صحافت سے ریاست تک کا سفر: سابق نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کی بطور وفاقی وزیر تعیناتی کو کیسے دیکھا جا رہا ہے؟

صحافی ، چینل کے مالک، نگران وزیر اعلیٰ پنجاب، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اور اب وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف۔۔۔ کسی ایک شخص کے پاس گزرتے وقت کے ساتھ اتنے عہدوں کا سابقہ لگنا بظاہر ایک بہترین کریئر کو ظاہر کرتا ہے۔

صحافی ، چینل کے مالک، نگران وزیر اعلیٰ پنجاب، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اور اب وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف۔۔۔ کسی ایک شخص کے پاس گزرتے وقت کے ساتھ اتنے عہدوں کا سابقہ لگنا بظاہر ایک بہترین کریئر کو ظاہر کرتا ہے۔

محسن نقوی نے بلخصوص اپنے سیاسی کریئر کا یہ سفر کافی کم عرصے میں بہت تیزی سے طے کیا۔

پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے کی بات کی جائے تو محسن نقوی پہلے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب تعینات ہوئے اور غیر معمولی طور پر چلنے والے13 ماہ طویل نگراں سیٹ اپ میں وہ اس اہم عہدے پر کام کرتے رہے۔

نگراں وزیر اعلیٰ کا منصب چھوڑنے سے قبل ہی انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنا دیا گیا۔ اور آج (11 مارچ) کو انھوں نے شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر اپنے عہدے کا حلف لیا ہے۔ اُن کو کون سے وزارت کا قلمدان دیا جائے گا، فی الحال اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا ہے۔

محسن نقوی کی نئی تقریری کو کیسے دیکھا جا رہا ہے؟

محسن نقوی کے نگراں وزير اعلیٰ پنجاب بننے سے پہلے ہی اُن سے متعلق مبینہ سیاسی وابستگیوں کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ ان کی اس عہدے پر تعیناتی کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا تھا۔

تاہم نگران وزیر اعلیٰ کا منصب چھوڑنے کے فوراً بعد وفاقی کابینہ میں شمولیت بہت سے حلقوں کے لیے ناصرف حیران کُن ہے بلکہ چند سیاسی حلقوں نے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیئر رہنما اسد قیصر نے چند روز پہلے کہا تھا کہ ’اگر محسن نقوی حکومت کا حصہ بنیں گے، تو مفاہمت نہیں ہو سکتی ہے۔‘

اس بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ محسن نقوی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت تحریک انصاف کے اس ضمن میں خدشات کی کسی حد تک تائید کرتی ہے۔

’آپ یہ دیکھیں کہ محسن نقوی پر پی ٹی آئی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ان کا کردار عام انتخابات میں نیوٹرل نہیں تھا۔ زرداری صاحب ان کو اپنا ’بیٹا‘ کہہ چکے ہیں۔ یہی نہیں الیکشن کمیشن نے مخالفت کے باوجود اُن کا بطور وزیر نوٹیفیکشن جاری کر دیا ہے۔‘

انھوں نے محسن نقوی کے سیاسی کریئر کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہے۔بس آپ کے مخصوص افراد سے تعلقات اچھے ہونے چاہییں۔‘

تاہم محسن نقوی کے ساتھ بطور نگران وزیر کام کرنے والے عامر میر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں اگر وفاقی وزیر بنایا گیا ہے تو یہ عہدہ ان کو ان کی قابلیت کی بنا پر ملا ہے۔‘

عامر میر کے مطابق ’انھوں (محسن) نے بطور وزیر اعلی پنجاب بہت کام کیا ہے اور اپنے آپ کو منوایا ہے۔ ان کے دور میں بہت تیزی سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ جہاں تک رہی بات ان کے سیاسی مخالفین کی تو، میں نے خود دیکھا ہے، جب ان کے ساتھ کام کر رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تک ان سے ناراض تھے۔ انسان جب کسی عہدے پر کام کرتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عامر میر کا کہنا تھا کہ ’ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ایک شخص جو نگران سٹ اپ میں رہا ہو، اسے کسی حکومت کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ ان کی بطور وفاقی وزیر تقرری آئینی اور قانونی اعتبار سے ٹھیک ہے۔‘

محسن نقوی کون ہیں؟

جھنگ کے سید گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید محسن نقوی لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے کریسنٹ ماڈل سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج (جی سی) لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے گریجویشن کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ میں اوہائیو یونیورسٹی چلے گئے۔

امریکہ سے انھوں نے صحافت کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ امریکی نیوز چینل ’سی این این‘ میں انٹرن شپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

سی این این نے انھیں بطور پروڈیوسر پاکستان کی کوریج کے لیے بھیجا گیا، جہاں ترقی پا کر انھوں نے کم عمری میں ہی ’ریجنل ہیڈ ساؤتھ ایشیا‘ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

یہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ ’وار آن ٹیرر‘ کا دور تھا جب 9/11 حملے کے بعد امریکی سمیت غیر ملکی افواج نے افغانستان کا رُخ کیا۔ ان دنوں محسن نقوی سی این این کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے اور اسی دوران انھوں نے اہم شخصیات سے تعلقات بھی بنائے۔

ان کی لنکڈ ان پروفائل کے مطابق وہ سی این این کے ساتھ سنہ 2009 تک منسلک رہے۔

محسن نقوی نے 2009 میں محض 31 برس کی عمر میں سٹی نیوز نیٹ ورک کی بنیاد رکھی اور صحافت کے پیشے میں اپنا سکہ جمایا۔

بعد میں سٹی نیوز نیٹ ورک نے قومی سطح کی خبروں کے لیے 24 نیوز ڈیجیٹل، فیصل آباد کے لیے سٹی 41، جنوبی پنجاب کے لیے روہی ٹی وی، کراچی کے لیے سٹی 21 اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ’یو کے 44‘ نامی چینلز بنائے۔

اسی ادارے نے لاہور سے ایک مقامی روزنامے ’ڈیلی سٹی 42‘ کا بھی آغاز کیا۔

میڈیا چینل کے مالک ہونے کے طور پر ان کی شہرت ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا خیال رکھتے ہیں اور انھیں بہتر مواقع دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیاسی حلقوں میں اثر و رسوخ اور عمران خان کی تنقید

سید محسن نقوی ایک نجی چینل کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی جانے جاتے رہے ہیں۔

صحافی ماجد نظامی کے مطابق ’محسن نقوی مرحوم ایس ایس پی اشرف مارتھ کے داماد، چوہدری پرویز الہیٰ کی بھانجی کے شوہر اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے بیٹے سالک حسین کے ہم زلف بھی ہیں۔‘

’محسن نقوی کو پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔‘ صحافی حامد میر کے جیو نیوز کے لیے ایک انٹرویو میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’میں آج بھی اسے (محسن نقوی کو) اپنا بیٹا کہتا ہوں۔ محسن نقوی کا کام نیوٹرل رہنا ہے۔ اس کی آزاد سوچ ہے۔ وہ ن لیگ کا وزیر اعلی نہیں ہے۔ ہمیں کوئی مشکل آتی ہے وہاں تو ہم نوٹس میں لاتے ہیں اور ہماری بات سنی جاتی ہے۔‘

ماجد نظامی کے مطابق چوہدری شجاعت کو پی ڈی ایم کے ساتھ مذاکرات پر انھوں نے ہی آمادہ کیا تھا۔

جب عمران خان کی جانب سے جنوری 2023 میں پنجاب حکومت تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی جانب سے نگران وزیراعلیٰ کے لیے بھیجے گئے دو ناموں میں محسن نقوی کا نام بھی شامل تھا۔

ان کے نام پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو خاص طور پر اعتراض تھا جبکہ ن لیگ سمیت باقی جماعتوں کی جانب سے بھی انہی کے نام کی توثیق کی گئی۔

عمران خان نے محسن نقوی کو بطور وزیر اعلیٰ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ ’وہ ہمیں ن لیگ سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے والے شخص ہیں۔‘

’ن لیگ کی تاریخ یہی رہی ہے کہ وہ اپنے امپائرز خود منتخب کرتے ہیں لیکن ناقابل یقین تو یہ ہے کہ کس طرح الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ایک حلیف دشمن کو نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر منتخب کیا۔‘

دوسری جانب سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ ’جمہوریت پسند، بے باک، بنیادی حقوق کے داعی، آئین و قانون کی سربلندی کے علمبردار، سید محسن رضا نقوی نگران وزیر اعلٰی پنجاب مقرر۔ آزادی صحافت کے پرچم کو سربلند رکھنے کے لیے محسن نقوی نے بارہا خندہ پیشانی سے جبر کا سامنا کیا۔‘

نگراں وزیرِ اعلی کے طور پر کارکردگی

پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ محسن نقوی بُنیادی طور پر ’غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل صحافی تھے لیکن انھوں نے بطور صوبے کے نگراں وزیراعلیٰ بھی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھائیں۔‘

سلمان غنی کے مطابق 'ایک سال کے عرصے میں انفراسٹرکچر کی مضبوطی، ہسپتالوں کی بہتری اور خصوصاً گورننس کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘

’پنجاب کے محاذ پر شہباز شریف کو ’شہباز سپیڈ‘ کے طور پر یاد کیا جاتا رہا ہے مگر محسن نقوی کی تگ دو اور نگراں حکومت کی کارکردگی پر خود شہباز شریف نے انھیں محسن سپیڈ کا نام دیا۔‘

سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’محسن نقوی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ادارے سے سفارشی کلچر کو ختم کریں گے۔‘

محسن نقوی کی جانب سے رات گئے ہسپتالوں کے دورے، ترقیاتی منصوبوں کو التوا میں ڈالنے کی بجائے جلد از جلد نمٹانے کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ڈرائیونگ لائسنس بنانے کے حوالے سے مہم چلانا بھی ان کاموں میں سے ہیں جن کے بارے میں سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کی جاتی رہی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US