19 خواتین اور بچوں کے ریپ اور قتل کے الزام میں 14 سال سے سزائے موت کے منتظر دو ملزمان بری

انڈیا کی ایک عدالت نے برسوں سے سزائے موت کے منتظر دو ایسے ملزمان کو بری کر دیا ہے جن پر 19 خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا الزام تھا۔

انڈیا کی ایک عدالت نے برسوں سے سزائے موت کے منتظر دو ایسے ملزمان کو بری کر دیا ہے جن پر 19 خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا الزام تھا۔

سریندر کولی اور مونندر سنگھ پنڈھر کو 2009 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اُس وقت ان کیس میں سامنے آنے والی تفصیلات نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

انھیں سنہ 2006 میں اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب دہلی کے واقع ان کی رہائش گاہ کے قریب سے انسانی جسم کے اعضا برآمد ہوئے تھے۔ گرفتاری کے تین سال بعد تک یہ مقدمہ چلتا رہا اور بلآخر 2009 میں ان دونوں ملزمان کو سزائے موت سنا دی گئی۔

تاہم مقامی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ملزمان نے ہائیکورٹ میں اپیل کی اور پیر (آج) کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ملزم کولی کو اُن 12 مقدمات میں بے قصور قرار دیا جن میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

عدالت نے دوسرے ملزم پنڈھر کو بھی دو مقدمات میں قصوروار نہیں پایا۔ عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اُن کے وکیل نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں افراد کو ’عدم ثبوتوں‘کی وجہ سے بری کر دیا ہے، ہائیکورٹ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔

خواتین اور بچوں کے مبینہ قتل کا انکشاف سنہ 2006 میں اُس وقت ہوا جب دارالحکومت دلی کے ایک متمول مضافاتی علاقے ’نوئیڈا‘ میں واقع مونیندر سنگھ پنڈھر کے گھر کے سامنے موجود گٹر کے اندر سے جسمانی اعضا اور بچوں کے کپڑے ملے تھے۔

تصویر
Getty Images
میڈیا نے جرائم کی چونکا دینے والی نوعیت کی وجہ سے مرکزی ملزم کے گھر کو ’خوفناکیوں کا گھر‘ قرار دیا تھا

اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کم از کم 19 نوجوان خواتین اور بچوں کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا اور ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے پھینک دیے گئے۔ پولیس نے اُس وقت الزام لگایا تھا کہ یہ تمام وارداتیں پنڈھیر کے گھرہوئی تھیں جہاں کولی بطور ملازم کام کرتے تھے۔

پولیس نے الزام لگایا تھا جن بچوں کی باقیات ملی ہیں انھیں پنڈھیر کے ملازم کولی ورغلا کر اور مٹھائی اور چاکلیٹ کا لالچ دے کر پنڈھیر کے گھر لاتے تھے۔ پولیس نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ دوران تفتیش کولی نے اعتراف جرم کیا تھا تاہم جب انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے پولیس کو دیے گئے اپنے اعترافی بیان کو واپس لیا اور دعویٰ کیا کہ پولیس نے تشدد کے ذریعے ان سے یہ بیان لیا تھا۔

کولی نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ انھوں نے ’لاشوں کا ریپ کیا اور انسانی گوشت پکا کر کھایا۔‘

انڈیا میں سنگین جرائم کی تحقیقاتی ایجنسی ’سی بی آئی‘ نے ان دونوں افراد کے خلاف مجموعی طور پر قتل اور ریپ کے 19 مقدمات درج کیے، جب کہ کولی پر قتل، اغوا، ریپ اور ثبوتوں کو تباہ کرنے جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

تصویر
Getty Images
قتل ہونے والی ایک خاتنو پنکی سرکار کی والدہ بندنا سرکار ایک پیشی کے موقع پر

ان وارداتوں کی تفصیلات سامنے آنے پر ملکی سطح پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور بہت سے شہریوں نے پولیس پر غفلت کا الزام بھی لگایا۔ میڈیا نے جرائم کی چونکا دینے والی نوعیت کی وجہ سے مرکزی ملزم کے گھر کو ’خوفناکیوں کا گھر‘ قرار دیا تھا۔

مقامی باشندوں کا کہنا تھا کہ پولیس ابتدا میں کارروائی کرنے میں ناکام رہی کیونکہ لاپتہ ہونے کی اطلاع دینے والوں میں سے زیادہ تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ زیادہ تر بچے اور خواتین نٹھاری نامی قریبی کچی آبادی میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے اس کیس کو ’نٹھاری قتل‘ بھی کہا جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US