وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات اور رویے میں تبدیلی: علی امین گنڈاپور کی ’سافٹ ٹون‘ کی وجہ کوئی ’مجبوری‘ ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد علی امین گنڈا پور کی پریس کانفرس میں ان کی ایک مختلف شبیہ سامنے آئی ہے جس نے بہت سے تجزیہ کاروں کو حیران کیا ہے۔ ہم نے چند صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے ان کی اس ’سافٹ ٹون‘ یا ’تبدیلی‘ کی وجوہات پر بات کی۔

’یہ وزیراعظم فارم 45 والے نہیں، ابھی تک واضح نہیں کہ یہ واقعی عوام کے مینڈیٹ سے بنے یا آر اوز سے، اس لیے ان کی حلف برداری میں جانا ٹھیک نہیں۔‘

یہ الفاظ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے گذشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہے تھے۔

لیکن پھر کل وہ اُسی وزیراعظم سے ملنے وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور شہباز شریف سے اپنی ملاقات کو ’بہت مثبت‘ قرار دیتے ہوئے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وزیراعظم نے انھیں مختلف معاملات پر اپنی مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کروائی ہے۔

علی امین گنڈاپور کا مؤقف پاکستان تحریکِ انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کے متعلق (خاص کر سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور گرفتاری کے بعد) خاصا سخت رہا ہے۔

بیشتر افراد کا ماننا تھا کہ انھیں وزیراعلیٰ نامزد کر کے عمران خان نے مفاہمت نہ کرنے کی پالیسی اور ٹکراؤ کی سیاست جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے تاہم گذشتہ روز کی پریس کانفرنس سے علی امین گنڈا پور کی ایک مختلف شبیہ سامنے آئی، جس نے بہت سے تجزیہ کاروں کو حیران کیا۔

ہم نے چند صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے علی امین گنڈاپور کی اس ’سافٹ ٹون‘ یا رویے میں ’تبدیلی‘ کی وجوہات پر بات کی ہے۔

’علی امین گنڈا پور طویل المدت سیاست کرنا چاہتے ہیں‘

صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین نے بی بی بی سی سے بات کرتے ہوئےعلی امین کے رویے میں تبدیلی کی چند وجوہات بتائیں:

طلعت حسین کے مطابق علی امین اب ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اور اپنے اس نئے رول کو وہ بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

طلعت حسین کا ماننا ہے کہ طاقت کی اپنی ذمہ داری ہے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی دیکھا کہ جو لوگ طاقت میں آ جاتے ہیں تو ان کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے اور ’علی امین چاہتے ہیں وہ طویل المدت سیاست کریں۔‘

طلعت حسین کے مطابق دوسری وجہ ان کی مجبوری ہے اور ’یا وہ عمران خان کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں یا صوبے کے مفادات کا‘ اور صوبے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے وہ مرکز سے الگ ہو کر نہیں رہ سکتے پھر چاہے وہ ہائیڈروپرافٹس کا معاملہ ہو یا صوبے میں دہشت گردی سے نمٹنا جس کے لیے انھیں وزیراعظم سے بات کرنا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں بیٹھنا ہو گا۔

طلعت حسین کہتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور کے پاس ایسے بیسیوں اور معاملات کے لیے مرکز سے بات کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

ان کے مطابق تیسری وجہ پی ٹی آئی کے اندر دھڑا بندی ہے۔ طلعت حسین کا کہنا ہے کہ جماعت کے تمام اراکین عمران خان کی بات تو کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ عمران خان کی جیل سے سیاست ان کی بہنیں، وکیل یا وہ لوگ چلا رہے ہیں جنھوں نے اس کے بعد اسمبلیوں میں واپس نہیں آنا اور علی امین جانتے ہیں اس ٹکراؤ سے تباہی آئے گی جس سے وہ اجتناب کرنا چاہ رہے ہیں۔

طلعت حسین کا ماننا ہے کہ علی امین عمران خان کا نام تو لیں گے مگر نظام کے اندر رہ کر کام کریں گے۔

ان کے مطابق چوتھی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ’گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ بھی کھیلتی ہے، کچھ لوگ بہت سافٹ ٹون جبکہ کچھ سخت ٹون دکھاتے ہیں۔

’علی امین کے لیے جو راستے کھل گئے ہیں وہ انھیں بند نہیں کرنا چاہتے‘

طلعت حسین کہتے ہیں کہ ’جنگجو تو وہ تھے مگر پھر ظاہر ہے ان کو جیل بھی ہوئی اور ان کے بال بھی کٹے اور وہ پکڑے بھی گئے اور کچھ عرصہ چپ بھی رہے، پھر ان کے کاغذات نامزدگی منظور بھی ہوئے اور وہ وزیراعلیٰ بن بھی گئے اور جب آپ طاقت کی اونچ نیچ سے گزر کر اس منصب تک پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت پرانے رویے اپنانا مشکل ہوتا ہے۔‘

طلعت حسین کا ماننا ہے کہ ’ہم علی امین گنڈاپور کی ٹرانسفرمیشن دیکھ رہے ہیں جو طاقت میں آنے کے بعد لازم ہے ورنہ وہ اس منصب پر قائم نہیں رہ سکتے۔‘

وہ مقدمات میں گھرے پی ٹی آئی لیڈروں کی مثال دیتے ہیں کہ ’اگر علی امین بالکل ناقابلِ قبول ہوتے تو ان کے کاغذاتِ نامزدگی ہی منظور نہ ہوتے۔۔۔‘

طلعت حسین نے اپنی بات چیت میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ریاست چاہے ’جیسا کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے کہ ریاست اتنی ہی ظالم ہے سب کچھ کر سکتی ہے تو پھر علی امین کو روکنا کون سا مشکل تھا؟‘

طلعت کا ماننا ہے کہ ’علی امین کے لیے جو راستے کھل گئے ہیں وہ انھیں بند نہیں کرنا چاہتے۔‘ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بطور چیف منسٹر تصادم کی سیاست اختیار کرنا علی امین کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی اور وہ صوبے کے مفادات کا تحفظ نہیں کر پائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’علی امین کے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا‘

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار اسماعیل خان کے لیے علی امین گنڈاپور کی سافٹ ٹون انتہائی سرپرائزنگ ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ تو نہیں جانتے کہ ایسا کون سا دباؤ تھا جس کے تحت علی امین کی سوچ میں یہ تبدیلی آئی اور وہ جا کر وزیراعظم سے ملے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبے کی مالی حالت اچھی نہیں اور تنخواہوں سے لے کر پینشن حتیٰ کہ کسی چیز کے لیے پیسے نہیں۔

اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ جب لوگوں نے آپ کو منتخب کر لیا تو آپ کو صوبے کی حکومت چلانی ہے، ان کی امیدوں پر پورا اترنا ہے مگر حالات یہ ہیں کہ آپ کے پیسے نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے صوبے میں سکیورٹی کے حالات بھی مخدوش ہیں جس کے لیے وسائل چاہیے۔

اسماعیل خان صوبے کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان کی مثال دیتے ہیں کہ ان کا بھی یہ طرزِ عمل رہا کہ وہ وزیراعظم سے جا کر نہیں ملتے تھے اور ’علی امین کے متعلق بھی صوبے کی عوام میں تشویش پائی جاتی تھی کہ وفاقی حکومت سے ٹکراؤ کے لیے ان کا استعمال کیا جائے گا‘ کیونکہ خیبرپختونخواکے تقریباً نوے فیصد سے زیادہ ریونیوز تو وفاقی حکومت سے آتے ہیں اور وفاق کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔

ان کا ماننا ہے کہ صوبے کے حالات کے مدِنظر ’علی امین کے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا‘ اور انھیں خود بھی اس کا ادارک ہو چکا تھا کہ وہ خیبرپختونخواسے ’لون رینجر‘ کا کردار نہیں ادا کر سکتے اور اگر بطورِ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور، ٹکراؤ کی پالیسی جاری رکھتے تو وفاق ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا اور ان کا سروائیول مشکل تھا اور اس سب کے تناظر میں علی امین نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔

تاہم اسماعیل خان یہ بھی کہتے ہیں کہ یقیناً ان پر دباؤ ہو گا کیونکہ یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آتی کہ آپ نے خواب دیکھا اور سب بدل گیا مگر جو تبدیلی آئی، وہ صوبے کے لیے بہت مثبت ہے۔

کیا علی امین گنڈاپور حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد کی گئی پریس کانفرنس میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ’خان صاحب کے ساتھ پولیٹیکل انگیجمنٹ بہت ضروری ہے، یہ ہو گی تو سیاسی مسائل حل ہوں گے۔ اس پر ان (شہباز) کا ردعمل مثبت تھا‘۔

تو کیا علی امین گنڈاپور حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور جیلوں میں قید پی ٹی آئی رہنماؤں اور ورکز کے لیے کوئی ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

طلعت حسین کا ماننا ہے کہ ’عمران خان کو ریلیف دینا شہباز شریف کے بس میں نہیں اور عمران خان کے لیے ریلیف لینا علی امین کے بس میں بھی نہیں بلکہ یہ کام عمران خان صرف خود ہی کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ لڑائی علی امین اور شہباز شریف کے تصفیے سے طے نہیں ہو گی کیونکہ یہ لڑائی عمران خان اور فوج کی ہے اور جب تک یہ ختم نہیں ہو گی دونوں پارٹیوں (مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی) قریب نہیں آ سکتیں اور شہباز شریف لاکھ کہیں وہ عمران خان کو ان عدالتوں سے زیادہ ریلیف نہیں دے سکتے جن پر خان صاحب کو اعتماد نہیں۔‘

طلعت حسین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی لائحہ عمل اگر عمران خان کو ریلیف دلوانے میں کامیاب ہوتا ہے تو عمران خان اسے اوکے کریں گے ’لیکن اگر عمران خان کا نہ ڈرنے، نہ جھکنے، بات چیت نہ کرنے کی تکرار والا امیج کو کوئی زد پہنتی ہے تو عمران خان اسے رد کر دیں گے۔

طلعت حسین کا ماننا ہے کہ علی امین ’عمران خان کا رویہ نہیں تبدیل کر سکتے۔‘

اسماعیل خان کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما، بانی چئیرمین عمران خان کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے اور ’علی امین اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے‘ اور اگر انھیں عمران خان کی طرف سے اختلافات بھلا کر مفاہمت اور بات چیت کی اجازت دی گئی ہے تو اس صورت میں تو یہ بہت مثبت پیشرفت ہے کیونکہ اس سے پہلے عمران خان کہتے آئے ہیں کہ وہ کسی صورت ان سے بات چیت نہیں کریں گے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ اقدام عمران خان کی اجازت کے بغیر اٹھایا گیا اور کل پرسوں وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس میں میری مرضی شامل نہیں تھی تو یہ علی امین کے لیے بہت شرمندگی ہو گی۔

کیا علی امین گنڈاپور کو اپنی ہی پارٹی میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

طلعت حسین کا ماننا ہے کہ پارٹی میں موجود دھڑے پہلے ہی علی امین سے خوش نہیں مگر بطور وزیراعلیٰ وہ بہت سے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نظام میں جگہ دے سکتے ہیں، وزارتیں اور ایڈوائزرشپ وغیرہ آفر کر سکتے ہیں۔

طلعت کا ماننا ہے کہ علی امین کو بے شک پارٹی کی طرف سے مزاحت کا سامنا کرنے پڑے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقت وزیراعلیٰ ہیں اور اس عہدے کو استعمال کرتے ہوئے خود کو صوبے میں قائم رکھ سکتے ہیں اور مشکلات کو مینج کر لیں گے۔

اسماعیل خان کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی میں پریشر گروپس تو موجود ہیں ’علی امین پر بھی دباؤ ہے اود جو لوگ وزیراعلیٰ نہیں بن پائے وہ اس (ملاقات اور رویے) کو انھیں بدنام کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہاں عمران خان کی منظوری اہم ہے، اگر وہ منظور نہیں کرتے تو اس صورت میں علی امین کے لیے پارٹی کے اندر سے پریشر اور چیلنجز بڑھیں گے۔

علی امین گنڈا پور کی وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات کے بارے میں پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شوکت یوسفزئی نے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا کہ جماعت کا سیاسی موقف بدستور قائم ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور پی ٹی آئی مینڈیٹ چوری کے حوالے سے اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔

انھوں نے کہا کہ لیکن جہاں تک بات سرکاری کام کی ہے تو یہ شروع دن سے موقف ہے کہ اقتدار میں کوئی بھی ہو صوبے کے حقوق اور روزمرہ کے معاملات کے لیے ملاقات کی جائے گی، اس میں کوئی ممانعت نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت وفاق خیبر پختونخوا کا کوئی 1500 ارب روپے سے زیادہ کا مقروض ہے اور صوبے کے حقوق کے لیے وزیر اعلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملاقاتیں کر سکتے ہیں اور اس پر جماعت کو کوئی اعتراض نہیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ علی امین نے یہ ملاقات اس وقت کی جب ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس سماعت کے لیے منظور ہوا ہے تو شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ریفرنس تو اب فائل ہوا جبکہ اس بارے میں فیصلہ پہلے سے کیا گیا تھا کہ اگر ملاقاتیں ضروری ہوں تو یہ یہ کی جائیں گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US