یہ تاریخی درگاہ صرف سیاسی سٹیج ہی نہیں بلکہ مسلح تشدد کا بھی شکار رہی ہے۔ نومبر 1993 میں کشمیر میں مسلح شورش کو صرف تین ہی برس ہوئے تھے کہ اچانک یہ خبر عام ہوئی کہ حضرت بل میں 40 مسلح شدت پسندوں نے پناہ لے کر کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کئی منصوبوں کے ساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں کی سب سے بڑی درگاہ حضرت بل میں سہولیات کی تجدید کے منصوبے کے افتتاح کے حوالے سے بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سرینگر کی مقدس سرزمین سے بھارت کے 140 کروڑ لوگوں کو رمضان کے مقدس مہینے کی مبارک باد دیتا ہوں۔‘
وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ لگاتار کوشش کرتے رہے ہیں کہ کشمیریوں کا دل جیت سکیں اور ’آج لاکھوں کی تعداد میں یہاں موجود کشمیریوں کی محبت دیکھ کر لگتا ہے کہ میں اُن کے دل جیتنے کی کوششوں میں کامیاب ہورہا ہوں۔‘
شیخ محمد عبداللہ اسی درگاہ پر جمعے کی نماز سے پہلے اپنی سیاسی تقریر قران کی تلاوت اور اقبال کے چند اشعار سے شروع کرتے تھےحضرت بل درگاہ کی اہمیت کیا ہے؟
کشمیری موٴرخ غلام نبی گوہر نے اس درگاہ کی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سترہویں صدی میں جب ہندوستان پر اورنگزیب کی حکومت تھی، اس دوران بیجاپور دکن سے تعلق رکھنے والا ایک تاجر پیغمبرِ اسلام سے منسوب ’موئے مقدس‘ کشمیر لایا اور دعویٰ کیا کہ انھیں یہ ایک عرب تاجر نے دیا تھا۔
موئے مقدس کے بارے میں یہاں کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کی داڑھی کا ایک بال ہے۔ اس تبرک کو پہلے سرینگر کی ایک چھوٹی درگاہ خانقاہ نقشبندیہ میں رکھا گیا لیکن کشمیر کے کونے کونے سے لوگ وہاں پہنچنے لگے جس کے سبب جگہ کم پڑنے لگی۔
غلام نبی گوہر لکھتے ہیں: ’اُن دنوں کشمیر پر افغان حکومت تھی۔ افغان حکمرانوں نے سرینگر کے مغرب میں جھیل ڈل کے کنارے سرسبز زمین کا وسیع رقبہ نئی درگاہ کے لیے وقف کر دیا اور وہاں درگاہ تعمیر کی گئی جہاں موئے مقدس کو منتقل کیا گیا۔‘

حضرت بل ایک سیاسی سٹیج
تاریخ دان اور تجزیہ کار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ خود مختار کشمیر کے وزیرِاعظم شیخ محمد عبداللہ نے اپنا سیاسی کیریئر حضرت بل سے ہی شروع کیا تھا۔
شیخ عبداللہ سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے دادا اور رکن پارلیمان فاروق عبداللہ کے والد تھے۔
موٴرخ غلام نبی گوہر کے مطابق 1931 میں جب سینٹرل جیل میں ایک قیدی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران نماز کے وقت ڈوگرہ مہاراجہ کی فورسز نے اذان دینے کی اجازت نہیں دی تو قیدیوں اور سماعت کے لیے جمع لوگوں نے احتجاج کیا۔
مظاہرین پر فائرنگ سے درجنوں لوگ مارے گئے اور اس واقعے کے ردِعمل میں وادی میں جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے جہاں پولیس کی کارروائیوں میں مزید لوگ ہلاک ہوگئے۔
’عبداللہ اُن دنوں نئے نئے علی گڑھ سے تعلیم مکمل کرکے لوٹے تھے۔ وہ لاشوں کو قبرستان پہنچانے اور زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے رضاکار بن گئے اور کچھ ہی ہفتوں میں ایک لیڈر کے طور اُبھرے۔‘
ایک اور موٴرخ محمد سلطان پام پوری نے بھی اس حوالے سے لکھا ہے کہ شہرت پانے کے بعد جب شیخ محمد عبداللہ نے اپنی پارٹی مسلم کانفرنس کو تشکیل دیا تو وہ ہر جمعے کو حضرت بل میں لوگوں سے خطاب کرتے تھے۔
اُن کے مطابق شیخ محمد عبداللہ اسی درگاہ پر جمعے کی نماز سے پہلے اپنی سیاسی تقریر قران کی تلاوت اور اقبال کے چند اشعار سے شروع کرتے تھے۔
سنہ 1939 میں مسلم کانفرنس کو ایک سیکولر رنگ دینے کے لیے اس کا نام نیشنل کانفرنس رکھا گیا تو اس کی ورکنگ کمیٹی میں چند کشمیری پنڈت (ہندو کشمیری) بھی تھے۔ موٴرخ کہتے ہیں کہ پنڈتوں نے شیخ عبداللہ سے کہا کہ وہ حضرت بل کو اپنا سیاسی سٹیج نہ بنائیں، جس پر شیخ نے انہیں پارٹی سے نکال دیا۔
یہ سلسلہ 1953 کے اگست میں بند ہوگیا۔ شیخ عبداللہ اُس وقت انڈیا زیرِ نگرانی خودمختار جموں و کشمیر کے وزیراعظم تھے لیکن اُسی سال اگست میں انھیں انڈیا کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں معزول اور گرفتار کیا گیا۔
’مدینہ ثانی‘ حضرت بل
شیخ عبداللہ کی سوانح لکھنے والے تقریباً سب ہی موٴرخین کا کہنا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب شیخ عبداللہ پہلی دفعہ رہا کئے گئے تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ اب پہلے جیسے مقبول نہیں رہے۔
ایسے ہی ایک مصنف نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ: ’انھوں نے پھر حضرت بل کا رُخ کیا اور افغان دور میں بنی درگاہ کو مدینہ کی مسجد نبوی کی طرز پر دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان کیا، اس کے لیے وہ خود کشمیر کے کونے، کونے میں گئے اور گھر، گھر جاکر دامن پھیلا کر عطیات جمع کئے۔
’انھیں یہ کہتے ہوئے بھی سُنا گیا کہ جو مدینہ نہیں جاسکتے وہ حضرت بل میں ہی مدینہ جیسی کیفیت محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مدینہ ثانی ہوگا۔‘
مصنف کا کہنا ہے کہ شیخ کا یہ منصوبہ کام کرگیا اور وہ دوبارہ لائم لائٹ میں آگئے اور چند ہی سال میں دوبارہ گرفتار ہوگئے۔ لیکن انھوں نے جیل سے ہی عطیات جمع کرنے کی مہم جاری رکھی اور حضرت بل کی تعمیر کے لیے ایک اوقاف کمیٹی بنائی۔

موئے مقدس کی چوری اور مظاہرے
شیخ عبداللہ جیل میں ہی تھے جب دسمبر 1963 میں اچانک یہ خبر پھیل گئی کہ حضرت بل کے ’حُجرہٴ خاص‘ سے موئے مقدس چوری ہوگیا ہے۔
یہ خبر پھیلتے ہی وادی بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے اور لاکھوں لوگ سروں اور بازوٴں پر کالی پٹی باندھے سڑکوں پر نکل آئے جس کے سبب بین الاقوامی میڈیا میں بھی کشمیر ایک بڑی خبر بن گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب کشمیر میں علیحدگی پسند رجحانات پر قابو پائے دس ہی سال ہوئے تھے۔
موٴرخ خالد بشیر کا کہنا ہے کہ ’خواتین سینہ کوبی کرتی ہوئیں نعرے لگا رہی تھیں کہ موئے مقدسِ پاک کو، واپس کرو اے ظالمو۔‘
خالد بشیر کے مطابق اُس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ہنگامی اجلاس منعقد کرکے کشمیر کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا۔
خالد لکھتے ہیں کہ: ’چین سے جنگ ہارنے کے بعد نہرو کی طبعیت تشویشناک تھی لیکن انھوں نے ریڈیو پر کشمیریوں کو یقین دلایا کہ وہ موٴے مقدس کو بازیاب کریں گے۔ انہیں محسوس ہورہا تھا کہ کشمیر ہاتھ سے نکل گیا۔‘
نہرو نے انڈین خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے چیف بی این ملک کو کشمیر روانہ کیا۔
بی این ملک نے اپنی کتاب ’مائی ڈیز وِد نہرو، کشمیر‘ میں لکھا ہے کہ ’وہ ایک نازک آپریشن تھا جس کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔‘
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کشمیرمیں ہر گلی کوچے میں مظاہرین کو دیکھ کر وہ اس قدر تشویش میں مبتلا ہوگئے کہ ’میں نے اپنی بازو پر کالی پٹی باندھ لی اور ایک جلوس میں شامل ہوگیا۔‘
پھر اچانک جنوری کے اوائل میں یہ اعلان ہوا کہ موئےمقدس برآمد ہوگیا ہے اور جموں کشمیر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قائدین نے تصدیق کی کہ یہ واقعی وہی موئے مقدس ہے۔
موئے مقدس تحریک میں شیخ عبداللہ کے حریف مولوی یوسف شاہ کے ایک کم عمر نواسے مولوی فاروق سیاسی طور پر سرگرم ہوگئے۔ انھیں بعد میں یوسف شاہ کا جانشین مقرر کرکے کشمیر کا میرواعظ بنایا گیا۔
میرواعظ جامع مسجد میں سیاسی تقریر کرتے تھے جبکہ شیخ عبداللہ حضرت بل میں۔
مولوی فاروق موجودہ میرواعظ عمر فاروق کے والد تھے جنھیں نامعلوم اسلحہ برداروں نے 21 مئی 1990 کے روز گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔

حضرت بل کا 15 روزہ فوجی محاصرہ
یہ تاریخی درگاہ صرف سیاسی سٹیج ہی نہیں بلکہ مسلح تشدد کا بھی شکار رہی ہے۔
نومبر 1993 میں کشمیر میں مسلح شورش کو صرف تین ہی برس ہوئے تھے کہ اچانک یہ خبر عام ہوئی کہ حضرت بل میں 40 مسلح شدت پسندوں نے پناہ لے کر کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔
فوج نے درگاہ کا محاصرہ کرلیا اور منصوبہ یہ تھا کہ پنجاب کے گولڈن ٹیمپل کی طرح آپریشن کے ذریعہ شدت پسندوں کو فلش آوٹ کیا جائے گا۔
لیکن اُس وقت کے گورنر جنرل کرشنا راوٴ کے مشیر وجاہت حبیب اللہ اور جنرل ذکی شدت پسندوں سے مذاکرات کے حق میں تھے۔ چنانچہ شدت پسندوں کے لیے کھانا بھی بھیجا گیا اور ان کی ٹیلی فون لائن بھی بحال کی گئی، جسکے بعد انہوں نے میڈیا کو انٹرویوز دیے اور کشمیر کا مسئلہ ایک عالمی خبر بن گیا۔
دو ہفتوں کے سسپینس کے بعد حکومت نے بعض علیحدگی پسند رہنماؤں کی ثالثی سے مسئلہ کو پرامن طور حل کر لیا۔
تاہم اس واقعہ کے تین سال بعد لبریشن فرنٹ کے ایک کمانڈر شبیر صدیقی کو حضرت بل درگاہ کے لائبریری کمپلیکس میں ایک طویل جھڑپ کے دوران ہلاک کیا گیا۔ جھڑپ کے دوران درگاہ کی اہم لائبریری بھی جل کر خاکستر ہوگئی۔
کیا مودی نے کشمیر سے ’مسلم دوستی‘ کی مہم شروع کردی؟
اپنے دس سالہ اقتدار میں وزیرِاعظم مودی کم ہی مسلمانوں کی درگاہوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ ایسے میں حضرت بل کے لیے نئے منصوبے کا اعلان لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ انڈین وزیرِاعظم مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم مودی نہ صرف کشمیر کے مسلمان ووٹروں کے سامنے خود کو ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے اعلان سے انڈین مسلم آبادی کو بھی محتاط لہجے میں اپنا گرویدہ بنانا چاہتے ہیں۔
اس حکمتِ عملی کا مقصد ہر فرقے اور ہر خطے میں بی جے پی کی موجودگی کو یقینی بنانا ہے۔
جمعرات کو سرینگر میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’کشمیر کی ہر جھیل میں کنول کا پھول کھِلتا ہے اور یہاں کی کرکٹ ایسوسی ایشن کا ’لوگو‘ بھی کنول کا پھول ہے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ ہماری پارٹی کا انتخابی نشان بھی کنول کا پھول ہے۔‘