانی نے بتایا کہ جب تک عمران خان کی مرکزی اپیل کی سماعت جاری ہے اور وہ حتمی طور پر باعزت بری نہیں ہو جاتے ان کی نا اہلی برقرار رہے گی۔انھوں نے کہا کہ کرمنل اور سول قانون میں فرق یہ ہے کہ سول میں آرڈر کو معطل کیا جائے تو صرف قید کی سزا معطل ہوتی ہے مجموعی سزا اور اس کے نتائج برقرار رہتے ہیں۔’اس کیس میں عدالت نے صرف قید کی سزا معطل کی ہے ان کی باقی سزا برقرار ہے۔ اس لیے عمران خان نااہل ہی رہیں گے۔‘