امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ کے پیداواری معیار میں خامیوں کی نشاندہی کرنے والے سابق کوالٹی منیجر امریکی شہر کارلسٹن کے ایک ہوٹل کی کار پارکنگ میں اپنی گاڑی میں مردہ پائے گئے ہیں۔
امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ کے پیداواری معیار میں خامیوں کی نشاندہی کرنے والے سابق کوالٹی منیجر امریکی شہر کارلسٹن کے ایک ہوٹل کی کار پارکنگ میں اپنی گاڑی میں مردہ پائے گئے ہیں۔
جان بارنیٹ نے 32 سال تک بوئنگ میں کام کیا اور انھوں نے سنہ 2017 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے بوئنگ کے خلاف ایک مقدمہ درج کرایا، جس میں انھوں نے کمپنی کی طرف سے پیداواری معیار میں خامیوں کی نشاندہی کے باوجود ان خامیوں کو دور کرنے کے اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا۔
اپنی موت کے وقت جان بارنیٹ اس کیس سے منسلک قانونی انٹرویوز کے لیے چارلسٹن میں موجود تھے۔ چارلسٹن کاؤنٹی نے پیر کو بی بی سی کو ان کی موت کی تصدیق کی۔ کاؤنٹی نے کہا ہے کہ ’62 سالہ شخص کی موت 9 مارچ کو ہوئی جب انھوں نے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور ان کے جسم پر گہرا زخم ان کی موت کی وجہ بنا۔ اور پولیس اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘
گذشتہ ہفتے بوئنگ کے وکلا کی طرف سے ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور سنیچر کے روز مزید پوچھ گچھ ہونا تھی اور انھوں نے کمپنی کے خلاف ثبوت فراہم کرنا تھے لیکن ان کے پیش نہ ہونے پر ان کے ہوٹل میں پوچھ گچھ کی گئی، جس کے بعد وہ ہوٹل کی کار پارک میں اپنی گاڑی میں مردہ پائے گئے۔
بوئنگ کی طرف سے جاری بیان میں جان بارنیٹ کی موت پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ جان بارنیٹ نے سنہ 2010 سے نارتھ کارلسٹن پلانٹ میں کوالٹی مینیجر کے طور پر کام کیا، جس نے 787 ڈریم لائنر بنایا تھا۔ ڈریم لائنر ایک جدید ترین ہوائی جہاز ہے جو بنیادی طور پر طویل فاصلے کے ’روٹس‘ پر استعمال ہوتا ہے۔
جان بارنیٹ نے سنہ 2019 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ دباؤ کے تحت کام کرنے والے کارکن جان بوجھ کر پروڈکشن لائن پر ہوائی جہاز میں غیر معیاری پرزے لگا رہے تھے۔ انھوں نے طیاروں میں آکسیجن کے نظام میں سنگین مسائل کی نشاندہی کی جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہر چار میں سے ایک سانس لینے والا ماسک ایمرجنسی میں کام نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ جنوبی کیرولائنا میں کام شروع کرنے کے فوراً بعد وہ پریشان ہو گئے تھے کہ نئے ہوائی جہاز بنانے کے لیے دباؤ کی وجہ سے ’اسمبلی‘ کے عمل میں تیزی لائی گئی اور حفاظتی معیارات پر سمجھوتہ کیا گیا تاہم بوئنگ کی طرف سے اس کی تردید کی گئی۔
جانبارنیٹ اپنی بات پر قائم رہے اور انھوں نے بعد میں بھی یہ بتایا کہ فیکٹری میں بعض خراب پرزے غائب ہو گئے، بعض مواقع پر غیر معیاری پرزوں کو سکریپ کے ڈبوں سے نکال کر ان طیاروں میں لگایا گیا تھا، جو پروڈکشن لائن میں تاخیر کو روکنے کے لیے بنائے جا رہے تھے۔
جان بارنیٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 787 میں لگائے جانے والے ہنگامی آکسیجن سسٹم کے ٹیسٹوں میں ناکامی کی شرح 25 فیصد پائی گئی۔ جان بارنیٹ نے کہا کہ انھوں نے مینیجرز کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی، تاہم بوئنگ نے ان کے دعوؤں کی بھی تردید کی لیکن امریکی ریگولیٹر، فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے سنہ 2017 کے جائزے نے ان کے کچھ خدشات کو درست قرار دیا۔
جان بارنیٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ فیکٹری میں کم از کم 53 غیر موزوں پرزے تھے جو بعد میں غائب قرار دیے گئے۔
جان بارنیٹ نے ملازمت کے دوران مسائل کی نشاندہی پر کمپنی کی طرف سے اپنی ہتک کرنے اور اپنے کریئر میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا تاہم بوئنگ کی طرف سے الزامات کو بھی مسترد کر دیا گیا تھا۔
آکسیجن سلنڈر کے معاملے پر کمپنی نے کہا کہ سنہ 2017 میں جان بارنیٹ نے ’سپلائر سے موصول ہونے والی کچھ آکسیجن بوتلوں کی نشاندہی کی تھی جو مناسب طریقے سے نصب نہیں ہو رہی تھیں‘۔ لیکن کمپنی نے اس بات کی تردید کی کہ ان میں سے کوئی بھی دراصل ہوائی جہاز میں نصب تھی۔
ایک بیان میں بوئنگ نے کہا کہ ’ہم مسٹر بارنیٹ کے انتقال سے غمزدہ ہیں، اور ہمارے خیالات ان کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہیں۔‘
جان بارنیٹ کی موت ایسے وقت ہوئی ہے جب بوئنگ اور اس کے کلیدی سپلائر سپرٹ ایرو سسٹمز دونوں کے پیداواری معیارات کی سخت جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔