انڈیا کی گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں نمازِ تراویح کے دوران بعض غیر ملکی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اب پولیس نے دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

انڈیا کی گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں نمازِ تراویح کے دوران بعض غیر ملکی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اب پولیس نے دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ماہِ رمضان کے اوائل میں اس حملے کے بعد تین طلبہ کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے اب ایک کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ گجرات کی حکومت حملہ آوروں کے خلاف ’سخت کارروائی‘ کرے گی۔
گجرات کے شہر احمد آباد کے پولیس کمشنر جی ایس ملک نے صحافیوں کو بتایا کہ سنیچر کی شب دو درجن کے قریب لوگ ہاسٹل میں داخل ہوئے۔ ان کے مطابق مشتعل افراد نے طلبہ کے وہاں نماز ادا کرنے پر اعتراض اٹھایا اور انھیں مسجد جانے کا کہا۔
’اس معاملے پر دونوں گروہوں میں بحث ہوئی جس کے بعد ان میں لڑائی شروع ہوگئی اور پتھر پھینکے گئے۔ ان کی جانب سے کمروں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔‘
پولیس افسر نے کہا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔
گراؤنڈ رپورٹ: ’پہلے بھی بدتمیزی ہوتی رہی ہے‘
سنیچر کو بی بی سی گجراتی کی ٹیم نے اس ہاسٹل کا دورہ کیا اور دیکھا کہ وہاں پتھر بکھرے پڑے ہیں اور تباہ شدہ گاڑیاں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں مشتعل ہجوم کو ہندوؤں کے مذہبی نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اس دوران ہاسٹل کے طلبہ پر حملہ آور ہوتے ہیں، گاڑیوں اور کمروں میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور ان پر پتھر برساتے ہیں۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلم نعمان نے بی بی سی گجراتی کو بتایا ’اب ہمارے جیسے باہر سے آنے والے طلبہ کے لیے یہاں رہنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ بین الاقوامی طلبہ کا ہاسٹل ہے۔ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ لوگ یہاں کیسے داخل ہوئے؟ اکثر ایسے لوگ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں ’جئے شری رام بولو ورنہ وہ تمھیں چھرا گھونپیں گے‘۔اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ یہاں پر دوسرے طلبہ کے لیے بہت خطرہ ہے۔‘
افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور طالبعلم نوید صدیق نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی طلبہ تراویح ادا کر رہے تھے جب تین لوگ ان کے ہاسٹل کے کمرے میں داخل ہوئے اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔
ہاسٹل کے کمروں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی انھوں نے کہا کہ ’اس پر بحث شروع ہوگئی اور وہ پھر ایک بڑے ہجوم کے ساتھ واپس آئے جس کے پاس پتھر، لوہے کے پائپ تھے۔ انھوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا۔ وہ ہاسٹل کے ہر کمرے میں جا کر طلبہ پر تشدد کرنے لگے۔ اس دوران انھوں نے گاڑیوں سمیت املاک کو نقصان پہنچایا۔‘
پولیس نے کہا ہے کہ اس یونیورسٹی میں افغانستان، سری لنکا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 300 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ اطلاعات کے مطابق زخمی ہونے والے طلبہ انڈیا میں وفاقی حکومت کی سکالرشپ پر زیرِ تعلیم تھے جس کا اجرا انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
بی بی سی نے اس معاملے پر مزیدتفصیلات کے لیے گجرات یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے۔
یونیورسٹی کی وائس چانسلر نیرجا اے گپتا نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ غیر ملکی طلبہ اور حملہ آوروں کے درمیان یہ لڑائی کچھ وقت سے چل رہی تھی۔ ’میری معلومات کے مطابق یہ مسئلہ (تراویح کا) نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر گپتا نے کہا کہ غیر ملکی طلبہ کو بہتر سکیورٹی اور سہولیات کے لیے نئے ہاسٹلوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔
کانگریس ایم ایل اے عمران کھیڈا والا اور سابق ایم ایل اے غیاث الدین شیخ موقع پر پہنچے اور ہسپتال میں داخل طلبہ سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے گجرات پولیس اور حکومت کی کارروائی پر سوال اٹھائے ہیں۔
جبکہ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس معاملے پر تنقید کی اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ’یہ لوگوں کو اجتماعی بنیاد پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟‘
انھوں نے لکھا کہ ’کتنی شرمناک بات ہے، آپ کا عقیدہ اور مذہبی نعرہ تب ہی نکلتا ہے جب مسلمان پرامن طریقے سے اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہوں۔ مسلمانوں کو دیکھ کر آپ کو شدید غصہ آتا ہے۔ اگر یہ بڑے پیمانے پر ہوتا ہے تو بنیاد پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ امت شاہ اور نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے، کیا وہ کوئی مضبوط پیغام دینے کے لیے مداخلت کریں گے؟ مجھے کوئی امید نہیں ہے۔‘
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انڈیا میں نماز کی ادائیگی کے دوران ہندو مسلم کشیدگی پیدا ہوئی ہو۔
نو مارچ کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے شمالی علاقے اندرلوک میں جمعے کی نماز پڑھنے کے لیے سڑک پر نماز ادا کرنے والے افراد کو ایک پولیس سب انسپکٹر کی لات مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر لوگوں کی جانب سے ناراضی ظاہر کی گئی۔
اس واقعے کے بعد مذکورہ پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا تھا۔
سنہ 2021 کے دوران گڑگاؤں میں مسلمانوں کی جانب سے عوامی مقامات پر نماز کی ادائیگی پر سخت گیر ہندو گروہوں نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔