انڈیا نے 2023 کی آخری سہہ ماہی کے دوران مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافے کے بعد اسے 8.4 فیصد قرار دیا ہے جو معاشی ماہرین کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔ اس طرح انڈیا کو دنیا کی بہترین کارکردگی دکھانے والی معیشت قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر یہ نمبروں کا ہیرپھیر ہے یا حقیقت میں انڈیا دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی راہ پر ہے؟
انڈیا نے 2023 کی آخری سہہ ماہی کے دوران مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافے کے بعد اسے 8.4 فیصد قرار دیا ہے جو معاشی ماہرین کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔ اس طرح انڈیا کو دنیا کی بہترین کارکردگی دکھانے والی معیشت قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی انویسٹمنٹ بینک جیفریز کے ماہرین کا خیال ہے کہ 2027 تک انڈیا دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ فی الحال یہ پانچویں نمبر پر ہے۔
جی ڈی پی کی یہ اونچی شرح ماہرین اقتصادیات کے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ اس سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) میں حکومتی اخراجات اور صنعتی پیداور میں کمی کے ساتھ ساتھ مون سون کی بارشوں کے باعث ترقی میں کمی کی توقع کی جا رہی تھی۔
معیشت میں اس تیزی کا اعلان الیکشن سے کچھ ہفتے قبل کیا گیا اور اس کی وجہ مینوفیکچرننگ اور تعمیرات کے شعبوں میں پیداواری اضافے کو قرار دیا گیا۔
یہ اونچی شرح ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چین، جاپان، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کووڈ کے تباہ کن معاشی اثرات سے باہر آنے کے لیے اب بھی جد وجہد کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعت کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ اونچی شرح اعداد و شمارکے ہیر پھیر سے حاصل کی گئی جبکہ ملک کی معیشت اس وقت دباؤ سے گزر رہی ہے۔
آخری سہہ ماہی میں آٹھ اعشاریہ چار کی شرح ترقی کا ڈیٹا آنے کے بعد رواں مالی سال کے لیے معاشی ترقی کے تخمینوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ نئے تخمینے کے مطابق معیشت 2023-24 میں 7.6 فیصد کی سالانہ شرح سے ترقی کرے گی۔ پہلے یہ تخمینہ 7.3 فیصد کا تھا۔

انڈین معیشت میں تیزی کی وجہ کیا ہے؟
معیشت کا یہ ڈیٹا پارلیمانی انتخاب سے ایک مہینے پہلے جاری ہوا جو وزیر اعظم مودی کے لیے کافی خوش آئند ہے۔ نریندر مودی نے اونچی شرح کا ڈیٹا آتے ہی اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر ایک اپنے پیغام میں لکھا’8.4 فیصد کی شرح سے جی ڈی پی کی ترقی انڈین معیشت کی مضبوطی اور اس میں بہتری کے امکانات کی مظہر ہے۔ ہم تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ 140 کروڑ انڈین ایک بہتر زندگی گزار سکیں اور ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواب کو حاصل کیا جا سکے۔‘
ملک کے چیف اقتصادی مشیر اننت ناگیشورن نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معیشت مسلسل تمام توقعات سے بہتر نتیجے دے رہی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی کی شرح اونچی اور مضبوط ضرور ہے اور مستقبل میں اس کے فروغ کے امکانات بہتر نظر آ رہے ہیں لیکں بہت سے خارجی عوامل اسے نیچے کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
جی ڈی پی میں اضافہ سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ ماہرین یہ توقع کر رہے تھے کہ معیشت آخری سہہ ماہی میں پہلے کے مقابلے گھٹ کر 6.5 فیصد پر آ جائے گی۔

خود رزرو بینک آف انڈیا نے 6.5فیصد کا تخمینہ مقرر کیا تھا۔ روزنامہ انڈین ایکسپریس کی تجزیہ کار آنچل میگزین نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ جمعرات کو جو اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں ان میں پرانے ڈیٹا میں کئی تبیلیاں کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق ’ایک اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ گزرے ہوئے مالی سال کی مجوعی داخلی پیداوار جو7.2 فیصد تھی اسے اب گھٹا کر سات فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ رواں مالی سال میں پچھلے سال کا بھی ایک حصہ جڑ جائے جس سے اس برس جی ڈی پی کا فیصد بہتر نظر آئے گا۔‘
آنچل کہتی ہیں کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی کی شرح ترقی 7.8 تھی اب اسے 8.2 کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح نئے ڈیٹا میں دوسری سہ ماہی کی 7.6 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 8.1 کر دیا گیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کی شرح ترقیپرنظرثانی کر کے جس طرح اسے بڑھا کرد کھایا گیا ہے اس سے 2025 کے مالی برس کا جو6.7 فیصد کا تخمینہ رکھا گیا ہے اسے نیچے آنے کا خطرہ ہے۔
لیکن کئی تجزیہ کار اس سے متفق نہیں ہیں۔ ایک اقتصادی تجزیہ کار نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 8.4 فیصد کے اعداد پر انھیں حیرت نہیں ہوئی ہے۔ ’کووڈ کے دوران جب پوری دنیا کی معیشت بُری طرح لڑکھڑا گئی تھی اور ابھی تک نہیں سنبھل سکی ہے، اس وقت بھی انڈیا کی معیشت نے قدرے بہتر پرفارم کیا تھا۔ اور اب وہ رفتہ رفتہ اپنے اصل راستے پر آ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ اور تیز رفتار ترقی کرے گی۔‘
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آخری سہہ ماہی میں معیشت کی شرح اونچی جانے کا ایک سبب ٹیکس کلیکشن میں غیر معمولی اضافہ بھی ہے۔ نیٹ ٹیکسوں میں 32 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اپوزیشن کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ٹیکسوں میں اضافے کے سبب جی ڈی پی 8.4 فیصد لگنے لگا ہے۔ جی ڈی پی کی ایسی ترقی جس کا انحصار نیٹ ٹیکس پر ہو اور جو صارفین کے ذریعے خریدی جا رہی اشیا میں کمی کے باوجود ہو رہی ہو ایسی ترقی نہ برقرار رہ سکتی ہے اور نہ ہی یہ آنے والے برسوں کے لیے خوش آئند ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر معیشت کے مختلف اشاریوں کو ایک ساتھ رکھا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ عام آدمی کے لیے معیشت شدید دباؤ سے گزر رہی ہے۔ اس بڑھے ہوئے اعداد و شمار کے باوجود وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں منموہن سنگھ کی حکومت کے مقابلے معیشت کہیں سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔‘
آئندہ مہینے سے پارلیمانی انتخابات شروع ہو رہے ہیں۔ ناقدین کچھ بھی کہتے رہیں، مودی ان انتخبات میں 8.4 فیصد کا ڈیٹا انتخابی مہم میں لے کر جائیں گے اور اسے اپنی حکومت کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرسکیں گے۔