جنوبی کوریا کی ایک ٹیم کے تجزیے سے اشارہ ملا ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ کے بجائے کشش ثقل کے ذریعے کہکشائیں دوبارہ اکٹھی ہو سکتی ہیں، جس کے نتیجے کو ماہرین فلکیات ’بگ کرنچ‘ کہتے ہیں۔
ایریزونا کے صحرا میں ایک دوربین کائنات کی حتمی قسمت کا تعین کرنے کے لیے لاکھوں دور دراز کہکشاؤں کو ٹریک کرتی ہے کائنات کی پراسرار قوت جسے ’ڈارک انرجی‘ کہا جاتا ہے، اس میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلیاں وقت اور خلا سے متعلق ہماری موجودہ فہم اور سمجھ کو چیلنج کر رہی ہیں۔
جنوبی کوریا کی ایک ٹیم کے تجزیے سے اشارہ ملا ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ کے بجائے کشش ثقل کے ذریعے کہکشائیں دوبارہ اکٹھی ہو سکتی ہیں، جس کے نتیجے کو ماہرین فلکیات ’بگ کرنچ‘ کہتے ہیں۔
اس تجزیے میں شامل سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ وہ فلکیات کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک کے قریب ہیں۔
دیگر ماہرین فلکیات نے ان نتائج پر سوال اٹھایا لیکن یہ ناقدین جنوبی کوریا کی ٹیم کے دعوؤں کو مکمل طور پر رد نہیں کر سکے۔
’ڈارک انرجی‘ کیا ہے؟
ماہرین فلکیات پہلے سمجھتے تھے کہ کائنات کی توسیع، جو تقریباً 13.8 ارب سال پہلے بگ بینگ سے شروع ہوئی تھی، کشش ثقل کی وجہ سے آہستہ آہستہ سست ہو جانی چاہیے۔
پھر 1998 میں ڈارک انرجی کے شواہد دریافت ہوئے جو کائنات کی توسیع کو تیز کرنے والی قوت کے طور پر سامنے آئے۔
بہت روشن دھماکوں کے ساتھ پھٹنے والے ستاروں جنھیں ’سپرنووا‘ کہا جاتا ہے، کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ دور دراز کہکشائیں رفتار کم کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے دور ہو رہی تھیں۔
کچھ نظریات کے مطابق یہ مسلسل تیزی سے بڑھتی ہوئی کائنات پہلے ستاروں کو اتنا دور پھیلا سکتی تھی کہ رات کو آسمان میں تقریباً کچھ بھی نظر نہ آئے۔

یہ تنازع مارچ میں ایریزونا کے صحرا میں دوربین پر نصب ایک آلے ’ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ‘ (Desi) کے غیر متوقع نتائج سے شروع ہوا۔
ڈیسی کو ’ڈارک انرجی‘ کے بارے میں مزید دریافت کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس نے لاکھوں کہکشاؤں کی تیز رفتاری کو نہایت باریکی سے ٹریک کیا لیکن ماہرین فلکیات کو ان نتائج کی توقع نہیں تھی۔
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر اوفر لہاو، جو ڈیسی پروجیکٹ سے وابستہ ہیں، انھوں نے بتایا کہ ڈیٹا سے اشارہ ملتا ہے کہ کہکشاؤں کی تیز رفتاری وقت کے ساتھ بدلی اور یہ ایسا ہے جو پہلے سے طے شدہ معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انھوں نے بتایا کہ ’اب جب یہ بدلتی ہوئی ڈارک انرجی اوپر نیچے ہو رہی ہے تو ہمیں ایک نیا میکانزم چاہیے اور یہ پورے فزکس کے لیے ہلچل بن سکتی ہے۔‘
پھر نومبر میں رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی (RAS) نے جنوبی کوریا کی ایک ٹیم کی تحقیق شائع کی جو اس نظریے کی تائید کرتی ہے کہ ڈارک انرجی کی عجیب و غریب نوعیت اور بھی عجیب ہو گئی ہے۔
سیول کی یونسی یونیورسٹی کے پروفیسر یانگ وک لی اور ان کی ٹیم نے اس قسم کے سپرنووا ڈیٹا کی طرف رجوع کیا جس نے 27سال قبل پہلی بار ڈارک انرجی ظاہر کی تھی۔
ان ستاروں کے دھماکوں کو ایک معیاری روشنی سمجھنے کے بجائے، انھوں نے ان کہکشاؤں کی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے جن سے وہ آئی تھیں معلوم کیا کہ سپرنووا واقعی کتنے روشن ہیں۔
اس تبدیلی نے ظاہر کیا کہ نہ صرف وقت کے ساتھ ڈارک انرجی بدل گئی بلکہ حیرت انگیز طور پر تیز رفتاری بھی سست ہو رہی ہے۔
پروفیسر لی نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کائنات کی تقدیر بدل جائے گی، اگر ڈارک انرجیمستقل نہیں اور کمزور ہو رہی ہے، تو یہ جدید کائنات کے پورے نظریے کو بدل دے گا۔‘
اگر جیسا کہ پروفیسر لی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قوت جو کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیل رہی ہے، وہ کمزور ہو رہی ہے تو ایک امکان یہ ہے کہ یہ اتنی کمزور ہو جائے کہ کشش ثقل کہکشاؤں کو دوبارہ ایک ساتھ کھینچنا شروع کر دے۔
پروفیسر لی کہتے ہیں کہ ’کون سا نتیجہ جیتے گا، یہ ڈارک انرجی کی اصل نوعیت پر منحصر ہے، جس کا جواب ہمیں ابھی تک معلوم نہیں۔‘
لیکن پروفیسر لی کے دعوے اس شعبے میں کام کرنے والے کئی سینیئر ماہر فلکیات کو بالکل پسند نہیں آئے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر جارج ایفستاتھیو کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ صرف سپرنووا کی پیچیدہ تفصیلات کی عکاسی کر رہا ہے۔‘
’عمر کے ساتھ تعلق زیادہ مضبوط نہیں، مجھے تو یہ نظریہ کمزور لگتا ہے۔‘
عام رائے یہ ہے کہ کائنات اب بھی تقریباً غیر متغیر ڈارک انرجی کے ساتھ پھیل رہی ہے لیکن پروفیسر لی ایسی تنقیدوں کا سختی سے جواب دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا ڈیٹا 300کہکشاؤں پر مبنی ہے۔ تقریبا ایک ٹریلین میں ایک امکان ہے کہ یہ محض اتفاق ہو۔ لہٰذا میں محسوس کرتا ہوں کہ ہماری تحقیق بہت بہت اہم ہے۔‘
اس دوربین کے اندر موجود آلہ ایک وقت میں 5000 کہکشاؤں کی نقل و حرکت ٹریک کر سکتا ہے جنوبی کوریا کے نتائج کے بعد دو ٹیموں نے کچھ سپرنووا کی چمک کا دوبارہ جائزہ لیا۔
انھوں نے ایک پرانے مطالعے کو دیکھا جو مارچ کے ڈیسی نتائج میں شامل تھا، جس نے سارا ہنگامہ شروع کیا۔ انھوں نے مارچ کے نتائج کی دوبارہ جانچ کے لیے ایسا کیا کیونکہ یہ دعویٰ کہ ڈارک انرجی بدل رہی ہے، بہت متنازع تھا۔
دونوں ٹیموں نے اصل اشاروں سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر بات کی لیکن تفصیلی جانچ کے بعد بھی یہ اشارے ختم نہیں ہوئے۔
تو نتیجتا اس بات پر پرجوش اور کبھی کبھار متنازع بحث جاری رہے گی کہ آیا کائنات ہمیں اپنی اصل فطرت کے بارے میں نرمی سے سرگوشی کر رہی ہے یا ماہرین فلکیات آسمانی بھوتوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔
اس موضوع پر سینکڑوں سائنسی مقالے شائع ہو چکے ہیں اور ماہرین فلکیات اس بات پر منقسم ہیں کہ ان کے خیال میں بہترین وضاحت کیا ہے۔
رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی (RAS)کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر رابرٹ میسی کے مطابق یہ کوئی بری بات نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کون نہیں چاہتا کہ یہ سمجھ سکے کہ کائنات کیسے ختم ہو گی اور کیسے شروع ہوئی؟ انسان ہمیشہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، چاہے آپ اسے مذہبی نقطہ نظر سے لیں یا سائنسی نقطہ نظر سے۔‘
’یہ سوچ پانا کہ اچھا تو اربوں سال میں چیزیں اسی طرح ختم ہوں گی، کیا یہ غیر معمولی نہیں ہو گا؟‘