ہوم ورک نہ کرنے پر بچوں کو نیم برہنہ کر کے سزا: ’سب کے سامنے صرف انڈرویئر میں کھڑا کر دیا جائے تو دماغ پر کیا اثر پڑے گا‘

25 دسمبر کو انڈرویئر اور بنیان میں کھڑے بچوں کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
سکول
Getty Images
(فائل فوٹو)

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک پرائیویٹ سکول میں ساتویں جماعت کے آٹھ طالب علموں کو ہوم ورک نہ کرنے پر نیم برہنہ کر دیا گیا۔

25 دسمبر کو انڈرویئر اور بنیان میں کھڑے بچوں کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے ان بچوں میں سے ایک کے اہلخانہ نے کہا کہ ’ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ بچے نے شرم سے ہمیں نہیں بتایا لیکن بچے کے لیے ایسی تعلیم سے بہتر ہے کہ وہ ان پڑھ ہی رہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر اسے سب کے سامنے کپڑے اتار کر صرف انڈرویئر میں کھڑا کر دیا جائے تو اس کے دماغ پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا وہ کوئی مجرم تھا؟‘

اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد سیہور کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سنجے تومر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اس واقعے کا علم 26 دسمبر کو ہوا، جس کے بعد میں خود سکول گیا، بچوں سے بات کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بچوں کو ہوم ورک نہ کرنے پر بغیر کپڑوں کے راہداری میں کھڑا کر دیا گیا، جو سراسر غلط ہے۔‘

جب بی بی سی نے سکول کی پرنسپل ثمرین خان سے ان کے فون نمبر پر رابطہ کیا تو ایک رشتہ دار نے بتایا کہ وہ بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان سے کب بات ہو سکتی ہے تو رشتہ دار نے جواب دیا کہ ’ہم آپ کو یہ نہیں بتا سکتے۔ براہ کرم بعد میں کال کریں۔‘

تاہم اسی معاملے میں پرنسپل ثمرین خان نے 26 دسمبر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’یہ ایک سیاسی سٹنٹ ہے اور ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔‘

سیہورکے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سنجے تومر نے کہا کہ ہم نے اس معاملے میں سکول پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے اور پرنسپل ثمرین خان، سکیورٹی گارڈ امر سنگھ ورما اور ڈرائیور شیبو جعفری کو فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم دیا ہے۔

والدین کا الزام

ایک بچے کے والد جنھوں نے بی بی سی سے بات کی، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بچے کو بہتر تعلیم کے لیے ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کرایا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک چھوٹی کریانے کی دکان چلاتا ہوں اور میرے دو بیٹے ہیں۔ میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو اچھی انگریزی اور تعلیم کے لیے نجی سکول میں بھیجا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہاں اس کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا۔‘

’میں نے اپنے بیٹے سے بات کی ہے۔ وہ شرمندہ ہے اور ایسا محسوس کر رہا ہے جیسے اس نے کوئی سنگین جرم کیا ہو۔‘

ایک بچے نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اگر ہم ایک دن کے لیے بھی اپنا ہوم ورک نہیں کرتے تو ہمیں اس طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمیں کپڑے اتار کر کھڑے کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات گارڈز اور ڈرائیور ہمیں مارتے بھی ہیں۔‘

ایک خاندان کے ایک اور فرد کا کہنا تھا کہ ’کوئی پرائیویٹ سکول کی فیس میں ہزاروں روپے لیتا ہے اور پھر بچوں کی ذہنی صحت بگڑتا دیکھتا ہے۔‘

’ہم اپنے بچوں کو بھروسہ کر کے سکول بھیجتے ہیں اور یہاں ہم فیس ادا کرنے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ میرے بیٹے نے مجھے یہ سب کل بتایا اور اس کے بعد سے وہ خاموش ہے۔‘

طالب علموں کے والدین کا الزام ہے کہ ’بچوں کو سکول کی صفائی، جھاڑو لگانے اور پودوں کو پانی دینے کے لیے کہا جاتا تھا۔ اگر وہ غلطیاں کرتے ہیں، تو انھیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور مارا پیٹا جاتا ہے۔‘

’یہ ناقابل قبول اور سخت ہے‘

والدین کی شکایات کی تصدیق کرتے ہوئے سنجے تومر نے کہا کہ ’ہماری تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ نومبر سے پہلے کئی روز تک ہوم ورک نہ کرنے پر بچوں کو سردی میں ہر روز برہنہ کرایا جاتا تھا، یہ بات بھی سامنے آئی کہ سکیورٹی گارڈ امر سنگھ ورما اور ڈرائیور شیبو بچوں کو دھمکیاں دیتے اور مارتے پیٹتے تھے، اس کے علاوہ طالب علموں سے پتھر پھینکنے کا کام بھی کروایا جاتا تھا۔‘

تومر نے مزید کہا کہ ’اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ سکول میں نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے ایسا کیا گیا لیکن یہ ناقابل قبول اور سخت ہے۔‘

سنجے تومر نے کہا کہ تحقیقات میں تمام الزامات درست پائے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سکول پر عائد ایک لاکھ روپے کا جرمانہ سات دن کے اندر جمع کرانا ہو گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں ایسا واقعہ دہرایا گیا تو سکول کی ایکریڈیشن منسوخ کر دی جائے گی۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد والدین سماجی تنظیموں کے ساتھ جمعے کو سکول پہنچے۔

انھوں نے سکول کے گیٹ کے سامنے دھرنا دیا اور سکول کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

سیہور سٹی کے ایس پی ابھینندنا شرما نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’ہمیں والدین کی جانب سے شکایت موصول ہوئی، جس میں کہا گیا کہ سکول میں بچوں کو نیم برہنہ حالت میں سزا دی جا رہی اور مارا پیٹا جا رہا ہے اور دیگر کام کرائے جا رہے ہیں۔ پولیس فی الحال تحقیقات کر رہی ہے، جس کے بعد مناسب قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US