دہلی میں پولیس کا سجدے میں نمازی کو لات مارنے کا واقعہ: ’کسی پر پھول برساتے ہو، کسی کو پیٹتے ہو، آخر یہ دوہرا رویہ کیوں؟‘

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے شمالی علاقے اندرلوک میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے سڑک پر نماز ادا کرنے والے افراد کو ایک پولیس سب انسپکٹر کی لات مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگ سخت ناراض نظر آ رہے ہیں۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے شمالی علاقے اندرلوک میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے سڑک پر نماز ادا کرنے والے افراد کو ایک پولیس سب انسپکٹر کی لات مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگ سخت ناراض نظر آ رہے ہیں۔

جہاں مقامی لوگوں نے اندرلوک پولیس تھانے کے باہر مظاہرہ کیا ہے وہیں سوشل میڈیا پر لوگ پولیس کے خلاف کارروائی اور انڈیا میں پولیس کے دوہرے معیار پر تنقید کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی لوگ سڑک کے کنارے اپنی اپنی جائے نماز بچھا کر صف باندھے نماز ادا کر رہے ہیں کہ اسی دوران ایک پولیس اہلکار انھیں لات مارنا شروع کر دیتا ہے۔

اس وقت وہاں موجود کچھ لوگ پولیس اہلکار کو روکتے ان سے بات کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار دلنواز پاشا کے مطابق پولیس کے اس ناروا سلوک کے بعد لوگ علاقے کے میٹرو سٹیشن کے گرد جمع ہونے لگے اور انھوں نے مظاہرہ شروع کردیا جو رفتہ رفتہ شام 6 بجے کے بعد ختم ہونا شروع ہوا۔

اندرلوک میٹرو سٹیشن کے باہر احتجاج
BBC
اندرلوک میٹرو سٹیشن کے باہر احتجاج

پولیس اہلکار معطل

دہلی پولیس نے اس واقعہ کے ذمہ دار سب انسپکٹر منوج تومر کو فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔

دہلی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس واقعہ سے متعلق پولیس اہلکار کے خلاف محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ انھیں فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔

شمالی دہلی کے ڈی سی پی منوج کمار مینا نے انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور پولیس چوکی کے انچارج کو معطل کر دیا گیا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’انضباطی کارروائی کی جا رہی ہے اور صورتحال اب معمول پر آ گئی ہے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ہم نے سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہے۔ بہت سے لوگ یہاں سے چلے گئے ہیں اور اب ٹریفک بھی کھول دیا ہے۔‘

پولیس نفری تعینات
BBC
پولیس نفری تعینات

جائے وقوعہ پر موجود لوگوں کا کیا کہنا ہے؟

موقع پر موجود ایک بزرگ نے کہا: ’دہلی پولیس نے بہت برا کیا ہے، انھوں نے نمازیوں کو مارا پیٹا ہے، ایسا یہاں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘

وہاں موجود ایک نوجوان نے کہا کہ جس پولیس اہلکار نے یہ کیا اسے معطل کرنے کے بجائے ہمیشہ کے لیے برطرف کر دیا جانا چاہیے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو دوسرے پولیس والے بھی اسے دیکھ کر ایسا کر سکتے ہیں، اسے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا جانا چاہیے۔

اس واقعہ کے بعد کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا: ’یہ کیا نفرت ہے جو اس جوان کے دل میں بھری ہوئی ہے، دہلی پولیس سے درخواست ہے کہ اس جوان کے خلاف مناسب دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے اس کی سروس ختم کر دی جائے۔‘

بہت سے لوگوں نے لکھا کہ دہلی پولیس نے اسرائیل کا رول ماڈل اپنا لیا ہے اور وہ اسی طرح کام کر رہی ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں نے پولیس کے دوہرے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

فیض الحق نامی صارف نے پولیس اہلکاروں کی کانوریوں (ہندو عقیت مندوں) پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کی اور لکھا: ’دو انڈیا۔ دہلی پولیس اندرلوک دہلی میں نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتی ہے۔ پولیس سڑک کے بیچوں بیچ کانوریوں کا پھول کے ساتھ استقبال کرتی ہے۔‘

جبکہ صدف آفرین نامی ایک صحافی نے لکھا کہ ’کسی پر پھول برساتے ہوئے، کسی کو پیٹتے ہو، آخر یہ دوہرا رویہ کیوں؟‘

https://twitter.com/LUMINOUS1357/status/1766109817356312989

ان کے جواب میں لومینس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’دہلی پولیس اسرائیلی ماڈل اپنا رہی ہے۔ اگر آپ ہماری عبادت کا احترام نہیں کرو گے تو ہم آپ کا احترام نہیں کریں گے۔‘

بی بی سی نے اس حوالے سے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پروفیسر محمد سہراب سے بات کی تو انھوں نے کہا: ’یہ مبینہ پولیس ایکشن جبر کی واضح مثال ہے۔یہ چیزیں نئی نہیں ہیں، لیکن سڑکوں پر ایسا ہوتا ہے۔ ہم اس کی حمایت نہیں کرتے لیکن یہ سارے انڈینز کے ساتھ کامن ہے کہ وہ سڑکوں اور پبلک سپیس کا استعمال کرتے ہیں اور جشن مناتے ہیں لیکن جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو وہ جگہ اور وقت کے لحاظ سے سب سے کم اس کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ چند منٹ کی بات ہوتی ہے۔ ہم اس کی حمایت نہیں کرتے لیکن عام آدمی اس بات کو سمجھتا ہے۔‘

’دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ایک سرکاری اہلکار مجموعی حساسیت کے احساس سے بالکل بے بہرہ نظر آ رہا ہے۔ اسے اس بات سے بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا وہ کن لوگوں کے خلاف ایکشن لے رہا ہے۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ پولیس کا ایکشن درآمد کیے گئے ایک ماڈل کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو انڈین نہیں ہے۔‘

انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسا عمل جو انڈین نہیں ہے اسے کوئی انڈین کیسے انجام دے سکتا ہے۔یہ بہت حساس معاملہ ہے اور اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔‘

’پولیس کا عمل ہمارے کلچر کے خلاف ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ پولیس کو بار بار اجتماعی حساسیت کے مطابق حساس بنایا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں سارے مذاہب کا احترام کرتے ہیں نہ کہ کسی خاص مذہب کا ہی احترام کرتے ہیں۔ آسان لفظوں میں کہا جائے تو ہماری تہذیب ہمیں ایک دوسرے کا احترام سکھاتی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر مسلسل اس کے متعلق ٹویٹس کیے جا رہے ہیں۔ کانگریس کی رکن جینل این گالا نے دہلی پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’دہلی کی سڑکوں پر کھلی آمریت۔ دہلی پولیس اتنی غیر حساس کیوں ہے۔ کیا وہ مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے مذہبی گروپ کے ساتھ ایسا کر سکتی ہے؟‘

https://twitter.com/JeenalNGala/status/1766036340905521524

’ابوظہبی میں مودی جی نے مندر کا افتتاح کر دیا۔۔ لیکن انڈیا میں پولیس سجدے میں لوگوں کو لاتیں مار رہی ہے‘

صحافی پرگیا مشرا نے لکھا: ’مسلم ملک ابوظہبی میں مودی جی نے مندر کا افتتاح کر دیا۔۔ لیکن انڈیا میں دہلی پولیس مسجد کے باہر سڑک پر مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہے۔۔۔ سجدے میں لوگوں کو لاتیں مار رہی ہے۔۔۔ دہلی پولیس ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے ماتحت آتی ہے۔۔۔ کیا دہلی پولیس کے دماغ میں بھی ہندو-مسلمان کا زہر بھر دیا گیا ہے؟‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگر قانون کی خلاف ورزی بھی تھی تو پولیس کا کام نماز پڑھنے والے کو لات مارنا نہیں ہے۔ قانون کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کے بجائے لوگوں کو لات مارنا دلوں میں بھری نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔۔ عام آدمی سے لے کر آئینی اداروں تک ہر جگہ زہر کا ٹیکہ لگا دیا گیا ہے۔۔۔‘

https://twitter.com/PragyaLive/status/1766052807898022315

ایک صارف نے لکھا کہ ’اسے دیکھ کر میں تھوڑی دیر کے لیے صدمے میں آ گیا۔ مجھے ایسی بے عزتی کی توقع بھی نہیں تھی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب یہ ویڈیو پوری دنیا میں جائے گی تو میرے ملک کی کیا تصویر بنے گی۔ شرمناک، شرمناک، شرمناک۔‘

ایک مبصر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک دوسرے سے سیکھنا بہت عام ہے۔ لندن یا پیرس یا پھر اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح حکومت کی اعانت حاصل ہے ویسے میں انڈیا میں اس طرح کی چیزوں کا ہونا کوئی جائے حیرت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لیکن اگر حکومت اس طرح کے واقعات پر خاموشی اختیار کرتی ہے تو یہ پس پردہ ان کی ہمت افزائی ہوگی اور یہ انڈیا جیسے جمہوری ملک کے لیے خطرناک ہے۔

مظاہرہ
BBC

کھلی جگہ پر نماز کے حوالے سے تنازعات

پچھلے کچھ عرصے سے سڑکوں پر نماز ادا کرنے یا مسجد کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر نماز ادا کرنے پر بدسلوکی اور جھگڑے کی خبریں آ رہی ہیں۔

انڈین دارالحکومت دہلی سے ملحق شہر گروگرام میں نماز کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں اور پولیس کے درمیان سڑکوں پر جھڑپیں ہوئیں۔

گذشتہ سال ریاست ہریانہ کے گروگرام میں کھلے میں نماز پڑھنے کے تنازع پر ہجوم نے ایک مسجد پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی تھی جس میں ایک 26 سالہ امام کی ہلاکت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد جنوبی ہریانہ میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑے جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔

اسی طرح سنہ 2018 میں کھلے میں نماز پڑھنے کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ مذاکرات کے بعد مسلم گروپوں نے کھلی جگہ پر نماز پڑھنے کے لیے جگہوں کی تعداد 108 سے کم کر کے 37 کرنے پر اتفاق کیا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ رواں سال احتجاج کیوں شروع ہوا۔ تنازعہ کے بعد اب مسلمانوں نے کھلے میں نماز ادا کرنے کی جگہوں کی تعداد گھٹا کر 20 کر دیا ہے۔

سیاسی اسلام پر تحقیق کرنے والے ہلال احمد نے بی بی سی کو بتایا: ’انتہا پسند گروہ مذہبی جنون پھیلانے کے لیے اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو مساجد میں جا کر نماز ادا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کافی تعداد میں مساجد نہیں ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US