غزہ پر اسرائیلی بمباری: ’ہم ایک ساتھ سوتے ہیں تاکہ ایک ساتھ مر سکیں‘

غزہ میں اسرائیل بمباری کے سائے میں رہنے والے ایسے خاندانوں کی کہانی جنھوں نے غزہ کی پٹی میں بار بار جنگیں دیکھی ہیں، لیکن موجودہ جنگ کو وہ پہلی جنگوں سے ’مختلف‘ قرار دیتے ہیں۔
غزہ میں بچے
Reuters
عزہ پر گذشتہ سنیچر سے جاری اسرائیلی بمباری میں سینکڑوں بچے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں

ایک ایسے خطے میں جہاں تقریباً 20 لاکھ افراد کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ بچے ہیں، جنگ کے اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں پر اس کے کئی برس تک انتہائی برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ والدین اپنے بچوں کو جنگ کے برے اثرات سے کیسے بچا سکتے ہیں۔

اور کیا اس دوران نفسیاتی دیکھ بھال کا کوئی طریقہ موجود ہے؟

اس رپورٹ میں ہم نے غزہ میں اسرائیل بمباری کے سائے میں رہنے والے ایسے خاندانوں کی کہانی بیان کی ہے جنھوں نے غزہ کی پٹی میں بار بار جنگیں دیکھی ہیں، لیکن موجودہ جنگ کو وہ پہلی جنگوں سے ’مختلف‘ قرار دیتے ہیں۔

صحافی حنان ابو دغیم نے مجھ سے واٹس ایپ کے ذریعے کی گئی مختصر گفتگو میں کہا کہ انھوں نے اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے ان حالات میں اپنا پیشہ ترک کر دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’الرمل محلے میں میرے گھر کو شدید نقصان پہنچا۔ کچھ دن پہلے، میں وہاں سے اپنے بھائی کے گھر منتقل ہوئی، جہاں تین خاندانوں نے ایک ساتھ رات گزاری۔ جب بمباری میں شدت آتی ہے تو بچے ورد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بمباری تیز ہوتی ہے تو میں بچوں کو اکٹھا کرتی ہوں اور ان کے ساتھ کھیل کر ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہوں، حالانکہ مجھے اپنے دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے کسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن میں انھیں کہتی ہوں کہ یہ ایک بحران ہے اور یہ گزر جائے گا، اور یہ کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘

حنان، جو ان حالات میں صحافی کا کردار بھی ادا کر رہی ہیں کہتی ہیں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ ان کے خاندان کی حفاظت ایک ترجیح ہے، اور وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ غزہ کی پٹی کے لوگ ایک نظریے پر متحد ہیں اور وہ یہ ہے کہ ’اپنے تمام بچوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سونا تاکہ اگر کوئی گولہ گھر پر گرے تو سب مر جائیں۔‘

یہ اس لیے تاکہ خاندان ایک ساتھ رہے اورکوئی زندہ نہ رہے اور نہ ہی کسی کو مرنے والوں کا ماتم کرنا پڑے۔

نقشہ غزہ
BBC

’جب بمباری ختم ہو جائے گی، میں تمھیں ایک اچھا تحفہ خرید کر دوں گی‘

غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس میں رہنے والی سحر کمال نامی ایک اور ماں کے دو بچے ہیں۔ جب بمباری میں شدت آتی ہے تو ان کی بیٹی چار سال کی ریتل بمباری کی پریشان کن آواز کی شکایت کرنے لگتی ہے۔

اس لیے سحر کو ان سے وعدہ کرنا پڑتا ہے کہ ’صورت حال بہتر ہوتے ہی وہ انھیں ایک خوبصورت تحفہ لے کر دیں گی، بشرطیکہ وہ انھیں تنگ نہیں کریں گی.‘

سحر اپنے دو سالہ بچے کو بھی ہنسانے کے لیے مضحکہ خیز آوازیں نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔

پانچ بچوں کی 30 سالہ ماں لیلیٰ محمد کہتی ہیں کہ ایک ماں کے طور پر وہ اپنے بچوں کے لیے بہت خوفزدہ رہتی ہیں اور گھر کے اندر ان کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ وہ باہر جانا اور بے گھر ہونے کو ’بہت مشکل‘ سمجھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس جنگ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے، اور ماضی کی جنگوں میں نقل مکانی کے تجربے کے بعد، میری بیٹی سلمیٰ کو وہ لمحات اب بھی یاد ہیں اور ہر روز وہ مجھ سے کہتی ہیں ’میں گھر چھوڑنا نہیں چاہتی، میں جانا نہیں چاہتی۔‘

’وہ محسوس کرتی ہے کہ میزائل گلی میں چلنے والے ہر شخص کا پیچھا کر رہے ہیں کیونکہ ہم پہلے بھی ان لمحوں سے گزر چکے ہیں، اور وہ اس سے ڈرتی ہے۔‘

منال سالم کے لیے صورت حال کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کمرے میں بیٹھتی ہیں اور وہ کھلونوں کا بندوبست کرنے لگتے ہیں تاکہ وہ بم دھماکے کی آوازوں پر توجہ نہ دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا بڑا بیٹا، فارس، جو آٹھ سال کا ہے، بہت زیادہ باتھ روم جاتا ہے اور بعض اوقات انتہائی خوف کی وجہ سے اپنے اوپر پیشاب کرتا ہے۔‘

’اسے ہوائی جہازوں کی آواز سے نفرت ہے۔ میں چاہتیہوں کہ اپنے بچوں کے علاج کے لیے ماہر نفسیات کے پاس جاؤں اور اس صورتحال سے نکل سکوں۔‘

تعرض قطاع غزة لخمسة حروب منذ عام 2008
BBC / Samar Abu ElOuf
تعرض قطاع غزة لخمس حروب منذ عام 2008 /حرب 2023

’بچوں کی نظمیں میزائلوں کی آواز سے زیادہ بلند تھیں‘

ایمان بشیر اس جنگ کو ’ذشتہ جنگوں سے مختلف تصور کرتی ہیں۔ وہ تین بچوں کی ماں ہیں اور ان سے میں نے مئی 2021 میں غزہ پر گذشتہ جنگ کے دوران بات کی تھی۔ اس وقت، انھوں نے مجھے اپنے بچوں کو جنگ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نفسیاتی طور پر مدد کرنے کے لیے کچھ ذاتی کوششوں کے بارے میں بتایا تھا۔

جیسے کہ بمباری کے دوران کہانیاں پڑھنا، اور اگر بمباری اونچی آواز میں ہو، تو وہ اونچی آواز میں گانے سپیکر پر چلا دینا تاکہ بچے باہر میزائلوں کی آواز نہ سن سکیں۔

لیکن اب سات اکتوبر کی صبح شروع ہونے والی اس جنگ کے دوران ایمان واٹس ایپ کے ذریعے ایک بہت ہی مختصر پیغام میں کہتی ہیں کہ ’اس مرتبہ (جنگ) مختلف ہے، صورتحال بہت بری ہے۔ میں نہیں جانتی کہ کیا کروں، کیوں کہ میرے شوہر ملک سے باہر ہیں اور میرے تین بچے ہیں، اور حالات اس لیے بھی زیادہ خراب ہوتے جا رہے ہیں کہ بجلی منقطع ہے، اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ کیا کروں، بس ہمارے لیے دعا کریں۔‘

https://twitter.com/SometimesPooh/status/1711351676655804669

ایمان نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تفصیلات ان کے لیے بیان کرنا تکلیف دہ بھی ہے جس میں اس محلے پر بمباری بھی شامل ہے جہاں ان کے اہلخانہ کچھ دن پہلے رہتے تھے۔

’مسلسل نفسیاتی بحران‘

غزہ
BBC

سیو دی چلڈرن نے گذشتہ سال ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں حالیہ برسوں میں غزہ کی پٹی میں بچوں کی نفسیاتی حالت کا موازنہ پیش کیا گیا تھا، اور یہ بتایا گیا تھا کہ 2022 میں تقریباً 88 فیصد بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے جبکہ پچھلے سالوں میں یہ شرح 55 فیصد تھی۔

رپورٹ کے مطابق بچوں کو جن نفسیاتی عوارض کا سامنا ہے، ان میں سے جن کی شرح بڑھ رہی ہے، ان میں خوف، اضطراب اور انتہائی اداسی شامل ہیں۔

غزہ کی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے، تقریباً 2.3 ملین فلسطینی 41 کلومیٹر لمبے اور 10 کلومیٹر چوڑے علاقے میں رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 80 فیصد آبادی کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے اور تقریباً 10 لاکھ افراد روزانہ خوراک کے حوالے سے بھی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

ہر جنگ کے ساتھ، یا اس کے بعد امدادی کارکن اور غیر سرکاری تنظیمیں بچوں کو ان صدموں پر قابو پانے میں مدد کرنے کی کوشش کرتی ہیں جن کا وہ تجربہ کرتے ہیں۔ ان میں احمد حجازی نام کا ایک نوجوان کارکن بھی ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے کچھ آسان اور بامقصد سرگرمیاں ایک مقصد کے ساتھ دستاویز کرتا ہے ’غزہ کے بچوں کو خوش کرنا۔‘

لیکن نوجوان احمد حجازی نے جو کچھ پیش کیا وہ جنگ شروع ہوتے ہی بدل گیا، اس نے غزہ کی پٹی میں بچوں کی صحت کی صورت حال کو دستاویزی شکل دینا شروع کر دی، چاہے وہ خود بمباری کا شکار ہوئے ہوں یا ان دنوں وہ کیا تجربہ کر رہے ہیں۔

https://twitter.com/EyeonPalestine/status/1711882873240731906

جو چیز نفسیاتی بحران کی شدت میں اضافہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بچے غزہ میں اس محاصرے میں رہتے تھے جس کا آغاز 16 سال پہلے ہوا تھا۔ یعنی وہ نہیں جانتے کہ پانچ جنگوں کے علاوہ غزہ کیسا تھا۔

نصف سكان قطاع غزة من الأطفال
BBC / Samar Abu ElOuf
نصف سكان قطاع غزة من الأطفال /حرب 2023

کیا جنگ کے وقت ذہنی صحت کا خیال رکھنا مشکل ہے؟

یہ سوال جنگی حالات میں رہنے والوں یا ان لوگوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے جو دور سے دیکھ رہے ہیں۔

غزہ میں محفوظ جگہ کی کمی اور سڑکوں کے نیٹ ورک میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ بجلی اور پانی کی بندش ہے۔ ایسے میں ذہنی صحت کا خیال رکھنا ایک غیر اہم بات لگتی ہے۔ لیکن ماہرین نفسیات کے مطابق نفسیاتی ابتدائی طبی امداد‘ طویل مدت میں فائدہ مند ہے۔

مثال کے طور پر ماہرین کے مطابق ’بچوں کو اپنے جذبات کے اظہار کرنے سے نقصان پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔‘

غزہ مینٹل ہیلتھ پروگرام کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر یاسر ابو جامعہ کہتے ہیں کہ ’بچوں کی علمی صلاحیتیں بڑوں کی طرح نہیں ہوتیں، لیکن وہ خطرے کو نمایاں طور پر محسوس کرتے ہیں، وہ ایسا صرف اپنے گھر والوں کی آنکھوں میں دیکھ کر خوف دیکھ کر محسوس کر لیتے ہیں یا جب انھیں اپنے بڑے تناؤ کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔ اور یقیناً جب وہ بمباری اور دھماکوں کی آوازیں سنتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ابو جامعہ غزہ کے لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ذہنی تناؤ اور پریشانی کو بڑوں سے بچوں میں منتقلی کو کم کرنے کے لیے کچھ عادات کو کم کرنے کی کوشش کریں، جیسا کہ ’والدین کو چاہیے کہ وہ کھڑکیوں سے دیکھنا کم کریں، ہر وقت خبروں پر نظر نہ رکھیں اور بچوں کو منصوبہ بندی میں شامل کریں۔ جیسے گھرمیں محفوظ جگہ کے لیے، یا کسی رشتہ دار کے گھر منتقل ہونے کا منصوبہ۔ اس فیصلے میں بچوں کو شامل کرنے سے وہ اطمینان محسوس کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ دھماکوں کی آواز سنتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ابو جامعہ مزید کہتے ہیں کہ والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ ’ان طریقوں پر عمل کریں جو ان کے بچوں کو پریشانی سے دور کرنے میں معاون ثابت ہوں، جیسے کہ انھیں اپنے خوف کے بارے میں بات کرنے کی ترغیب دینا، لیکن انھیں جھوٹی خبریں بتائے یا ان سے جھوٹے وعدے کیے بغیر یہ زیادہ مناسب ہے۔ خوف کے بارے میں بات کریں اور ان کے ساتھ معمول کی روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول رہیں۔‘

غزہ کی نوجوان آبادی
BBC

سکول پناہ گاہوں میں تبدیل

سکول عام طور پر بچوں کے لیے دوستوں سے ملنے، پڑھنے اور صحن میں کھیلنے کے لیے ایک جگہ ہوتی ہے، لیکن غزہ کی پٹی میں سکولوں نے بے گھر خاندانوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈبلیو آر اے کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے چھٹے دن جمعرات تک غزہ کے دو لاکھ 80 ہزار سے زیادہ شہری غزہ کی پٹی میں 92 سے زائد سکولوں اور اس سے منسلک سہولیات میں پناہ کے لیے گئے ہیں۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے کہا ہے کہ جن سکولوں میں لوگوں نے پناہ لی ہے وہاں بہت زیادہ لوگ موجود ہیں اور وہاں خوراک اور پانی کی فراہمی محدود ہے۔

 أكثر من 92 مدرسة ومرفقاً تابعاً لها في القطاع استقبلوا النازحين
BBC / Samar Abu ElOuf


’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا پورا جسم درد کر رہا ہے‘

شمالی غزہ کی پٹی کے جبالیہ کیمپ سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ ماں سعود جبر کہتی ہیں کہ مائیں جنگ میں مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہیں اس لیے انھیں اپنے بچوں کے سامنے مضبوط ہونا چاہیے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے بچوں سے دکھ چھپانے اور نہ رونے کی وجہ سے میرا پورا جسم درد کر رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ منفی توانائی میرے جسم کے پٹھوں میں کھچاؤ پیدا کر رہی ہے اور میرے اعصاب کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی میں اپنے بچوں کے سامنے مضبوط ہونے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

ہر ماں ضروری کاغذات رکھنے کے لیے ایک بیگ تیار کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ بمباری کے دوران وہ اور بچے جلدی سے باہر نکل سکیں۔

ایسا ہی سعود جبر کے ساتھ ہوا، جو السیکا کے علاقے میں بمباری کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر واپس چلی گیئں۔ کیونکہ وہاں ’کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US