انڈیا کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں چار ریاستوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے جس میں دو بڑی ریاستوں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو تازہ رجحانات کے مطابق واضح سبقت حاصل ہے۔
کانگریس اور بی جے پی کے انتخابی نشانات ہاتھ چھاپ اور کنول کا پھولانڈیا کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں چار ریاستوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے جس میں دو بڑی ریاستوں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو تازہ رجحانات کے مطابق واضح سبقت حاصل ہے۔
تیلنگانہ جیسی نئی ریاست میں کانگریس واضح اکثریت حاصل کرتی نظر آ رہی ہے جبکہ چھتیس گڑھ ریاست میں بھی بی جے پی کو کانگریس پر سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ یہاں ابتدا میں کانٹے کا مقابلہ نظر آ رہا تھا۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کی ویب سائٹ پر لائیو رجحانات اور نتائج پیش کیے جا رہے ہیں۔ انڈیا کے وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے تک کے رجحانات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:
ای سی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق وسطی ریاست مدھیہ پردیش کی 230 اسمبلی سیٹوں کے رجحانات آنا شروع ہو گئے ہیں اور ان میں سے 165 نشستوں پر حکمراں جماعت بی جے پی کو سبقت حاصل ہے۔ سادہ اکثریت کے لیے کسی بھی جماعت کو 116 سیٹیں ہی درکار ہیں۔ کانگریس پارٹی 63 سیٹوں پر آگے ہے۔
دوسری جانب مغربی ریاست راجستھان میں حکمراں جماعت کانگریس پارٹی کو ہزیمت کا سامنا ہے۔ بی جے پی کو وہاں 200 رکنی اسمبلی میں 115 پر سبقت حاصل ہے جبکہ کانگریس پارٹی کے نمائندے 70 سیٹوں پر آگے چل رہے ہیں۔
تیلنگانہ کی 119 رکنی اسمبلی میں کانگریس کو 67 سیٹوں پر سبقت ہے جبکہ مقامی پارٹی بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کو 36 نشستوں پر سبقت حاصل ہے۔ بی جے پی وہاں نو سیٹوں پر سبقت رکھتی ہے۔
وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں کبھی حکمراں جماعت کانگریس آگے جاتی ہے تو کبھی بی جے پی۔ تادم تحریر بی جے پی کو 90 رکنی اسمبلی میں 53 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے جبکہ کانگریس کے امیدوار 34 سیٹوں پر آگے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شوراج سنگھ چوہان نے رجحانات میں واضح سبقت پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی کی اعلی قیادت کی تعریف کی ہے۔
انھوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے پی ایم نریندر مودی جی ایم پی (مدھیہ پردیش) کے دل میں اور وزیر اعظم کے دل میں ایم پی ہے۔‘
انھوں نے یہاں جو جلسے کیے اور عوام سے جو اپیل کی وہ عوام کے دل کو چھو گئی اور اسی کے سبب یہ رجحان نظر آ رہے ہیں۔
'دہلی میں وزیر اعظم کی قیادت میں مرکزی حکومت نے کام کیا اور اسے ہم نے یہاں درست طریقے سے نافذ کیا۔'
مدھیہ پردیش کی اسمبلی سیٹوں کے لیے 17 نومبر کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔
مغربی سرحدی ریاست راجستھان میں بی جے پی واپسی کرتی نظر آ رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وہاں کانگریس پارٹی میں پھوٹ کا نگریس کی خراب کارکردگی کی وجہ ہے جبکہ کئی نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ادے پور میں گذشتہ سال درزی کنہیا لال کے قتل نے بھی بی جے پی کے حق میں رائے عامہ بنائی ہے۔
صحافی موہر سنگھ مینا کے مطابق ادے پور میں یہ واقعہ گذشتہ سال پیش آیا تھا اور وہاں کی آٹھ اسمبلی سیٹوں میں سے سات پر بی جے پی آگے ہے جبکہ صرف ایک پر کانگریس ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی جلسوں میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا جبکہ وزیر اعلی اشوک گہلوت اس قتل کا ذمہ دار بی جے پی کو ٹھہرا رہے تھے۔
چھتیس گڑھ کے نتائج امید اور ایگزٹ پول کے برخلاف نظر آ رہے ہیں۔ جبکہ پانچویں ریاست میزورم کے اسمبلی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کو ایک دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے اب وہ 4 دسمبر کو ہوگی۔
شمال مشرقی ریاست میزورم کی 40 اسمبلی سیٹوں کے لیے سات نومبر کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔
https://twitter.com/JhaSanjay/status/1731208373876748370
سابق کرکٹر دانش کنیریا نے پوچھا پنوتی کون ہے؟
سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی دانش کنیریا نے انڈیا کی چار میں سے تین ریاستوں میں بی جے پی کی برتری پر اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنایا ہے۔
سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ انھوں نے صرف لکھا، ’پنوتی کون؟‘
کنیریا کے تازہ ٹویٹ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ راہل گاندھی کے پہلے بیان پر تنقید کر رہے ہیں۔دراصل پنوتی کا مطلب ہوتا ہے ’سبز قدم‘ یعنی جس کی کی وجہ سے سب کام خراب ہو جائیں۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے 21 نومبر کو راجستھان کے باڑمیر میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ورلڈ کپ میں انڈیا کی شکست کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کیا تھا۔ اس ریلی میں راہل گاندھی نے انڈین وزیر اعظم مودی کو ’پنوتی مودی‘ کہا تھا۔
گاندھی نے کہا تھا، ’پی ایم کا مطلب پنوتی مودی ہے۔‘
پی ایم مودی 19 نومبر کو ورلڈ کپ فائنل دیکھنے احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم پہنچے تھے۔ لیکن آسٹریلیا نے انڈیا کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیت لیا۔
دریں اثنا، انڈیا میں مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو اتوار کو ہونے والی ووٹوں کی گنتی میں اب تک تین ریاستوں میں واضح اکثریت حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
بی جے پی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں حکومت بناتی نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اپنی حکومت کھوتی نظر آرہی ہے۔
’ہندوتوا جیت گیا، سماجی اور معاشی مسائل ہار گئے‘
انڈین سوشل میڈیا پر بھی صارفین کی نظریں انتخابات کے نتائج کی طرف ہیں۔
سنجے جھا لکھتے ہیں کہ ’ہندوتوا نے سماجی اور معاشی مسائل کو شکست دی ہے۔ کانگریس کو یہ سمجھنا ہوگا۔ متضاد رویہ کوئی راستہ نہیں۔ کانگریس پہلے قوم پرست اور سیکولر رہنے پر فخر کرتی تھی۔ اب اسے دونوں واپس چاہیں۔‘
ڈاکٹر سناتانی نے لکھا کہ ’انڈیا میں کسی بھی جماعت کے بچنے کا واحد راستہ ہندوتوا ہے۔۔۔ اکثریت کو اپنی طرف مائل کرنے سے آپ ووٹ بینک نہیں بنا سکیں گے۔‘
شرلین ماریا لارنس نے رائے دی کہ کانگریس کو صرف چھتیس گڑھ میں مسیحیوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف کارروائی کرنا تھی۔ اس سے وہ آر ایس ایس کو روک سکتے تھے۔ مگر کانگریس نے ایسا نہ کیا اور خاموش تماشائی بنے رہے۔ اب وہ اس کا خمیازہ برداشت کر رہے ہیں۔‘
https://twitter.com/TheBluePen25/status/1731218395306274972