پیر کو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن رہنماؤں کی تقریر کی دوران سرکاری ٹی وی پی ٹی وی پر نشریات بند کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بلوچستان کے رہنماؤں کی بھی تقاریر سینسرڈ کی گئیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے اس پابندی پر کیا تبصرے کیے؟
حزب اختلاف کو تو ہمیشہ ہی یہ شکوہ رہتا ہے کہ اسے سرکاری ٹی وی تک رسائی نہیں دی جاتی۔ آج کے حکمران بھی اپوزیشن میں یہی شکوے کرتے تھے۔ کل کے حکمران اب آج اپوزیشن بینچز سے ایسی ہی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ عام حالات میں سرکاری ٹی وی کی کسی کو پرواہ ہو نہ ہو مگر خاص حالات میں تو جیسے سرکاری ٹی وی کی کوریج پر سب کی نظریں ٹھہر جاتی ہیں۔
اتوار کو جب شہباز شریف قائد ایوان منتخب ہوئے تو سرکاری ٹی وی نے پورے لوازمات کے ساتھ ان کے طویل خطاب کا ایک ایک لفظ عوام تک پہنچایا۔ مگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عمر ایوب اتنے خوش قسمت ثابت نہ ہوئے اور ان کی تقریر کے دوران جہاں کیمرے کے رخ موڑے گئے وہیں کیمرے نے اپنا منھبھی ان سے پھیر لیا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوسرے دن کے سیشن میں بھی اپوزیشن رہنماؤں کی تقریر کی دوران سرکاری ٹی وی پی ٹی وی پر نشریات بند کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اتوار کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے بعد شہباز شریف نے جب ایوان میں تقریر کی تو اس کے بعد ان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینے والے عمر ایوب نے خطاب کیا تو سرکاری ٹی وی نے وہ خطاب سینسر کر دیا، جس پرعمرایوب نے ایوان میں سخت احتجاج کیا اور سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ ایوان میں اس وقت اپوزیشن کی قیادت کر رہے ہیں اور سرکاری ٹیلی ویژن پر وزیر اعظم شہبازشریف کی تقریر کی طرح ان کی تقریر بھی نشر کرنا ان کا حق بنتا ہے۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب کی تقریر نشر نہ کیے جانے پر ارکان نے ڈپٹی سپیکر سے مطالبہ کیا کہ ’آپ رولنگ دیں۔‘
قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے قومی نشریاتی ادارے پی ٹی وی کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عُمر ایوب خان کی تقریر کو نشر کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’عمر ایوب صاحب! آپ اتنے سینیئر ہیں۔ آپ چیئر کو حکم نہ دیں۔ میں نے ہدایت دے دہی ہے، پی ٹی وی اسے لائیو چلائے۔‘
مگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔
پیر کو عمر ایوب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہباز شریف کی تقریر نشر کی گئی مگر میرا خطاب سینسر کیا گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا شہباز شریف آسمان سے اترے ہوئے ہیں؟

پیر کے روز قومی اسمبلی کے دوسرے دن کے اجلاس میں بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ اسد قیصر اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سردار اختر مینگل کی تقریر کے دوران بھی نشریات بند کر دی گئیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ ’عمر ایوب کی تقریر میں ایک لفظ ایسا نہیں تھا جس کو سپیکر یا ڈپٹی سپیکر نے حذف کرنے کا آرڈر دیا ہو، اس کے باوجود ہمیں لائیو کوریج نہ دینے کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سردار اختر مینگل نے گرفتار صحافیوں اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسد طور اور عمران ریاض کو رہا کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں بلوچستان کے قیدیوں کی بات نہیں کر رہا کیونکہ وہاں پر ہم سیاسی نہیں جنگی قیدی ہیں۔
انھوں نے چند ہفتے قبل بلوچستان سے اپنے پیاروں کی رہائی کا مطالبہ لیے اسلام آباد آنے والی خواتین کے ساتھ کیے گئے سلوک کی بھی مذمت کی۔ تاہم ان کی تقریر کے دوران سرکاری ٹی وی پر نشریات بند کر دی گئیں ہیں۔

اسد قیصر نے کیا ایسے مطالبات کیے کہ پی ٹی وی خاموش ہو گیا؟
پی ٹی آئی رہنما اور سابق سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں سابق وزیراعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی، بشری بی بی اور پرویز الٰہی کے خلاف تمام مقدمے واپس لیں، ہمارے لیڈران کو رہا کیا جائے تو جمہوریت اور آئین کی بالادستی اور آزاد عدلیہ کے لیے آپ کے ساتھ اکھٹے ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جس عمران خان نے پاکستان کا نام روشن کیا اسے دہشت گرد ڈیکلئیر قرار دیا گیا، اگر عمران خان دہشت گرد کے تو پھر ہم سب دہشت گرد ہیں۔
انھوں نے پیمرا کی جانب سے عمران خان کے بائیکاٹ کی بھی مذمت کی اور اسے واپس لینے کا اعلان کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ہمارے صدراتی امیدوار محمود اچکزئی کے گھر چھاپہ مارا ہے میں ان لوگوں کو ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں، ڈر اور خوف کا وقت اب گزر چکا ہے۔
اسد قیصر کے مطابق ’گھروں پر چھاپے پڑے، گرفتار کیا گیا، دباؤ میں لایا گیا کہ اپنی پارٹی بناؤ، میں نے اس وقت کہا تھا مرجاؤں گا عمران خان کو نہیں چھوڑوں گا۔‘
https://twitter.com/Brashnaa/status/1764580946898993289?s=20
سوشل میڈیا پر بحث: ’یہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں کی تقریر نہیں سن سکتے تو مسائل کیا حل کریں گے‘
برشنا کاسی نامی ایک صارف نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ پہلے انھوں نے محمود اچکزئی کی تقریر سینسر کی اور اب یہ انھوں نے اختر مینگل کے ساتھ کیا ہے۔
انھوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ریاست بلوچستان کے تحفظات کیسے دور کرے گی جب اس صوبے کے منتخب نمائندوں کا درد سننے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ ان کو آزادی اظہار خیال ہی نہیں دیا جا رہا ہے۔
https://twitter.com/PTIofficial/status/1764237900403650692
پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے یہ ٹویٹ احتجاج بھی ریکارڈ کروایا کہ ہمارے وزیراعظم کے امیدوار عمر ایوب پارلیمانی روایت کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔ مگر پی ٹی وی یہ تقریر نہیں نشر کر رہا ہے۔
https://twitter.com/PTIofficial/status/1764286942974238913
تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان نے کہا کہ ’عمر ایوب کی تقریر میں ایک لفظ ایسا نہیں تھا جس کو سپیکر یا ڈپٹی سپیکر نے حذف کرنے کا آرڈر دیا ہو، اس کے باوجود ہمیں لائیو کوریج نہ دینے کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔‘
https://twitter.com/EkraRT/status/1764264178271801566
ایف زیڈ کے نامی صارف نے لکھا کہ انھوں نے عمر ایوب کے خطاب کے دوران کیمرے کا رخ ہی موڑ دیا تاکہ عمران خان نہ دکھائی دے سکیں۔
ایک اور صارف اقرا نواب خان نے لکھا کہ جب انھوں نے کیمرے کا رخ موڑا تو پھر اس کے بعد ایک تحریک انصاف کے رکن نے عمر ایوب پر ہر طرف سے عمران خان کی تصاویر والے سٹکرز چسپاں کر دیے۔ اس پر سوشل میڈیا پر شمس خٹک نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کو ’کہاں کہاں سے مائنس کرو گے۔‘