ایرانی جیل پر اسرائیل کا مہلک حملہ: ’ہر طرف لاشیں تھیں، قیدی زخمی سپاہیوں کی مدد کو دوڑ رہے تھے اور خواتین اہلکاروں کو تسلی دے رہے تھے‘

بی بی سی کو ملنے والی سیٹیلائٹ تصاویر، عینی شاہدین سے بات چیت اور مصدقہ ویڈیوز سے ایران کی اوین جیل پر اسرائیلی حملے کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
A man stands amongst the ruins of a prison building in Iran
Getty Images
ایران کی اوین جیل کا وہ حصہ جہاں اسرائیلی میزائل گرا

’میرے لیے وہ لمحہ جہنم نہیں تھا جب اسرائیل کا حملہ ہوا، جہنم وہ لمحہ تھا جب انھوں نے ہمارے لیے دروازہ نہیں کھولا۔‘

یہ کہنا ہے کہ ایران کی سیاسی کارکن مطہرہ گونے کا، جو ایران پر اسرائیلی حملے کے وقت اوین جیل میں قید تنہائی کاٹ رہی تھیں۔

مطہرہ گونے کو اسرائیلی حملے سے دس روز قبل، سوشل میڈیا سائٹس ایکس پر کی گئی پوسٹ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی پوسٹ میں ایرانی حکومت پر تنقید کی تھی۔

23 جون کو بارہ روزہ جنگ کے آخری گھنٹوں میں اسرائیل نے ایران کی بدنام جیلوں پر حملے کیے جن میں سے ایک ایوین جیل بھی تھی۔

سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر، عینی شاہدین سے بات چیت اور بی بی سی کو ملنے والی مصدقہ ویڈیوز نے حملے اور اس میں مرنے والے کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی ہیں۔

بی بی سی فارسی نے آزادنہ طور پر انٹرویو اور مرنے والے اہلخانہ سے بات چیت کے بعد یہ تصدیق کی کہ اس حملے کی زد میں آنے والے تین افراد کی موت کن حالات میں ہوئی۔ مرنے والوں میں ایک ایرانی نژاد امریکی شہری بھی تھے۔

ایرانی حکام نے اب تک اسرائیل کے حملے میں مرنے والے جیل اسٹاف کے نام اور شناخت ظاہر کیں ہیں۔

دارالحکومت تہران کے شمال میں موجود، اس ہائی سکیورٹی کمپلکس میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی قیدی بند ہیں جن میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جو نصف دہائی سے یہاں قید ہیں اور انھیں 1979 کے انقلابِ ایران سے پہلے اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے گرفتار کیا۔

جون کے مہینے میں اوین جیل پر اسرائیل کی حملہ مہلک ترین حملہ تھا۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے میں 80 افراد ہلاک ہوئے، مرنے والوں میں جیل کا عملہ، طبی کارکن اور قریبی رہائشی علاقوں میں رہنے والے افراد شامل ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی 14 اگست کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایران کی اوین جیل پر اسرائیل کا حملہ غیر قانونی اور بلا جواز ہے اور یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

اسرائیل ڈیفیس فورس کا کہنا ہے کہ اوین جیل پر اس لیے حملہ کیا گیا کیونکہ اسے ’اسرائیلی کے خلاف انٹیلیجنس آپریشن‘ کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔

’بھگڈر میں قیدیوں نے گارڈز کی مدد کی‘

مطہرہ گونے نے حملے کے لمحات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں نے تیسرے دھماکے کی آواز سنی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب بچنا مشکل ہے۔ میں پوری طاقت سے دروازہ پیٹنے لگی لیکن یہ نہیں کھولا، مجھے لگا کہ یہ میری زندگی کا خاتمہ ہے۔خدا حافظ‘

ساتھی قیدی نے جب انھیں سیل سے باہر نکالا تو دھوئیں سے مطہرہ کا دم گھٹ رہا تھا۔ مطہرہ گونے نے بتایا کہ شروع میں تو گارڈز نے قیدیوں کو بھاگنے سے روکا اور بعض قیدیوں سے پوچھ گچھ کی اور انھیں دھمکایا بھی۔

اُن کے مطابق یہ مناظر ’خوفناک لیکن انسانیت پر مبنی‘ تھے جس میں قیدی زخمی سپاہیوں کی مدد کے لیے دوڑ رہے تھے، پریشان خواتین اہلکاروں کو تسلی دے رہے تھے اور تکلیف سے کراہتے ہوئے تفتیش کاروں کی مرہم پٹی کر رہے تھے۔

دوسرے وراڈ میں موجود قیدی جیل کی کلینک میں پھنسے ہوئے ڈاکٹرز اور نرسز کی مدد کر رہے تھے۔

اوین جیل میں کام کرنے والے ڈاکٹر سعیدہ مکارم جیل پر اسرائیلی حملے میں شدید زخمی ہوئیں تھیں۔ بعد ازاں انھوں نے انسٹا گرام پر پوسٹ کیا کہ ’ایک قیدی جس کا میں نے علاج کیا، اُس میری جان بچائی۔‘

اوین جیل کی ایک اور قیدی خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر جیل پر حملے کے بعد ہونے والی صورتحال بی بی سی کو بتائیں۔

’پہلے تو یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے اور دو منٹ تک دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں۔ پہلے تو ہم اپنے بستروں پر بیٹھے رہے کیونکہ کھڑکیاں ٹوٹ گئیں تھیں۔ پھر ہم تیار ہوئے اور تمام ضعیف خواتین کو سڑھیوں سے نیچے لائے۔ جیل کی طرف سے کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی، انھوں نے ہمارے لیے دروازے بند کر دیے اور ہم باہر نہیں جا سکتے۔‘

حملہ کتنا مہلک تھا؟

بی بی سی کو تجزیے سے یہ پتہ چلا ہے کہ اسرائیل نے اوین جیل پر کم سے کم چھ حملے کیے جس سے جیل سمیت کم سے کم 28 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔

آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ’ایرانی عوام کے لیے جبر کی علامت‘ پر’ٹارگٹڈ حملہ‘ کیا گیا ہے اور اُن کا دعویٰ ہے کہ حملے میں جانی نقصانات کو کم کرنے کے لیے اقدامات لیے گئے ہیں۔

لیکن حملے سے چند منٹ قبل جیل میں آنے والے قیدیوں کے رشتے داروں نے کہا کہ ’جیل سے باہر آنے والے بتا رہے تھے کہ ہر طرف لاشیں تھیں۔ جو قیدی باہر نکلے اُن میں سے کوئی بھی فرار نہیں ہو رہا تھا بلکہ سب صدمے میں تھے۔‘

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد بھگڈر سے 75 قیدی فرار ہوئے، جن میں بعض کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور بعض رضاکارانہ طور پر واپس آ گئے۔

مرنے والوں میں جیل کا عملہ ملاقاتی اور قیدی تھے

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں 80 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 42 افراد جیل کا عملہ اور پانچ قیدی ہیں۔ مرنے والوں کے نام جاری نہیں کیے گئے۔

بی بی سی فارسی نے تصدیق کی ہے کہ ایرانی نژاد امریکی شہری مسعود بہبہائی بھی حملے کی زد میں آنے والی جیل میں قید تھے۔ انھیں مالیاتی جرائم کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

ایران کی جیل کی تنظیم مسعود کے خاندان کو اُن کی ہلاکت کے بارے میں متضاد اطلاعات دے رہی ہے۔ جیسے حملے کے وقت بھاگتے ہوئے وہ گرے اور انھیں ہارٹ اٹیک ہو گیا یا جیل خالی کرواتے ہوئے انھیں ہارٹ اٹیک ہوئے جس کے بعد کومے میں چلے گئے۔

بی بی سی نے جیل کے حملے مرنے والے تین افراد کی تصدیق کی ہے جن میں ارون محمدی، مہرانگیز ایمانپور اور مسعود بہبہائی شامل ہیں۔
BBC / User generated content
Left to right: Arvin Mohammadi, Mehrangiz Imenpoir and Masoud Behbahani (Iranian-American prosiner). These three people are among the deceased whose identities the BBC has been able to confirm

37 سالہ ارون محمدی کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے شوہر انتظامیہ کی عمارت پر حملے میں اُس وقت ہلاک ہوئے جب وہاپنے والد کی جیل سے عارضی رہائی کے لیے درخواست جمع کروا رہے تھے۔

61 سالہ مہرانگیز ایمانپور، مشہور آرٹسٹ اور پینٹر بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں بی بی سی نے متعدد ذرائع سے حملے میں اُن کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ مہرانگیز ا اوین جیل کے قریب رہائش پذیر تھیں۔

مہرانگیز ایمانپور کے سابق شوہر رضا کندان مہابادی کا شمار ایران کے مشہور مصنفین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جیل پر ہونے والے حملے کے دوران ایمانپور کسی تیز دھار چیز کے لگنے سے ہلاک ہوئیں۔

جیل حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک سالہ بچے کی ماں بھی شامل ہیں، جو فلاحی کارکن تھیں اور سماجی کارکنوں کی رہائی کے لیے جیل آئیں تھیں۔

اوین جیل پر حملے کے بعد ٹرانس جینڈرز قیدیوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق 100 ٹرانس جینڈر قیدی حملے میں ہلاک ہوئے ہیں لیکن بی بی سی فارسی کے مطابق یہ اطلاعات درست نہیں ہیں۔

جیل میں قیدی ٹرانس جینڈرز کے بارے میں معلومات اکٹھی کروانے والے وکیل رضا شفق کا کہنا ہے کہ ’اُن کے بارے میں شدید تشویش ہے کسی کو نہیں پتہ کہ یہ قیدی کہاں ہیں۔‘

اوین جیل پر حملہ کیوں ہوا؟

اسرائیل کا الزام ہے کہ یہ جیل 'اسرائیل کے خلاف انٹیلیجنس آپریشن کے لیے استعمال' ہو رہی ہے لیکن انھوں نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات جیسے حملے کا ہدف کیا تھا، کون سے ہتھیار استعمال کیا گیا یا حملے میں کتنے شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، اس بارے کوئی جواب نہیں دیا۔

حملے کے ایک ماہ کے بعد ایمنٹسی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق شہری عمارتوں پر براہ راست حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یہ حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایوین جیل ’کوئی فوجی تنصیب‘ نہیں تھی اور اس حملے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

ٹفٹ یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ٹام ڈیننینبوم نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی مطابقت کا پتہ لگانے کے لیے جیل کے ہر حصے کا معائنہ کرنا ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ دستیاب معلومات کے مطابق مرنے والے جیل کے گارڈ، قیدی، ملاقاتی اور مقامی رہائیشی افراد ہیں۔

حملے کے بعد قیدیوں کی حالتِ زار

اسرائیل کےاوین جیل پر حملے کے بعد پہلی مرتبہ جیل کو مکمل طور پر خالی کروایا گیا۔

بڑی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کی تعیناتی کے بعد، قیدی جن میں سیاسی اختلاف رائے کی بنا پر قید ہونے والے افراد بھی شامل تھے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ گارڈ نے ہتھکڑیاں لگا کر انھیں جبری طور پر دوسری مقامات پر منتقل کیا۔ خواتین قیدیوں کو کرچاک جیل میں منتقل کیا گیا اور مرد قیدیوں کو تہران میں ہی ایک اور جیل میں منتقل کر دیا گیا۔

ایران کی عدلیہ نےقیدیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تشدد اور تذلیل کے الزامات کے باوجود، حملے کے 45 دن کے بعد قیدیوں کو دوبارہ اوین جیل منتقل کرنے کا اعلان کیا۔

بعض قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ قیدیوں کو ہتھکڑیاں لگانے اور بیڑیاں پہننے کا حکم دیا گیا اور انکار کرنے پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ایرانی عدلیہ کے حکام نے قیدیوں کے الزامات کی تردید کی ہے۔

بعض قیدیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ جیل سے انخلا اور واپسی کے دوران ان قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے اسرائیلی بمباری کے دوران فرار ہونے کے بجائے ملبے تلے دبے لوگوں کو نکلنے میں مدد کی۔

ایران نے بی بی سی فارسی پر پابندی عائد کر رکھی ہے ان الزامات کے لیے ایرانی حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن ابھی تک جواب نہیں ملا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US