’سات مردوں نے میرا ریپ کیا‘: انڈیا میں غیرملکی سیاح خاتون کے مبینہ اجتماعی ریپ کے مقدمے میں چار افراد گرفتار

’سات مردوں نے میرا ریپ کیا۔ انھوں نے ہمیں مارا پیٹا اور لوٹا۔ زیادہ چیزیں نہیں لوٹی کیونکہ وہ میرا ریپ ہی کرنا چاہتے تھے۔‘
تصویر
Getty Images

انڈیا کی مشرقی ریاست جھاڑکھنڈ میں غیرملکی سیاح خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی ریپ کے واقعے نے لوگوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔

28 سالہ غیرملکی سیاح خاتون اور اُن کے شوہر موٹرسائیکل پر سفر کر رہے تھے اور یہ مبینہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وہ رات بسر کرنے کے لیے جھاڑکھنڈ کے ضلع ڈمکی میں رُکے۔

متاثرہ خاتون اور ان کا شوہر سپین اور برازیل کی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کیس میں چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ تین دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے گرفتار ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

غیرملکی سیاحوں کا یہ جوڑا چند ماہ پہلے ہی انڈیا پہنچا تھا۔ اس سے قبل وہ اپنی موٹر سائیکلوں پر ایشیا کے کئی ممالک کا سفر کر چکا ہیں۔

گذشتہ ہفتے کے اختتام پر خاتون نے اپنے انسٹاگرام پیج پر ایک ویڈیو پوسٹ کی۔ انسٹاگرام پر خاتون سیاح کے 234,000 فالوورز ہیں۔

انھوں نے ہسپانوی زبان میں لکھا ’سات مردوں نے میرا ریپ کیا۔ انھوں نے ہمیں مارا پیٹا اور لوٹا۔ زیادہ چیزیں نہیں لوٹی کیونکہ وہ میرا ریپ ہی کرنا چاہتے تھے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ حملہ آور مردوں نے انھیں مارا پیٹا اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔

متاثرہ خاتون کے شوہر نے ایک اور ویڈیو میں کہا کہ ’میرا چہرہ بگڑ چکا ہے مگر میری پارٹنر کی صورتحال مجھ سے بھی بدتر ہے۔ انھوں نے ہیلمٹ سے مجھے کئی بار مارا جبکہ میرے سر پر پتھر مارا۔ خدا کا شکر ہے کہ جیکٹ کی وجہ سے کچھ بچت ہو گئی۔‘

یہ دونوں ویڈیوز اب اس جوڑے کے سوشل میڈیا صفحات سے ہٹا دی گئی ہیں۔

ڈمکا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ پتامبر سنگھ کھیروار نے صحافیوں کو بتایا کہ سیاحوں کے اس جوڑے کو پولیس کی ایک گشت والی گاڑی نے دیکھا جو انھیں علاج کی غرض سے مقامی مرکزِ صحت لے گئی۔

انھوں نے کہا کہ ’چونکہ یہ جوڑا انگریزی اور ہسپانوی زبان میں بات کر رہا تھا اس لیے گشت کرنے والی ٹیم کو ابتدائی طور پر ان کی بات سمجھ نہیں آئی۔ لیکن وہ بظاہر زخمی دکھائی دیے، اس لیے انھیں علاج کے لیے لے جایا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جوڑے نے پھر ڈاکٹروں کو مبینہ ریپ کے بارے میں بتایا۔

انڈیا میں برازیل کے سفارتخانے نے بی بی سی کو بتایا کہ خاتون اور اُن کے شوہر ’ایک سنگین مجرمانہ حملے کا شکار‘ ہوئے ہیں۔ سفارتخانے نے کہا کہ وہ متاثرہ خاتون اور مقامی حکام کے ساتھ ساتھ سپین کے سفارت خانے سے بھی رابطے میں ہیں کیونکہ اس جوڑے نے انڈیا میں داخل ہونے کے لیے سپین کے پاسپورٹ استعمال کیے تھے۔

تصویر
BBC

برازیل کے سفارتخانے کا مزید کہنا ہے کہ ’سپین کے سفارتخانے نے کہا ہے کہ انھوں نے متاثرہ جوڑے کو نفسیاتی مدد سمیت تمام دستیاب امداد کی پیشکش کی تھی، لیکن انھوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ ان کی دیکھ بھال پہلے ہی انڈین ادارے کر رہے ہیں۔‘ برازیل کے سفارتخانے نے مزید کہا کہ وہ اس کیس میں تمام تر پیش رفت کی نگرانی کرتے رہیں گے۔

بی بی سی نے تبصرے کے لیے سپین کے سفارتخانے سے بھی رابطہ کیا ہے۔

انڈیا میں سپین کے سفارتخانے نے اتوار کو ایکس(سابقہ ٹویٹر) پر پوسٹ کیا کہ ’ہمیں دنیا میں ہر جگہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے اپنے عزم میں متحد رہنے کی ضرورت ہے۔‘

سنہ 2012 میں دہلی میں ایک بس میں ایک نوجوان خاتون کے اجتماعی ریپ اور قتل کے بعد انڈیا میں ریپ اور جنسی تشدد کے بارے میں بات چیت اب زیادہ نمایاں انداز میں ہوتی ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ لیکن ہر سال انڈیا میں ریپ کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔

غیرملکی سیاح خاتون کے ساتھ پیش آنے والے مبینہ ریپ کے واقعے کے بعد کئی خواتین نے انڈیا میں سفر کے دوران ناپسندیدہ جنسی توجہ سے نمٹنے کی اپنی کہانیاں شیئر کی ہیں۔

انڈیا کے قومی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ ریکھا شرما کو بھی ایک امریکی صحافی کی پوسٹ کا جواب دینے کے بعد تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکی صحافی نے لکھا کہ انڈیا سیاحت کے لیے اُن کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے لیکن یہاں انھوں نے ’جنسی جارحیت کی جس سطح‘ کا مشاہدہ کیا وہ انھوں نے کسی اور ملک میں نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنے جاننے والی خواتین پر ہونے والی جنسی حملوں کی چند مثالیں بھی دیں۔

ریکھا شرما نے اس امریکی صحافی کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’کیا آپ نے کبھی پولیس کو واقعے کی اطلاع دی؟ اگر نہیں تو آپ مکمل طور پر ایک غیر ذمہ دار شخصیت ہیں۔ صرف سوشل میڈیا پر لکھنا اور پورے ملک کو بدنام کرنا کوئی اچھا انتخاب نہیں ہے۔‘

اس ردعمل کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

کئی لوگوں نے سیاح جوڑے کے انسٹاگرام اور یوٹیوب ویڈیوز کے نیچے تبصرے بھی کیے ہیں، جس میں ان کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US