
گذشتہ ہفتے انڈیا کی امیر ترین کاروباری شخصیت مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی سے قبل کی تین روزہ تقریبات دنیا بھر میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔
اگرچہ یہ شادی سے متعلق ایک تقریب تھی تاہم بعض حلقے اس تقریب کو دنیا میں انڈیا کی ’سافٹ پاور‘ کی جھلک کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔ جبکہ چند کا خیال ہے کہ یہ محض برصغیر میں شادی بیاہ کے مواقع پر دولت کی نمائش کی فرسودہ روایت کا تسلسل ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی شادی سے قبل ہونے والی تقریبات کو لے کر بحث مباحثے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس تقریب میں شامل معروف شخصیات میں جہاں بالی وڈ کے لگ بھگ تمام بڑے نام تھے وہیں عالمی سطح پر شہرت یافتہ گلوکارہ ریحانہ کے ساتھ ساتھ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسا کہ مائیکروسافٹ، فیس بُک اور گوگل کے سربراہان اور نمائندوں کے ساتھ ساتھ امیرِ قطر جیسے افراد بھی موجود تھے۔
انڈیا کے معروف سوشل سائنٹسٹ (سماجی رویوں پر نظر رکھنے والے ماہر) پرتاپ بھانو مہتا نے ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’اننت امبانی اور رادھیکا مرچنٹ کی شادی سے پہلے کی تقریب پر عالمی دنیا کی مسلسل توجہ انڈیا کی ثقافت اور سیاسی معیشت دونوں میں وسیع تبدیلیوں کو دیکھنے کے لیے ایک دلچسپ دریچہ کھولتی ہے۔۔۔
’سکرپٹ دیکھیں تو یہ دلکش ہے جس میں دولت، طاقت، گلیمر اور خاندانی اقدار وغیرہ کا کامل امتزاج نظر آتا ہے۔‘
اُن کے مطابق یہ ایک ایسی بالی وڈ مسالہ کہانی تھی جس پر کبھی اس طرز کی فلمیں بنانے والے معروف فلمساز سورج برجاتیا کا بھی خیال نہیں گیا ہو گا۔ یاد رہے کہ سورج برجاتیا نے شادی بیاہ پر مبنی فلمیں ’ہم آپ کے ہیں کون‘، ’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘، ’میں پریم کی دیوانی ہوں‘، ’واہ‘، اور ’پریم رتن دھن پایو‘ جیسی فلمیں بنائی ہیں۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بین الاقومی کے سابق پروفیسر اور تاریخ داں پشپیش پنت نے اس سے برعکس خیالات کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا کہ کسی نجی شخصیت کے برعکس اگر انڈین حکومت نے اس قسم کا کوئی ثقافتی پروگرام کروایا ہوتا اور اس میں اتنے سارے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا ہوتا تو یہ انڈیا کی سافٹ پاور کا مظاہرہ ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ ’میری نظر میں یہ دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ایک کاروباری شخصیت کی اپنی دولت، دوستی اور تہذیب و ثقافت کا مظاہرہ زیادہ ہے، جس میں قطر کے شیخ سے لے کر بالی وڈ کے بڑے سٹارز، یہاں تک کہ حاملہ دیپکا پڈوکون تک شامل رہیں کیونکہ انڈیا میں اس قسم کے تماشے کے لیے بہت مواقع میسر ہیں کہ اُدے پور کے لیک پیلس میں آؤ اور شاہانہ شادی کراؤ۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ مکیش امبانی نے گجرات کے شہر جام نگر کو گلوبل نقشے پر لا کھڑا کیا ہے تو اس میں بھی صداقت نہیں کیونکہ آپ دس دن بعد جب وہاں جائیں گے، جب شادی کے شامیانے اکھڑ چکے ہوں گے تو پھر نہ وہ رونق ہو گی، نہ ہوائی اڈے ہوں گے اور نہ وہ پروٹوکول ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ انڈیا میں روایت ہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی دھوم دھام سے شادی کرتا ہے، چاہے اس کی خاطر لیے جانے والے قرض کا بوجھ زندگی بھر ہی کیوں نہ ڈھوتا رہے۔
بہرحال انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ یہ شادی کچھ حد تک دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ امبانی انڈیا کے اب دوسرے امیر ترین شخص ہیں اور ان کے بزنس دنیا بھر میں پھیلے ہیں جبکہ دوسری طرف دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی نگاہیں انڈیا پر ایک عرصے سے مرکوز ہیں کیونکہ انھیں دنیا بھر میں انڈیا سے بڑا بازار کہاں ملے گا۔
ایسے میں دنیا میں ایک پیغام جاتا ہے کہ انڈیا میں اتنے بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے تھے لیکن یہ زیادہ دیسی عوام کی کنزمپشن کے لیے ہے نہ کہ بین الاقوامی عوام کے لیے۔

مکیش امبانی کاروباری شخصیات کو بلانے میں کیونکر کامیاب رہے؟
انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق اس تقریب کے تیسرے دن گجرات کے شہر جام نگر میں بالی وڈ کے بڑے ناموں کے علاوہ دنیا کی معروف کاروباری شخصیات بشمول بل گیٹس، مارک زکربرگ، گوتم اڈانی، ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندرشیکرن، کمار منگلم برلا اور اجے پیرمل وغیرہ شامل تھے۔
اس تقریب میں ڈزنی کے سربراہ رابرٹ اگنر کو بھی مدعو کیا گیا جنھوں نے گذشتہ بدھ کو انڈیا میں اپنے میڈیا کے کاروبار کو ریلائنس انڈسٹریز کے ساتھ ضم کرنے کا معاہدہ کیا۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک انڈیا میں یہ انضمام 8.5 ارب ڈالر کی انٹرٹینمنٹ کمپنی کے وجود کا باعث بنے گا جو پانچویں سب سے بڑی معیشت کے لیے تفریحی مواد تیار کرے گی۔
چند افراد کا یہ خیال بھی ہے کہ امبانی عالمی کاروباری شخصیات کو اس لیے بھی مدعو کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ ان کی ایسے افراد کی کمپنیوں کے ساتھ کاروباری شراکتیں بھی ہیں۔
ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ انڈیا کی ایک بین الاقوامی سطح کی کمپنیوں کا گروپ ہے جس کا صدر دفتر ممبئی میں ہے۔ ریلائنس کمرشل کارپوریشن سنہ 1958 میں دھیرو بھائی امبانی نے قائم کی تھی۔ مکیش امبانی اس وقت کمپنی کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے بچے آکاش امبانی، ایشا امبانی، اور اننت امبانی کے بھی ریلائنس کے کاروبار میں اہم کردار ہیں۔
مکیش امبانی کی کمپنیوں کا مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عمل دخل ہے اور یہ امریکہ کے فیشن برانڈ ’گیپ انک‘ سے معاہدہ ہے جبکہ اس نے برطانیہ کی کھلونوں کی کثیر ملکی کمپنی ’ہملے‘ کو خرید لیا ہے۔
ان کی ریلائنس انڈسٹریز نے ’نیٹ میڈس‘ کے زیادہ تر شیئر حاصل کر رکھے ہیں جبکہ ’مارک اینڈ سپینسر‘ میں بھی اس کا زیادہ حصہ ہے۔
فیس بُک نے ریلائنس جیو میں 5.7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور اس طرح یہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں سب سے بڑی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔ اس سے ہندوستانی معیشت کو فروغ دینے اور ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک پُرکشش مقام کے طور پر پوزیشن میں لانے میں مدد ملے گی۔
پیٹرولیم کے شعبے میں ریلائنس نے ’شیوران‘ کے ساتھ شراکت داری کی اور اس طرح وہ امریکی مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو بڑھا رہی ہے۔ سنہ 2019 میں دونوں کمپنیوں نے پورے انڈیا میں فیول سٹیشنوں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد ایندھن کی بڑھتی ہوئی مانگ کا فائدہ اٹھانا تھا، جبکہ شیورون کو ہندوستانی مارکیٹ میں قدم جمانا بھی تھا۔
ریلائنس نے مشرق وسطی میں اپنی موجودگی کو بڑھاتے ہوئے تیل اور پیٹرو کیمیکل ریفائنریوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ سنہ 2019 میں ریلائنس نے انڈیا میں ایک میگا ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس تیار کرنے کے لیے سعودی سرکاری کمپنی’آرامکو‘ کے ساتھ مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا۔
خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق مکیش امبانی کی ریلائنس ریٹیل انڈیا میں موجودہ سرمایہ کاروں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ ان میں سنگاپور، ابوظہبی اور سعودی عرب کے خودمختار فنڈز شامل ہیں اور یہ ادارے مبینہ طور پر تقریباً 1.5 ارب ڈالر کی مشترکہ نئی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔
’روٹرز‘ نے مزید لکھا ہے کہ سنگاپور کی جی آئی سی، ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی (اے ڈی آئی اے) اور سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) ریلائنس ریٹیل میں کم از کم 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔
کھیل کے میدان میں ریلائنس اور مانچسٹر سٹی کے درمیان شراکت داری ایک طویل مدتی تعاون ہے جس کا مقصد انڈیا میں نچلی سطح پر فٹ بال کو فروغ دینا ہے۔
سافٹ پاور اور انڈیا

یہی سوال ہم نے انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سینیئر فیلو ڈاکٹر فضل الرحمان سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سافٹ پاور وہ قوت ہوتی ہے جس میں کسی دباؤ کے بغیر آپ دوسرے کو انسپائر کریں، انھیں اپیل کریں، انھیں ترغیب دیں۔ اس میں معاشی، سماجی یا سیاسی جبر کے بغیر اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ثقافتی سفارت کو ملک کے سافٹ پاور کا ایک اہم پہلو قرار دیا ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق: ’انڈیا کی سافٹ پاور کا بین الاقوامی اثر 21ویں صدی میں اس اصطلاح کے مقبول عام ہونے سے بہت پہلے محسوس کیا جانے لگا تھا۔ انڈین فنون، ثقافت اور روحانیت نے صدیوں سے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔۔۔ جو کہملک کے وسیع تر سیاسی اور اقتصادی اہداف سے جڑے ہوئے ہیں۔‘
عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے سکالر ڈاکٹر فضل کہتے ہیں کہ 'انڈیا کے پاس بہت سے سافٹ پاور ہیں۔ انڈیا کی تاریخ اور تاریخی تسلسل اپنے آپ میں دنیا میں دلچسپی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اس کے پاس تہذیبی اور ثقافتی کثرت ہے۔ فلسفے اور مختلف مذاہب کا مرکز ہونے کے معاملے میں بھی یہ توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ہولی دیوالی جیسے اس کے انوکھے تہوار، مختلف علاقوں کے رقص اور ان کے مختلف انداز، زبانوں کا عجائب گھر ہونا اور فارسی عربی اور انگریزی جیسی زبانوں کو اپنا بھی اس کے حق میں گیا ہے۔‘
ان کے مطابق آج کے دور میں بالی وڈ دنیا بھر میں کشش کا بڑا مرکز رہا ہے۔ ان کے آئیکون انٹرنیشنل آئیکون ہیں۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اس کا بڑا سافٹ پاور ہے جس میں بالی وڈ کے علاوہ دیگر علاقوں کے سنیما اور رقص و موسیقی شامل ہیں۔
ان کے مطابق یوگا نے بھی عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی ہے اور اس کا کثرت میں وحدت کا نظریہ بھی پرکشش رہا ہے۔
انھوں نے مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی کے حوالے سے کہا کہ اس میں لوگوں کی شرکت اور ان میں میل جول یقینی اہمیت کا حامل ہے لیکن جیسے پہلے فرانس اور سویٹزر لینڈ بڑی شادیوں کا مقام ہوتا تھا ویسے ہی اب لوگ انڈیا کے جے پور اور بھوپال میں آکر پرتعیش شادیاں کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پرتاب بھانو مہتا نے لکھا کہ ’بلاشبہ امبانی دلکش، شاندار اور سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ اور بلاشبہ وہاں موجود تمام لوگوں کو امبانی خاندان سے حقیقی ذاتی لگاؤ تھا۔ لیکن ایک عوامی تماشے کے طور پر یہ خیال کہ کوئی کسی کو بھی بلا سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، دکھاوا کر کے انھیں رقص کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔۔۔
’یہ سب کچھ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ ہم طاقت کے زبردست ارتکاز کو کیوں برداشت کرتے ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جس میں زبردست طاقت ہے، جو ہر ایک کو اوقات میں لا سکتا ہے۔ آپ سیکریٹری آف سٹیٹ یا دنیا کے سب سے بڑے سٹار ہو سکتے ہیں لیکن جب امبانیز آپ کو بلاتے ہیں تو آپ ان کی تقریب میں دکھائی دیتے ہیں۔‘