نادیہ جمیل اور ’خوشبو میں بسے خط‘: ’سوشل میڈیا پر موجود لوگ غیر ہیں مگر انھی کی دعاؤں نے سہارا دیا‘

نادیہ آج کل کافی عرصے بعد ٹی وی سکرین پر ایک اہم کردار میں نظر آرہی ہیں۔ وہ ڈرامہ سیریل ’خوشبو میں بسے خط‘ میں ڈاکٹر عدیلہ کا کردار نبھا رہی ہیں۔بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو میں نادیہ نے بتایا کہ عدیلہ سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔
bbc
BBC

پاکستانی اداکارہ نادیہ جمیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ سوشل میڈیا پر موجود لوگ ان کے لیے ’غیر‘ ہیں، مگر انھی لوگوں کی دعاؤں نے انھیں مشکل وقت میں سہارا دیا۔

نادیہ آج کل کافی عرصے بعد ٹی وی سکرین پر ایک اہم کردار میں نظر آ رہی ہیں۔ وہ ڈرامہ سیریل ’خوشبو میں بسے خط‘ میں ڈاکٹر عدیلہ کا کردار نبھا رہی ہیں۔

ایک پڑھی لکھی، خود مختار خاتون ہونے کے باوجود عدیلہ اپنے شوہر کی زیادتیاں برداشت کرتی ہے۔

بی بی سی اُردو سے خصوصی گفتگو میں نادیہ نے بتایا کہ عدیلہ کے کردار سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کردار میں ایک تحمل، ٹہراؤ اور وقار تھا۔ جو مجھ سے بالکل برعکس ہے ’میں بے ہنگم بولنے والی شخصیت ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بہت ساری خواتین اور مرد حضرات ایسے رشتوں میں پھنسے ہوئے ہیں جن میں ان کی عزت نہیں ہوتی۔ وہ خاندان، گھر اور بچوں کی خاطر بے عزتی برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔‘

نادیہ کا کہنا ہے کہ ’یہ کردار میرے دل کے بہت قریب ہے۔ لائف کوچ ہونے کی وجہ سے میرے بہت سارے کلائنٹ بھی اس چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے یہ بہت مخصوص اور دلچسپ کہانی ہے۔‘

’صبیحہ ہاشمی جی جو میری ماں کا کردار نبھا رہی ہیں وہ شروع سے ہی اس رشتے میں رہنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ میں اُمید کرتی ہوں کہ یہ ڈارمہ خواتین کو سکھائے کہ اگر ہم اس چنگل میں پھنس گئے ہیں تو اس سے نکلا بھی جا سکتا ہے۔‘

پچھلے کچھ سالوں سے نادیہ سکرین پر نظر کیوں نہیں آئیں؟

ڈرامے میں نادیہ اداکار عدنان صدیقی کے ساتھ نظر آرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدنان کے ساتھ کام کر کے انھیں کافی مزہ آیا۔

پچھلے کچھ سالوں کے دوران نادیہ سکرین پر نظر نہیں آئیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سال 2020 میں نادیہ کو کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اس وجہ سے وہ پہلے کی طرح کام نہیں کر رہی تھیں۔

سکرین پر واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’واپس آ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’کیموتھراپی کے اثرات دو سال تک رہتے ہیں اور یہ تیسرا سال چل رہا ہے۔ شکر ہے غیر صحت مند سال خیریت سے گزر گئے ہیں۔میری وہ توانائی واپس آ گئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’گرمیوں کے دنوں کی شوٹننگ میرے لیے چیلنجنگ تھی۔ جو ادویات میں کھا رہی ہوں ان کی وجہ سے میرا باڈی ٹمپریچر بڑھا ہوا رہتا ہے۔ اسی لیے گرمیوں میں کام کرنا تھوڑا مشکل رہا۔‘

ان دنوں نادیہ سکرین کے ساتھ ساتھ مختلف تقریبات، ٹی وی شوز اور آگاہی پھیلانے والے پلیٹ فارمز پر بھی نظر آ رہی ہیں۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ وہ سکرپٹ کے انتخاب میں کنجوسی کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب ہمیں شادی کے جنون سے باہر نکل جانا چاہیے اور بھی بہت ساری مختلف تھیمز ہیں جن پر کام ہونا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان 76 سال پرانا ملک ہے اور اس کی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی صفر ہے۔ ہم اپنی حقیقی اور ڈرامائی زندگی دونوں میں بچّوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔‘

’تکلیف ایک بہت خوبصورت استاد ہے، اس سے یا تو آپ ڈوب سکتے ہیں یا اُڑ سکتے ہیں‘

نادیہ کے سوشل میڈیا پر غور کریں تو اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مینٹل ہیلتھ اور چائلڈ پروٹیکشن سے جڑے معاملات ان کے دل کے بہت قریب ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئی جہاں پر بہت پیار و محبت سے میری پرورش ہوئی۔ میرے اردگرد بے انتہا پیار تھا۔ لیکن زندگی میں جنسی تشدد کے حوالے سے کچھ ایسے حادثے اور واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے میری دماغی صحت بہت زیادہ متاثر ہوئی۔‘

’اصل بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ڈیل کرنا سیکھا ہی نہیں۔ یہ تمام چیزیں آہستہ آہستہ بڑھتی گئیں اور ایسے مرحلے پر پہنچ گئیں کہ جب مجھے 2020 میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو ایک طرح سے میرا بریک ڈاؤن ہو گیا تھا۔ وہاں سے میری دماغی صحت کا سفر شروع ہوا اور وہ سفر بہت خوبصورت رہا ہے۔اب میں اپنی خود اعتمادی سے خوش ہوں اور مجھے خود پر فخر ہے۔‘

نادیہ نے بتایا کہ ان کی عمر 17 برس تھی جب انھوں نے بچوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے بچوں کے ساتھ کام کر کے تھوڑا سکون ملتا تھا۔ میرے سفر کا آغاز ایک تکلیف سے ہوا اور تکلیف ایک بہت خوبصورت استاد ہے۔ اس سے یا تو آ پ ڈوب سکتے ہیں یا اُڑ سکتے ہیں۔‘

’سوشل میڈیا ایک بہت خوبصورت جگہ ہے لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے‘

سوشل میڈیا کے استعمال اور اثرات کے حوالے سے نادیہ کا کہنا ہے کہ کینسر کی تشخیص کے بعد انھیں سٹیرایڈز سے منسلک ذیابیطس ہو گئی اور اُس وقت اُن کی حالت بہت خراب رہی۔

’کچھ وقت میں کومے اور وینٹیلیٹر پر رہی۔ بعد ازاں جب میں ہوش میں واپس آئی تو مجھے بہت زیادہ کمزوری ہو گئی تھی۔ موبائل اُٹھانے کے لیے ہاتھ بھی مشکل سے اُٹھتا تھا۔ وہاں انٹرنیٹ سگنلز ویک ہونے کی وجہ سے صرف انسٹاگرام چلتا تھا تو میں اس پر پوسٹ لگا دیتی تھی۔‘

وہ بتاتی تھیں کہ ’لوگ مجھے اتنا پیار اور دعائیں بھیجتے تھے کہ خوشی اور شکر کے آنسو تکیہ پر گرتے تھے۔حالاںکہ وہ میرے لیے غیر ہیں لیکن ان لوگوں کی دعاؤں نے مجھے اُٹھا کر رکھا اور اسی کی وجہ سے میں آج یہاں ہوں۔‘

سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے نادیہ نے حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے کا ذکر کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’جب میں چار، پانچ سال کی تھی تو میرا سیدھا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ مجھے مرگی کا مرض بھی ہے جس کے دورے میرے سیدھے ہاتھ پر ہی پڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے میری یہ سائیڈ تھوڑی اکڑی ہوئی ہے تو اس طرف سے نوالہ نہیں بنتا۔ چمچہ تو پکڑ لیتی ہوں لیکن ہاتھ اُٹھنے میں ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے میں اُلٹے ہاتھ سے کھانا کھاتی ہوں۔‘

’جب کبھی میں کسی ویڈیو کے دوران اُلٹے ہاتھ سے کچھ کھا رہی ہوتی ہوں تو اس پر مجھے اتنے بُرے الفاظ اور باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ میرے بیٹے پریشان ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ’ماں،آپ پلیز سوشل میڈیا پر کھانا نہ کھایا کریں‘ میں کہتی ہوں کہ یہ بات آپ مجھ سے پوچھ لیں کہ میں کھانا سیدھے ہاتھ سے کیوں نہیں کھا رہی۔‘

نادیہ کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا ایک بہت خوبصورت جگہ ہے لیکن بات وہی ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US