پاکستان میں اس وقت غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہو گیا ہے لیکن اس سے بلوچستان میں وہ افغانپناہ گزین بھی پریشان ہیں جن کے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائےپناہ گزین (یواین ایچ سی آر) کےپروف آف رجسٹریشن کارڈ اور افغان سیٹیزن شب کارڈ موجود ہیں۔

پاکستان میں اس وقت غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈائوں کا آغازہو گیا ہے لیکن اس سے بلوچستان میں وہ افغانپناہ گزین بھی پریشان ہیں جن کے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یواین ایچ سی آر) کےپروف آف رجسٹریشن کارڈ اور افغان سیٹیزن شب کارڈ موجود ہیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایسے متعدد افغانپناہ گزین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بہت زیادہ پریشان ہیں کیونکہ آج جن لوگوں کے خلاف غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کی بنیاد پر کارروائی ہو رہی ہے، کل ہمارے ساتھ بھی یہی ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم حکومت پاکستان کے ہر فیصلے کا احترام کریں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مناسب وقت دیا جائے تاکہ اگر یہاں ہمارا کوئی کاروبار یا گھربار ہے تو ہم اسےسمیٹ سکیں اورافغانستان میں اپنے لیے کسی ٹھکانے کا انتظام کر سکیں۔‘
کوئٹہ میں جن لوگوں سے ہماری بات ہوئی ان میں سے بعض کا تعلق افغانستان کے انتہائی سرد علاقوں سے تھا۔ انھوں نے حکومت پاکستان سے یہ درخواست کی وہ ان کو سردیوں تک یہاں رہنے دے تاکہ وہ گرمیوں میں جا کراپنے لیے گھر بنا سکیں کیونکہ شدید سردی میں خواتین، بچوں اور بزرگ افراد کا وہاں گزارا ممکن نہیں۔
’میرا کاروبار آسمان سے زمین پر آ گیا‘
کوئٹہ میں پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) کارڈ رکھنے والے جن افغانپناہ گزین سے ہماری بات ہوئی ان میں افغانستان کے علاقے بغلان سے تعلق رکھنے والے حاجی حمیداللہ بھی شامل تھے۔
انھیں یہ بات تویاد نہیں تھی کہ وہ کب پاکستان آئے لیکن ان کو یہ یاد ہے کہ وہ جب اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آئے تو ان کی عمرانتہائی کم تھی اوراس وقت پاکستان میں سابق فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت تھی۔
’اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ میں کب سے پاکستان میں ہوں۔ میری شادی پاکستان میں ہوئیمیرے اس وقت 15 چھوٹے اور بڑے بچے ہیں جو سب پاکستان میں پیدا ہوئے اور وہ یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔‘
حاجی حمیداللہ کا کوئٹہ میں پرانی اشیا کی خرید و فروخت کا کاروبار ہے۔
انھوں نے بتایا کہ جب سے حکومت پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کا اعلان کیا ہے، اس وقت سے ان کا کاروبار بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا کاروبار تو زمین سے آسمان پرآ گیا۔ پہلے میں روزانہ لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا کاروبار کرتا تھا لیکن یہ اب روزانہ دس سے پندرہ ہزار تک محدود ہو گیا۔‘
حاجی حمیداللہ کا کوئٹہ میں پرانی اشیا کی خرید و فروخت کا کاروبار ہے’افغان پناہ گزین پاکستان پر بوجھ نہیں‘
حاجی حمیداللہ کا یہ کہنا ہے کہ افغانپناہ گزین پاکستان پربوجھ نہیں بلکہ انھوں نے محنت مشقت کر کے پاکستانیوں کی خدمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانپناہ گزین نہ صرف پاکستان میں سستی لیبرکا ذریعے بنے بلکہ وہ پاکستانی شہریوں کے لیے معاشی لحاظ سے فائدہ مند رہے۔
انھوں نے اپنے کاروبار کی جگہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس جگہ کا ایک لاکھ 25 ہزار روپے کرایہ دیتے ہیں۔
’کیا کوئی پاکستانی اس جگہ کے لیے اتنا کرایہ دے گا؟ کوئی پاکستانی اس جگہ کے لیے اتنا کرایہ نہیں دے گا بلکہ وہ بمشکل اس کے لیے پندرہ سے بیس ہزارروپے تک بھی نہیں دیں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ جو پاکستان شہری افغانپناہ گزینوں کے ساتھ روزانہ اجرت یا ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے ہیں افغانپناہ گزینوں کے جانے سے وہ بھی متاثرہوں گے۔
’میں نے دو تین دن پہلے اپنے ایک پاکستانی ملازم کو کہا کہ آپ کل سے نہیں آئیں توان کی والدہ میرے پاس آئیں اور مجھے کہا کہ میرے بچے کو نہیں نکالیں کیونکہ ہمارے گھرمیں کمانے والا یہی ہے۔‘
گل محمد کے 11 بچے ہیں اور وہ چنگجی رکشہ کو چلا کر ان کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں’ہم قانونیپناہ گزین بھی پریشان ہیں‘
حاجی حمیداللہ کی طرح چنگجی رکشہ چلانے والے گل محمد بھی اقوام متحدہ کے ادارہ برائےپناہ گزین کےپروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہولڈر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بچپن میں ہی پاکستان آَئے تھے اور گزشتہ چالیس سال سے پاکستان میں مقیم ہیں اور وہ کوئٹہ میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے 11 بچے ہیں اور اسی چنگجی رکشہ کو چلا کران کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہمارا روزگار بہت اچھا تھا لیکن جب سے مہاجرین کو نکالنے کی باتیں شروع ہوئی ہیں تو اس کے بعد سے ان کا کام بھی متاثر ہوا ہے۔‘
’ہم سب پریشان ہیں کیونکہ افغانستان میں ہمارا اس وقت کچھ بھی نہیں۔ ہم حیران ہیں کہ وہاں جا کرکہاں رہیں گے اور سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ وہاں جا کرکریں گے کیا اور کھائیں گے کہاں سے۔‘
پی او آر کارڈ کھنے والے محمد رحیم کوئٹہ میں ایک سیمنٹ کی دکان پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری نہ یہاں ایک فٹ زمین ہے اور نہ ہی کوئی زمین افغانستان میں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین دونوں کوئٹہ میں دفن ہیں اور اب ہم حیران ہیں کہ کہاں جائیں کیونکہ یہ کہا جارہا ہے کہ غیر قانونی پناہ گزینوں کے بعد قانونیپناہ گزینوں کو نکالا جائے گا۔
محمد رحیم کوئٹہ میں ایک سیمنٹ کی دکان پر محنت مزدوری کرتے ہیںسب کی زبان پر کچھ مہلت دینے کی بات
ہم کوئٹہ کے جس علاقے میں افغان پناہ گزینوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گئے وہاں متعدد دکانیں بند تھیں۔
ہمارے پوچھنے پر وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ افغانپناہ گزینوں کی دکانیں ہیں جن کے مالکان نے ان کو گرفتاریوں کے خوف کی وجہ سے بند کیا۔
اسی طرح ایک محلے میں افغانپناہ گزینوں نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے بعد متعدد ایسے لوگوں نے بھی اپنی دکانیں بند کی ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا قانونی جواز ہے۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ بعض لوگ ان اطلاعات کے بعد بھی بہت زیادہ خوفزدہ ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پی او آر کارڈز توڑ رہے ہیں۔
تاہم بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے غیر ملکی تارکین وطن کو ہراساں کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگرکوئی بھی کسی غیر ملکی تارک وطن کو تنگ کرے تو وہ حکومت کی جانب سے دیے گئے ہیلپ لائن پرشکایت کرسکتا ہے۔
حاجی حمیداللہ نے کہا کہ ہمیں حکومت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے کوئی شکایت نہیں لیکن جب حکومت نے فیصلہ کیا ہے تو ہم جائیں گے لیکن حکومت سے درخواست ہے کہ ہمیں کچھ مہلت دے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے لاکھوں روپے لوگوں پر ادھارہیں جبکہ انھوں نے بھی کئی لوگوں کے پیسے دینے ہیں۔
’آپ کو معلوم ہے کہ لوگ پیسے آسانی سے نہیں دیتے۔ جب لوگ میرے پیسے دیں گے تو میں ان لوگوں کا پیسے دے سکوں گا جن کو میں نے ادائیگی کرنی ہے۔‘
حاجی حمیداللہ سمیت قانونی طور پر مقیم تمام افغانپناہ گزینوں کا یہ کہنا تھا حکومت پاکستان کومناسب مہلت دینی چاہیے تاکہ وہ افغانستان جا کرکسی مشکل صورتحال سے دوچار نہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مہلت اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان کے بعض علاقوں میں سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔ گرمیوں میں لوگ کسی طرح کھلے میدانوں میں یا کسی خیمے میں گزارا کر سکتے ہیں لیکن سردیوں میں مناسب گھر کے بغِیر گزارا مشکل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ حکومت ہمیں کم از کم ایک سال کی مہلت دے اوراگراتنی مہلت نہیں دے سکتی تو کم ازکم ہمیں سردیاں گزارنے دے تاکہ ہم گرمیوں میں جا کراپنے لیے کوئی گھر وغیرہ بنا سکیں۔