پنڈھرنا کے رہنے والے 43 سالہ اروند تھومرے کہتے ہیں، ’میں بچپن سے ہی اس میں حصہ لے رہا ہوں۔ ہمارے لیے یہ صرف ایک کھیل نہیں ہے، یہ گاؤں کا فخر ہے۔ زخمی ہونا ایک عام سی بات ہے، لیکن جیت کی خوشی اس سے بڑھ کر ہے۔‘
ایک شخص دریا کے بیچ میں پلاش کے درخت کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے پیچھے کچھ لوگ ٹین کی چادر لیے کھڑے ہیں۔ درخت کاٹنے والے پر مسلسل پتھر برسائے جا رہے ہیں۔
چند سیکنڈز میں اسے کئی پتھر لگتے ہیں اور وہ درخت کو کاٹنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنی جان بچانے کے لیے ٹین کی چادر کے پیچھے بھاگتا ہے۔
ہزاروں لوگ تالیاں بجاتے اور شور مچاتے، تماشے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے پنڈھرنا ضلع میں سال میں ایک بار ایسا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی بھی حیران رہ جائے۔
دریائے جام کے دونوں کناروں پر موجود ہجوم سے ’ہو۔۔ ہا۔۔۔ مارو۔۔ ‘ جیسی آوازیں گونجتی ہیں۔
آنکھیں ڈھونڈتیں ہیں کہ کیا دیکھنا ہے، کہاں دیکھنا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھیں جو پتھر پھینک رہے ہیں یا آسمان کی طرف دیکھیں کہ کہیں سے بھی پتھر آپ پر گر کر آپ کو شدید زخمی کر سکتا ہے۔
اسی دوران ایک بوڑھا آدمی کچھ نوجوانوں سے (جو اپنے موبائل پر ویڈیو بنا رہے ہیں) کہتا ہے، ’تھوڑا ہٹو، پتھر کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔‘
اچانک لوگ جمع ہو جاتے ہیں، پورے علاقے میں افراتفری ہے اور چند ہی لمحوں میں دو آدمی ایک زخمی آدمی کو لے کر ہجوم سے نکلتے ہیں۔
نظریں پھر دریائے جام کی طرف گئیں جس کے ایک طرف پنڈھرنا ہے اور دوسری طرف ساورگاؤں ہے۔ دریا کے بیچ میں پلاش کا درخت دونوں طرف کے لوگوں کے لیے فتح کی علامت ہے۔
اسی لیے یہاں صبح 9 بجے سے پتھراؤ جاری ہے۔
پتھراؤ کے اس سالانہ پروگرام کو یہاں 'گوتمار میلہ' کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے میلہ کہا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک خطرناک کھیل ہے۔
ہر سال سینکڑوں لوگ زخمی ہوتے ہیں، بہت سے لوگ مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات مر بھی جاتے ہیں۔
شام تک تقریباً ایک ہزار لوگ زخمی ہو چکے تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنڈھرنا ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندر سنگھ کنیش نے کہا، ’ہر سال 500-600 لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ انتظامیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن مقامی لوگوں نے اسے روایت سمجھ کر ہماری کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔‘
انتظامی اہلکار ایک اونچی عمارت سے علاقے کی نگرانی کر رہے تھے۔
دریا کی طرف دیکھیں تو آسمان پتھروں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہزاروں تماشائیوں کے درمیان ’پتھروں کی جنگ‘
کسانوں کا پولا تہوار بھدرپد مہینے کے نئے چاند کے دن آتا ہے (ہندو کیلنڈر کا ایک مہینہ، جو اگست اور ستمبر میں آتا ہے)۔
یہ خریف کی فصل کے دوسرے مرحلے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
یہ تہوار کسانوں کے لیے اہم ہے۔ پولا کے دوسرے دن دریائے جام کے بیچوں بیچ پلاش کا درخت جھنڈے کی طرح لگایا جاتا ہے اور پھر دونوں گاؤں ایک دوسرے پر پتھر برساتے ہیں۔
اس تقریب میں نہ صرف گاؤں والے بلکہ آس پاس کے اضلاع سے بھی ہزاروں لوگ تماشائی بن کر آتے ہیں۔ لوگ پرجوش انداز میں نعرے لگاتے ہیں، زخمی کھلاڑیوں کو دیکھتے ہیں اور کئی بار یہ منظر تفریح کے طور پر کیمرے میں قید ہو جاتا ہے۔
پنڈھرنا کے رہنے والے 43 سالہ اروند تھومرے کہتے ہیں، ’میں بچپن سے ہی اس میں حصہ لے رہا ہوں۔ ہمارے لیے یہ صرف ایک کھیل نہیں ہے، یہ گاؤں کا فخر ہے۔ زخمی ہونا ایک عام سی بات ہے، لیکن جیت کی خوشی اس سے بڑھ کر ہے۔‘
اروند کا کہنا ہے کہ اس کھیل میں ان کا سر پھٹ گیا، چہرہ زخمی ہوگیا، ناک ٹوٹ گئی اور دائیں ٹانگ ٹوٹ گئی۔
ان کے پاس کھڑے گوپال بالپانڈے کہتے ہیں، ’ہمارے لیے یہ تہوار زندگی سے بڑا ہے۔‘
گوپال بھی گذشتہ 16 برں سے اس کھیل میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے جسم پر اس کے نشانات ہیں۔
اروند اور گوپال کے ارد گرد کھڑے بہت سے نوجوان گوٹمار کو اپنی ’مردانہ اور ہمت‘ دکھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم سمجھتے ہیں۔
300 سال پرانی تاریخ، لیکن کوئی ثبوت نہیں
مقامی افسانہ یہ ہے کہ صدیوں پہلے ساورگاؤں کی ایک لڑکی اور پنڈھرنا گاؤں کے ایک لڑکے کے درمیان محبت کی وجہ سے دونوں فریقین میں جھگڑا ہوا۔ لڑکی کو آزاد کرانے کی لڑائی آہستہ آہستہ روایت بن گئی۔
آج یہ روایت ہر سال پلاش کے درخت کو بیچ میں رکھ کر ادا کی جاتی ہے۔
مقامی عمائدین کے مطابق گوٹمار میلے کا ذکر تقریباً 300 سال پرانا ہے۔ لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
میلے کا آغاز ساورگاؤں کے کاولے خاندان سے ہوتا ہے، جو ہر سال پلاش کے درخت کو کاٹ کر جام ندی کے بیچ میں دفن کرتے ہیں۔ اس کی پوجا کرنے کے بعد صبح 8-9 بجے پتھراؤ شروع ہو جاتا ہے۔
پلاش کا درخت لگانے والے سبھاش کاولے کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ پتھراؤ کیوں ہوتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد بھی اس درخت کو جھنڈے کے طور پر دریا میں دفن کرتے تھے۔ ہم بھی اسی روایت پر عمل پیرا ہیں۔‘
روایت کی قیمت: ٹوٹی ہڈیاں، بکھرے خواب
گوٹمار میلے میں شامل ہر خاندان کی اپنی کہانی ہے۔ کسی کا بیٹا پتھراؤ میں مارا گیا، کوئی معذور ہو گیا۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 1955 سے اب تک پتھر بازی کے اس کھیل میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تقریباً ایک دہائی قبل اسی علاقے کے امیت (سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام تبدیل کر دیا گیا ہے) گوٹمار میلے میں فوت ہو گئے تھے۔
امیت نے اپنے پیچھے چار بچے اور بیوی چھوڑی ہے۔
ان کے خاندان کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’میرے والد گوٹمار کھیلنے گئے تھے۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ گوٹمار کے اچھے کھلاڑی تھے لیکن ایک بار ان کے سر پر پتھر لگ گیا۔ ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ میرے والد کی میلے میں ہی وفات ہو گئی تھی۔‘
گذشتہ 10 سال امیت کے خاندان کے لیے بہت مشکل رہے ہیں۔ خاندان کے واحد کمانے والے کی موت نے ان کے بچوں کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔
ان کےگھر والے پتھراؤ کے اس کھیل پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ہر سال اس تہوار کے دوران مجھے پرانی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ یہاں ہوتا تو ایسا ہوتا۔۔۔ ایسا ہوتا، اب میں اس تہوار سے ڈرتا ہوں، مجھے ان کا چہرہ بھی یاد نہیں ہے۔ میرے پاس ان کی صرف ایک تصویر ہے۔‘
ایک اور دیہاتی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’میرا بھائی جان کی بازی ہار گیا، گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ روایت ہے لیکن ہماری ماں کی آنکھوں کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوں گے، کیا روایت اتنی بڑی ہے کہ اس کے لیے کسی کا بیٹا قربان کر دیا جائے؟‘
سوشل میڈیا نے اسے مزید مقبول بنایا
پچھلے کچھ سالوں میں میلے کی ویڈیوز انسٹاگرام، یوٹیوب اور فیس بک پر وائرل ہو رہی ہیں۔ لوگ انھیں تفریح کے طور پر شیئر کرتے ہیں۔
پنڈھرنا کے رہنے والے دھرمیش ہمت بھائی پوپٹ کہتے ہیں، ’بھیڑ بڑھ گئی ہے۔ نوجوان اسے بہادری سمجھ رہے ہیں، جب کہ یہ معاشرے کے لیے شرمناک ہے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے اسے وائرل ہونے والا واقعہ بنا دیا اور تشدد میں مزید اضافہ ہوا۔
مہاراشٹر کے امراوتی سے پہلی بار اپنے سسرال آنے والے میور چودھری نے یوٹیوب پر گوٹمار میلہ دیکھا تھا۔ اس بار وہ خود میلہ دیکھنے آئے ہیں۔
میلے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’یہ کھیل بہت خطرناک ہے، خدا جانے کتنے لوگوں کا خون بہا، جب میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو مجھے لگا کہ اسے بند کر دینا چاہیے۔ آپ اسے توہم پرستی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہاں کے لوگ اسے اپنی روایت سے جوڑتے ہیں۔’
اتنے تشدد کے باوجود یہ کھیل کیوں نہیں رکتا؟
مقامی طور پر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے سینکڑوں زندگیاں برباد ہو چکی ہیں۔ نہ جانے کتنے خاندانوں نے اپنے واحد کمانے والے کو معذور ہوتے دیکھا ہے۔
ہر کوئی اس پرتشدد روایت کے حق میں نہیں ہے۔ ساورگاؤں کے ایک 73 سالہ شخص وٹھل بھنگے ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں، ’میرے خیال میں اسے روکنا چاہیے۔ صرف غریب لوگ ہی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ جب ان کے اعضا ٹوٹ جاتے ہیں یا وہ مر جاتے ہیں، تو خاندان تباہ ہو جاتا ہے۔‘
ایک مقامی سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ میلہ جوئے اور سٹے بازی کے کاروبار کا ذریعہ ہے، یہاں لاکھوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اس کی آڑ میں اپنی دشمنی نکال لیتے ہیں، ایسی صورتحال میں اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟‘
سوارگاؤں کا اسماعیل خان کا گھر دریا کے سامنے ہے۔ ہر سال ان کے گھر پر گوٹمار پتھروں کے نشان رہ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جوانی میں گوٹمار کھیل چکے ہیں۔
اسماعیل کہتے ہیں، ’گاؤں میں سب لوگ کھیلتے تھے تو ہم بھی کھیلتے تھے۔ آج میں 78 سال کا ہو گیا ہوں۔ ایک بار میرے سینے پر پتھر لگ گیا، اس کے بعد میں نے کھیلنا چھوڑ دیا۔ میرے بچے بھی نہیں کھیلتے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر میری جان چلی جائے تو کیا ہوگا؟‘
پولیس سپرنٹنڈنٹ سندر سنگھ کنیش کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ چند سالوں میں انتظامیہ نے گوٹمار کو کم پرتشدد بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ہم نے پلاسٹک کی گیندوں سے کھیلنے کی تجویز بھی دی تھی، لیکن ہم ابھی تک اس پر مکمل پابندی نہیں لگا سکے ہیں کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ان کا روایتی کھیل ہے۔‘
تاہم، پنڈھرنا کے ایک سماجی کارکن نے کچھ اور سوالات اٹھائے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ’انتظامیہ ہر بار کہتی ہے کہ حفاظتی انتظامات مضبوط ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگ شراب پی کر آتے ہیں، پتھراؤ بے قابو ہو جاتا ہے اور وہی خونی مناظر دوبارہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو انتظامیہ بھی کہیں نہ کہیں اس روایت کے دباؤ میں ہے۔‘
اتنی زیادہ ہلاکتوں اور زخمیوں کے باوجود گوٹمار میلہ آج بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے دو دیہات کے درمیان پرانی دشمنی، تشدد اور عقیدے کو روایت سے جوڑا جانا، انتظامیہ اور لیڈروں کی خاموش حمایت اور سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ اس کی اہم وجوہات ہیں۔
اسی لیے احتجاج کی آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور روایت کے نام پر ہر سال خونریزی جاری رہتی ہے۔ جب ہم پنڈھرنا سے نکلے تو سینکڑوں نوجوان اگلے سال واپس آنے کی بات کر رہے تھے۔