انڈیا نے شہریت کے ترمیمی قانون کے نفاذ کانوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جس کے تحت پاکستان سمیت انڈیا کے پڑوسی ملکوں سے آنے والے ہندوؤں اور دیگر اقلیتی گروپوں کے لوگوں کو شہریت دینے کا انتظام کیا جائے گا۔ مگر انڈین مسلمانوں کو اس پر کیا تحفظات ہیں؟
انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے نفاذ کانوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جس کے تحت پاکستان سمیت انڈیا کے پڑوسی ملکوں سے آنے والے ہندوؤں اور دیگر اقلیتی گروپوں کے لوگوں کو شہریت دینے کا انتظام کیا جائے گا۔
اگرچہ یہ قانون سنہ 2019 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اس کے ضوابط وضع نہیں کیے گئے تھے، تاہم اب ضوابط کے ساتھ اس کے نفاذ کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے اُن ہندوؤں، سکھوں، بودھ، جین، پارسی اور مسیحی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کا انتظام ہے جو اپنے مذہب کے باعث ہونے والے ظلم و ستم اور مسائل کے باعث نقل مکانی کر کے انڈیا آ گئے ہیں۔ اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہو گا جو دسبمر 2014 تک انڈیا آ گئے تھے اور اس کے بعد یہیں رہ رہے ہیں۔
اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی گئی ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد شہریت دینا ہے کسی کی شہریت لینا نہیں ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ ماضی میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس قانون سے کسی کی شہریت چھینی نہیں جائے گی اور اس کا مقصد کسی کے ساتھ تفریق برتنا نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا تعلق آسام میں کروائی گئی شہریت کی رجسٹریشن یعنی این آر سی سے نہیں ہے۔
’جمہوری انڈیا میں یہ پہلا ایسا قانون ہے جس میں شہریت کے تعین کے لیے مذہب کو بنیاد بنایا گیا‘
اس قانون کے نوٹیفیکیشن کے بعد شہریت کے لیے درخواستیں دینے کے لیے ایک پورٹل بنایا جائے گا جس کے ذریعے متعلقہ پڑوسی ملکوں سے آنے والے ہندو اور دوسرے غیر مسلم لوگ شہریت کے لیے آن لائن درخواستیں دے سکیں گے۔
انڈیا کی ریاستوں راجستھان، دلی، آسام، شمال مشرقی ریاستوں اور بنگال میں ہزاروں ہندو، بودھ اور سکھ ایسے ہیں جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے یہاں آئے لیکن برسوں اور عشروں تک یہاں رہنے کے باوجود انھیں باضابطہ شہریت نہیں دی جا سکی۔ مگر اب اس قانون کے تحت انھیں تیزی سے شہریت دی جا سکے گی۔
تقر یباً چار برس قبل شہریت کا ترمیمیبل سی اے اے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے بعد اس کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا تھا۔
حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اس قانون سے سبھی مذاہب کےساتھبرابر کا سلوک کرنے کی آئینی ضمانت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’جمہوری انڈیا میں یہ پہلا ایسا قانون ہے جس میں شہریت کے تعین کے لیے مذہب کو بنیاد بنایا گیا ہے، یہ آئین کے منافی ہے۔‘
تاہم حکومت اس کی تردید کرتی رہی ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ اس قانون کے تحت آسام میں این آرسی میں غیر شہری قرار دیے جانے والے لاکھوں ہندوؤں کو جو مبینہ طور پر عشروں پہلے بنگلہ دیش سے آسام آئے، انھیں شہریت دے دی جائے گی لیکن جن لاکھوں مسلمانوں کو غیر شہری کے زمرے میں رکھا گیا ہے انھیں اس قانون سے الگ رکھا جائے گا اور انھيں باضابطہ طور پر غیر ملکی قرار دیا جائے گا اور ان کے تمام شہری حقوق سلب کر دیے جائیں گے۔
حکومت نے یہ ضرور کہا ہے کہ سی اے اے کا تعلق این آر سی سے نہیں ہے لیکن اس نے آسام کے تناظر میں مسلمانوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ آسام میں ریاست کے سبھی تین کروڑ 30 لاکھ باشندوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی شہریت کے ثبوت میں مخصوص دستاویزات پیش کریں۔
ممتا بینر جی: ’انتخابات سے فوراً قبل اس قانون کے نفاذ کا کیا مقصد ہے؟‘
اس عمل کے بعد 2019 میں آسام کے تمام شہریوں کی جو فہرست جاری کی گئی ان میں 19 لاکھ باشندوں کو شہریت کے زمرے میں نہیں رکھا گیا۔
اس فہرست کے بارے میں آسام حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔لیکن پارلیمنٹ میں بحث اور مختلف رہنماؤں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ غیر شہریوں، جن میں بیشتر بنگلہ زبان بولنے والے باشندے شامل ہیں، غالب اکثریت ہندوؤں کی ہے۔
آسام کی بی جے پی حکومت نے این آر سی کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور کہا کہ وہ بنگلا دیش سے متصل اضلاع جہاں مسلمانوں کی زیادہ آبادی ہے وہاں دوبارہ این آر سی کرائے گی جو ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن ریاست کے 19 لاکھ باشندوں کا مستقبل غیر یقینی میں محصور ہے۔
اس قانون کا فائدہ مغربی بنگال کے لاکھوں قبائلی اور دلت برادری کے ان ہندوؤں اور بودھوں کو بھی ہو گا جو برسوں پہلے وہاں آ کر آباد ہوئے۔
مغربی بنگال کی حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی شہریت کے حقوق حاصل ہیں لیکن اس قانون سے ان کی شہریت پکی ہو جائے گی۔
ریاست کی وزیر اعلی ممتا بینر جی نے سوال اٹھایا ہے کہ پارلیمانی انتخابات سے فوراً قبل اس قانون کے نفاذ کا کیا مقصد ہے؟ وہ این آر سی کرانے اور سی اے اے کی شدت سے مخالفت کرتی رہی ہیں۔
انھیں خدشہ ہے کہ اس سے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ممتا نے ایک خطاب میں کہا کہ بی جے پی آئین کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ انتخابات سے قبل بنگال، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔

انڈیا کے مسلمانوں میں اس قانون پر گہری تشویش کیوں ہے؟
بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنر جی نے کہا کہ ’لوگوں کو ڈیٹینشن سینٹر میں ڈالنے کے لیے ہم سی اے اے کا استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم این آر سی کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ انڈیا میں رہنے والا ہر شخص انڈیا کا شہری ہے اور نئے قانون سے لوگوں کے پرانے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘
اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھیلیش یادو نے کہا ’یہ اصل مسئلوں سے عوام کی توجہ بھٹکانے کا بی جے پی کا سیاسی حربہ ہے۔‘
سی اے اے کے نفاذ کے بعد ملک کی کئی ریاستوں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ آسام میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین نے شہریت کے نئے قانون کا پوری شدت سے مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا شرما نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ جو بھی جماعت سی اے اے کی مخالفت کرے گی اس جماعت کی رجسٹریشن ختم کی جا سکتی ہے۔
حکمراں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سی اے اے کا قانون نافذ کرے گی۔ اس نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب ایک مہینے بعدپارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔
انڈیا کے مسلمانوں میں اس قانون کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ وہ چار برس قبل اس کے خلاف ملک گیر احتجاج کر چکے ہیں۔ اس کی پاداش میں درجنوں مسلم نوجوان اب بھی انسداد دہشت گردی اور غداری کے قانون کے تحت جیلوں میں قید ہیں۔
اس مرحلے پر کسی بڑی تحریک یا ملک گیر احتجاج کی توقع کم ہے۔ مسلمانوں کی ایک تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امن و امان قائم رکھیں، بورڈ اس قانون کے ضوابط کا جائزہ لینے کے بعد اس کے قلاف قانونی راست اختیار کرے گا۔
کئی اپوزیشن رہنما اور تجزیہ کار کہتے ہیں اس قانون کے لانے سے بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچے گا۔
سی اے اے کے خلاف دو سو سے زیادہ درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل ہیں۔ انھیں یکجا کر دیا گیا ہے اور کسی مرحلے پر اس کی سماعت بھی شروع ہو سکتی ہے۔
لیکن اس کا اصل امتحان اس وقت ہو گا جب اس قانون کے تحت آسام اور بنگال میں غیر شہری زمرے میں رکھے گئے بنگالی ہندوؤں کو شہریت دینے اور غیر شہری قرار دیے جانے والے مسلمانوں کو بے ریاست کرنے کی کوشش کی جائے گی۔