انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں ایک قتل کے مقدمے میں پولیس نے جن چھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے ان میں مقتول کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔
انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں ایک قتل کے مقدمے میں پولیس نے جن چھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے ان میں مقتول کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے قتل کے منصوبے کے لیے ایک سانپ کی مدد حاصل کی تاکہ وہ مبینہ طور پر انشورنس کی رقم حاصل کر سکیں۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق سانپ نے مقتول کو گردن پر کاٹا جس کی وجہ سے اُن کی موت ہوئی۔
انتباہ: اس تحریر میں شامل معلومات قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔
چنئی تروولور ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ویکانند شُکلا کا اس کیس کے بارے میں کہنا ہے کہ انشورنس کمپنی کو مقتول کی اچانک موت پر شک ہوا جس کے بعد انھوں نے پولیس سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور یہ خوفناک حقیقت سامنے آئی۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ’اپنے والد کے نام پر موجود انشورنس پالیسی سے تین کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم حاصل کرنے کے لیے ان کے بچوں نے یہ گھناؤنی حرکت کی۔‘
پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟
تروولور ضلع کی تروتنی تحصیل سے تقریباً 20 کلومیٹر دور واقع پوتھٹورپیٹ نامی ایک گاؤں میں 22 اکتوبر کو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ 56 سالہ گنیشن کو سانپ نے کاٹ لیا جس کی وجہ سے اُن کی اچانک موت ہو گئی ہے۔
پولیس اہلکار ویکانند شُکلا کا کہنا ہے کہ گنیشن کے بیٹوں نے اپنے والد کی اچانک موت کے حوالے سے کہا کہ یہ غیر فطری موت ہے، یعنی اُن کے والد کی جان کسی حادثے کی وجہ سے نہیں گئی بلکہ کسی نے جان بوجھ کر اُن کے والد کو مارا ہے۔ بیٹوں کے اس بیان کی روشنی میں پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کر لیا اور اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز ہوا۔
مقتول گنیشن پوتھٹورپیٹ نامی علاقے کے ایک لڑکیوں کے سرکاری ہائی سکول میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس کیس کے ابتدائی مراحل میں پولیس نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ یہ واقعہ سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے ایک حادثاتی موت معلوم ہوتا ہے۔
’چار انشورنس پالیسیاں، تین کروڑ روپے‘
گنیشن کی موت کے چند دن بعد ہی ان کی اہلیہ سموتھی اور اُن کے بیٹوں نے گنیشن کے نام پر موجود انشورنس پالیسی کی رقم کے حصول کے لیے نجی انشورنس کمپنی سے رابطہ کیا۔
تروولور ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ویکانند شُکلا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’مقتول گنیشن اور ان کے خاندان نے 11 انشورنس پالیسیز لے رکھی تھیں۔ ان میں سے چار انشورنس پالیسیز گنیشن کے نام پر تھیں۔‘
پولیس سپرنٹنڈنٹ شُکلا نے مزید بتایا کہ گنیشن نے تین کروڑ روپے سے زیادہ کی انشورنس پالیسی لی تھی، جس میں ٹرم انشورنس بھی شامل تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’انشورنس کمپنی نے اس موت کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے شمالی زون کے آئی جی آسرا گرگ کے پاس شکایت درج کی۔‘
اس کیس کی گہرائی سے تحقیقات کے لیے ضلعی پولیس سپرنٹنڈنٹ نے چھ دسمبر کو ایک سب انسپکٹر جے شری کی قیادت میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی ہے۔
’زیادہ قرضے۔۔۔ زیادہ انشورنس‘
ضلع پولیس نے بتایا کہ کمیٹی کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گنیشن کے خاندان نے بڑے پیمانے پر قرضہ لے رکھا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے بہت بڑی رقم کی انشورنس پالیسیز بھی لی تھیں۔
ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ ویکانند شُکلا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’جس سوال کی تحقیقات پولیس نے کی وہ یہ تھا کہ ایک عام سرکاری ملازم کروڑوں روپے کی انشورنس پالیسی کیسے لے سکتا ہے۔
’اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے پولیس مزید تحقیقات بھی کر رہی ہے۔‘

ضلع پولیس نے بھی کہا ہے کہ ’خاندان کی آمدن کے ذرائع کے مقابلے میں انھوں نے جو قرضے اور بڑی رقم کی انشورنس پالیسیاں لی تھیں ان سے موت کی اصل وجہ پر سنگین شبہات پیدا ہوئے ہیں۔‘
پولیس سب انسپکٹر جے شری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انشورنس کمپنیاں انشورنس کی رقم ادا کرنے سے پہلے عموماً تحقیقات کرتی ہیں۔ اس لیے اپنے اس صارف کی اچانک موت پر شک ظاہر کیا جا رہا ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔‘
19 دسمبر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ضلعی پولیس سپرنٹنڈنٹ ویکانند شُکلا نے کہا تھا کہ ’گذشتہ کچھ ہفتوں سے خصوصی خفیہ تحقیقاتی ٹیم مسلسل تحقیقات کر رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گنیشن کے خاندان کے مالی لین دین اور انشورنس پالیسیز کی تمام تفصیلات اکٹھی کر لی گئی ہیں۔‘
’دو چونکا دینے والے واقعات‘
پولیس کے مطابق مبینہ طور پر گنیشن کے بیٹوں موہنراج اور ہاریکرن نے انشورنس کی رقم حاصل کرنے کے لیے اپنے والد کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔
پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’اس سازش کا حصہ بن کر ان دونوں نے بالاجی، پرشانت، دھنکرن اور نوین کمار سے رابطہ کیا۔ پھر انھوں نے اپنے والد کو قتل کرنے کے لیے سانپ کا انتظام کیا۔ اس کے بعد اپنے والد کی موت کو سانپ کے کاٹنے سے جوڑ دیا اور موت کے بعد یہ کہا کہ اُن کے والد کی موت سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے ہوئی۔‘
ضلعی پولیس نے بتایا کہ ’گنیشن کے بیٹوں نے انھیں قتل کرنے کی دو مرتبہ کوشش کی۔ پہلے گنیشن کی موت سے ایک ہفتہ قبل انھوں نے دھنکرن نام کے شخص سے زہریلا سانپ (ناگ) خریدا پھر اس سانپ کو گنیشن کے پیر پر کاٹنے کے لیے استعمال کیا۔‘
رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کوشش میں گنیشن کی موت نہیں ہوئی۔ پھر دوسری مرتبہ ان کے بیٹے 22 اکتوبر کی صبح منیار سانپ (کریٹ سنییک) گھر میں لائے اور جب گنیشن سو رہے تھے تو انھوں نے ان کے گلے پر اس سانپ چھوڑ دیا جس نے اُن کی گردن پر ڈس لیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئے۔
ہسپتال لے جانے میں ’تاخیر‘
ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ ویکانند شُکلا نے کہا کہ ’ان چھ ملزمان میں سے ایک کو سانپ سنبھالنے میں مہارت حاصل تھی۔ جس سانپ نے گنیشن کو کاٹا، وہ تین فٹ لمبا تھا۔ گنیشن کو کاٹنے والے سانپ کو انھوں نے موقع پر ہی مار ڈالا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’تحقیقات کے دوران یہ سامنے آیا کہ سانپ کے کاٹنے کے بعد گنیشن کو ہسپتال لے جانے میں بلاوجہ تاخیر سے کام لیا گیا۔ یہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ اس سارے معاملے کی پہلے سے منصوبہ بندی کا جا چُکی تھی اور یہ تاخیر بھی اُسی منصوبے کا حصہ تھی۔‘
گنیشن کے بھتیجے گنپتی نے کہا کہ ’پہلی بار جب گنیشن کو سانپ نے کاٹا تھا تو ان کے پیر پر زخم آیا تھا جس کا انھوں نے بروقت علاج کروایا تھا تاہم اس کے بعد بھی وہ ٹھیک سے کھا پی نہیں سکتے تھے۔‘
گنپتی نے بی بی سی کو بتایا کہ پوٹھٹورپیٹ میں رہنے والے گنیشن اور ان کے والد آپس میں بھائی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جب یہ واقعہ پیش آیا تو گنیشن گھر کے نچلے حصہ میں اپنے کمرے میں سو رہے تھے، جب ان کی گردن پر سانپ نے کاٹا تو انھیں تروتنی سرکاری ہسپتال لے جایا گیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جن ڈاکٹروں نے گنیشن کا معائنہ کیا انھوں نے کہا کہ ان کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوئی مگر اس معاملے میں ہونے والی تاخیر نے بڑا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد وہیں پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا۔‘
رشتہ داروں کا کیا کہنا ہے؟
گنپتی کے مطابق سنہ 2018 میں گنیشن نے اپنے والد کی زمین خریدی تھی اور وہاں دو منزلہ مکان تعمیر کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کے دو بیٹوں میں سے ایک چنئی میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا تھا، جبکہ دوسرا بیٹا مکینک کے طور پر کام کرتا تھا۔‘
گنپتی نے بتایا کہ چند سال پہلے گنیشن نے اپنے دونوں بیٹوں کی شادیاں بھی کر دی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’دونوں کے بچے بھی ہیں۔ گاؤں میں ان دونوں کے خلاف کبھی کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔ ان پر اتنا بڑا قرض تھا اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا۔‘
گنپتی نے یہ بھی بتایا کہ 19 دسمبر کی صبح پوٹھٹورپیٹ پولیس کی جانب سے دونوں بیٹوں کی گرفتاری کے بعد ہی انھیں ان تمام تفصیلات کا علم ہوا۔
گنیشن کی موت کے معاملے میں ہری ہارن، موہن راج، پرشانت، نوین کمار، بالاجی اور دھنکرن کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ضلع پولیس نے کہا ہے کہ ’اس کیس میں مزید تحقیقات جاری ہیں اور اضافی شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔‘
پولیس کے مطابق ’خصوصی تفتیشی ٹیم کی جانب سے کی گئی سائنسی، تکنیکی اور موقع پر کی گئی تحقیقات سے اس واقعے کی اصل حقیقت سامنے آ گئی ہے جو بظاہر سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی موت معلوم ہوتی تھی۔‘
پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ گنیشن کو پیسے حاصل کرنے کے لیے رچی گئی ایک مجرمانہ سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا۔
پولیس سب انسپکٹر جے شری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کیس ان کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ جاننے کے لیے کہ آیا اس کیس میں کوئی اور افراد بھی شامل ہیں یا نہیں، مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘