میں چار بہنوں میں سب سے بڑی ہوں۔ لہذا والد کے انتقال کے بعد ماں کی مدد کرنے کے لیے میں نے پانچویں جماعت میں اسکول چھوڑ دیا- لوگوں کے گھر میں ماسی کا کام کرنے لگی جو پیسے آتے تھے اپنی بہنوں کے لئے جمع کرتی تھی گھر میں راشن ڈلواتی تھی۔ پوری زندگی ماں اور بہنوں کے لئے کماتے گزار دی. میں نے کلینر کے طور پر کام کیا، سلائی کا کام کیا اور بالآخر 2 سال پہلے، میں نے اس آٹورکشہ چلانا شروع کردیا"
بھارت سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون کہتی ہیں کہ انھوں نے گھر والوں کے لئے اپنی زندگی تیاگ دی اور یوں انھیں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی. انھوں نے سوچا تھا کہ جب کوئی اچھا لگے گا تو وہ شادی کا سوچیں گی لیکن وقت گزر گیا اور وہ اب بھی خوش ہیں۔
میرے خیال میں رکشہ ڈرائیور کی یہ نوکری میری سب سے پسندیدہ ہے۔ جب میں آگے بیٹھ کر گاڑی چلاتہ ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنی زندگی کی انچارج ہوں۔ دن بھر میں کچھ اچھے اور کچھ برے لوگ ملتے ہیں ایک دفعہ ایک آدمی نے مجھے بلا وجہ گالیاں دینا شروع کر دیں۔ وہ بہت نشے میں تھا۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا اور بحفاظت گھر چھوڑ دیا۔ اور ایک بار ایک مسافر نے کرایہ ادا کرنے سے انکار کر دیا. ہر بات کو دل پر لگاتی رہتی تو زندگی مشکل ہوجاتی. مجھے اپنے کام پر فخر ہے۔ یہ مجھے رزق دیتا ہے.
میں آج 52 سال کی ہوں۔ میری بہنیں آباد ہیں۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کل شادی کیوں نہیں کر لیتی؟ شوہر کے بغیر بڑھاپا کیسے گزرے گا. وہ سمجھتے ہیں کہ اکیلی عورت کمزور ہے یا خود زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان سے کہتی ہوں کہ مجھے ہی دیکھ میں ایک خاتون رکشہ ڈرائیور ہوں سینکڑوں لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچنے میں مدد کرتی ہوں۔ آپ ہی بتاو، کیا میں کہیں سے بھی آپکو 'کمزور' لگتی ہوں؟
رکشہ چلانے والی اس عورت کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے لئے کچھ کرنا ہو تو بدلے کی امید رکھے بغیر کرو. دل میں لالچ ہو گی تو کبھی نہ کبھی دکھ ہوگا. انھوں نے بہنوں کے لیے جو بھی کیا کسی صلے کی پرواہ کیے بغیر کیا اس لئے انھیں کوئی افسوس نہیں ہے.