انڈین سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی قانونی قرار دینے کی اپیل مسترد کر دی، ’پارلیمان شادی سے متعلق قوانین وضع کرے‘

انڈیا کی سپریم کورٹ نے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی اپیل مسترد کر دیا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے لیے ایک دھچکا ہے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرست جوڑوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔

اس فیصلے کو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے لیے ایک دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔

پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے اپریل اور مئی کے درمیان کیس میں دلائل سننے کے بعد آج اس بارے میں فیصلہ سنایا ہے۔

فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنا عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور پارلیمنٹ کو شادی سے متعلق قوانین وضع کرنے چاہییں۔

عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ قانون ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کو بچہ گود لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس معاملے پر دو ججز انھیں یہ حق دینے کے حق میں تھے جبکہ تین ججز کو اس سے اختلاف تھا اور فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوا۔

چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ ’عدالت کو نظرِثانی کی طاقت کے استعمال والے معاملات، خاص طور پر پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والے معاملات میں جو قانون سازی کے دائرے میں آتے ہیں ان سے علیحدہ رہنا چاہیے۔‘

تاہم چندرچوڑ نے کہا کہ ریاست کو ہم جنس جوڑوں کو کچھ قانونی تحفظات فراہم کرنے چاہییں۔ اس کے لیے انھوں نے یہ دلیل دی کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو دیے گئے ’فوائد اور خدمات‘ سے انکار کرنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’زندگی کے ساتھی کا انتخاب کسی کے طرز زندگی کے انتخاب کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ حق (ہندوستان کے آئین کے) آرٹیکل 21 کے تحت زندگی اور آزادی کے حق کی بنیاد تک جاتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو یہ یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں کہ ہم جنس پرست افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انھوں نے ان کی امداد کے لیے ہاٹ لائنز قائم کرنے اور انھیں محفوظ گھر فراہم کرنے اور ایسے طبی طریقہ کار کو ختم کرنے کا مشورہ دیا جن کا مقصد صنفی شناخت یا جنسی رجحان کو تبدیل کرنا ہے۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں بہت سی چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس کے بغور مطالعے کی ضرورت ہے۔

بہرحال ججزحکومت کے وکیل کی جانب سے اس معاملے پر ایکسپرٹ پینل کے قیام کی تجویز پر متفق نظر آئے جس کی صدارت کیبنٹ سیکریٹری کریں گے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ کی جانب سے منگل کو ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے معاملے پر آنے والے فیصلے پر LGBTQ+ کمیونٹی کے لاکھوں لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔

یاد رہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ ہم جنس پرستوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے دائر 18 سے زیادہ درخواستوں کے مشترکہ کیس کی سماعت کر رہی تھی جس میں درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ شادی نہ کرنے کی وجہ سے وہ ’دوسرے درجے کے شہری‘ بن رہے ہیں۔

انڈیا میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اپریل اور مئی میں کیس کی تفصیل سے سماعت کی۔ عوامی مفاد میں اس عدالتی کارروائی کو لائیو سٹریم کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔

ابتدائی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ نے کہا تھا کہ وہ مذہبی ذاتی قوانین میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن خصوصی میرج ایکٹ میں تبدیلی کرنے پر غور کرے گا جو LGBTQ پلس کمیونٹی کے لیے شادیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عدالتی کارروائی آگے بڑھی، یہ واضح ہوتا گیا کہ کیس کتنا پیچیدہ ہے۔

سماعت کے دوران کیا ہوا؟

سماعت کے دوران پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ نے تسلیم کیا کہ صرف ایک قانون میں تبدیلیاں لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ طلاق، گود لینے، وراثت جیسے تقریباً 35 دیگر قوانین موجود ہیں، جن میں سے اکثر مذہبی ذاتی قوانین کے دائرے میں آتے ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’شادی دو افراد کا ملاپ ہے نہ کہ صرف ایک مرد اور ایک عورت۔‘

ان کا موقف تھا کہ ایسی صورتحال میں انھیں شادی کا حق نہ دینا آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین تمام شہریوں کو اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے اور جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔

انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ شادی نہ کرنے کی وجہ سے اس کمیونٹی کے لوگ نہ تو مشترکہ بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، نہ ہی گھر کے مشترکہ مالک بن سکتے ہیں اور نہ ہی بچوں کو گود لے سکتے ہیں۔

انڈیا کی حکومت کا موقف کیا ہے؟

انڈیا کی حکومت جو کہ LGBTQ کمیونٹی کو شادی کا حق دینے کی سخت مخالفت کر رہی ہے، نے موقف اپنایا ہے کہ شادی کے اس سماجی اور قانونی موضوع پر صرف پارلیمنٹ ہی بحث کر سکتی ہے اور عدالت کو اس کی سماعت کا کوئی حق نہیں ہے۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے دلیل دی کہ محبت اور ایک ساتھ رہنے کا حق بنیادی ہے لیکن شادی ایک ’مکمل حق‘ نہیں ہے اور یہ ہم جنس پرست (مرد و عورت) جوڑوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بہت سے رشتوں پر پابندی عائد ہے، جیسے کہ ایک خاندان کے افراد یا مخصوص رشتوں کے درمیان تعلقات۔

ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کے بجائے، حکومت نے ہم جنس جوڑوں کے ’انسانی تحفظات‘ کو دور کرنے کے لیے انڈیا کے کیبنٹ سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی۔

ججوں نے اسے ایک ’مناسب تجویز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’بعض اوقات ایک چھوٹی سی شروعات ہمیں موجودہ صورتحال سے بہت آگے لے جا سکتی ہے اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے مستقبل کے لیے ایک سنگِ بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US