مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قاسم اور سمیع الدین کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے قاسم کو مردہ قرار دے دیا جبکہ سمیع الدین کی کئی روز تک علاج کے بعد جان بچی تھی۔
نغمہ اور سمیع الدینشام کو جیسے ہی مسجد سے افطاری کی اذان ہوتی ہے نغمہ اپنے گھر والوں کے ساتھ افطار کرنے لگتی ہیں۔ اس خاندان میں سب موجود ہیں لیکن نغمہ کے والد قاسم نہیں۔
ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں اور ہر رمضان میں جیسے جیسے عید قریب آتی ہے، نغمہ کی اپنے والد قاسم کی یادیں مزید تازہ ہو جاتی ہیں۔
نغمہ کہتی ہیں کہ ’ہم کسی کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ جب ہم اپنے والد کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں کیسا لگتا ہے۔ ہمارے والد کو عید کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ جب بھی عید آتی ہے، ہمیں ان کی بہت یاد آتی ہے۔ تہوار پر سب موجود ہوتے ہیں لیکن ہمارے والد نہیں ہوتے۔‘
سال 2018 میں نغمہ نے آخری بار اپنے والد قاسم کے ساتھ عید منائی تھی اور اس کے صرف دو دن بعد انھیں مشتعل ہجوم نے مار ڈالا تھا۔
اب اتر پردیش کی ضلعی عدالت نے تقریباً چھ سال بعد اس واقعے کے 10 ملزمان کو مجرم قرار دیا ہے لیکن اس فیصلے کے منتظر لوگوں کی آنکھوں میں اداسی اور خوف کے ساتھ ساتھ اب بھی کئی سوالات ہیں۔
پھر چاہے ان میں نغمہ ہو، ان کے چچا سلیم ہوں یا سمیع الدین ہوں جو اس دن مشتعل ہجوم کے تشدد کا نشانہ بنے تھے۔
یہ معاملہ کیا ہے؟
یہ 18 جون سنہ 2018 کی بات ہے جب انڈین ریاست اتر پردیش کے ہاپور ضلع کے بجھیڈا خورد گاؤں میں ایک مشتعل ہجوم نے گائے ذبح کرنے کے الزام میں 45 سالہ قاسم کو چھریوں کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
قاسم مویشیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ وقوعہ کے روز بھی قاسم ہر روز کی طرح مویشی خریدنے گھر سے نکلے تھے۔
اس دوران ایک پرتشدد ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر تشدد کیا۔
اس واقعے کے واحد عینی شاہد اور متاثرہ شخص سمیع الدین کا کہنا ہے کہ جب وہ مشتعل ہجوم سے قاسم کو چھڑانے گئے تو انھیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قاسم اور سمیع الدین کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے قاسم کو مردہ قرار دے دیا جبکہ سمیع الدین کی کئی روز تک علاج کے بعد جان بچی تھی۔
اس واقعے کے تقریباً چھ سال بعد اور طویل سماعت کے بعد عدالت کا فیصلہ 12 مارچ 2024 کو آیا۔
ہاپور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے اس معاملے میں 10 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی اور ساتھ ہی 58 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
ان مجرمان میں یودھیشتھر، راکیش، کانو، سونو، منگیرام، رنکو، ہریوم، منیش، للت اور کرن پال شامل ہیں۔
قاسم کا خاندان اب ان کے چھوٹے بھائی سلیم کے ساتھ رہتا ہے’انتقام نہیں انصاف چاہیے‘
قاسم کے قتل کے عدالتی فیصلے کے بعد بی بی سی متاثرہ خاندان کے ہاں ہاپور پہنچی جہاں محلہ صدیق پورہ کی ایک گلی میں دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا مکان ہے۔
اس مکان میں قاسم کا خاندان ان کے چھوٹے بھائی سلیم کے ساتھ رہتا ہے۔
سلیم کا کہنا ہے کہ جس دن عدالت کا فیصلہ آیا، سارا دن ان کا فون بجتا رہا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے سے خوش ہیں۔
سلیم کہتے ہیں کہ ’اگر ہم چاہتے تو سزائے موت کا مطالبہ کر سکتے تھے لیکن ہم نے عمر قید کا انتخاب کیا۔ اگر ہم سزائے موت کا مطالبہ کرتے تو ان میں اور ہم میں کیا فرق رہ جاتا۔ ہم انتقام نہیں بلکہ انصاف چاہتے ہیں۔‘
تاہم انصاف میں تاخیر کا سوال سلیم کے ماتھے پر شکن ڈال دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر ایسے کیسز میں تاخیر ہوتی ہے اور کئی کیسز میں لوگوں کو ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ عدالت کے فیصلے سے سلیم کو سکون تو ہے لیکن ایک خوف بھی ہے۔ عام دنوں میں وہ مقامی بازار میں پھل فروخت کرتے ہیں لیکن عدالت کے فیصلے کے بعد سے ان کی دکان بند ہے اور وہ علاقے سے باہر جانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
’جب بھی قاسم پانی مانگتا، وہ اسے مارتے‘
بجھیڈا خورد گاؤں پلکھوا سے کچھ فاصلے پر ہے، جہاں مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے قاسم کو مار ڈالا تھا۔ مرکزی سڑک پر بجھیڈا خورد گاؤں کا ایک بورڈ لگا ہوا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ راجپوت اکثریتی گاؤں ہے۔
اس گاؤں سے بالکل آگے ماڈا پور مصطفی آباد نامی گاؤں ہے، جو مسلم اکثریتی آبادی والا گاؤں ہے۔ بجھیڈا کی سڑک ماڈا پور گاؤں سے گزرتی ہے۔ سمیع الدین اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں، وہ پیشے کے لحاظ سے ایک کسان ہیں اور اس واقعے کے واحد عینی شاہد ہیں۔
اس دن کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ کی طرح اپنے جانوروں کے لیے چارہ لینے اپنے فارم پر گیا تو میں نے قاسم کو بچاؤ بچاؤکی آواز لگاتے سنا جو چیختے ہوئے آگے بھاگے رہے تھے اور مشتعل ہجوم ان کے پیچھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پھر لوگوں نے قاسم کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ میں نے مداخلت کرتے ہوئے پوچھا کہ تم اسے کیوں مار رہے ہو؟ انھوں نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا اور مجھے بھی مارنا شروع کر دیا۔‘
مشتعل ہجوم نے الزام عائد کیا کہ ہم دونوں نے گائے کو ذبح کیا ہے۔ انھوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمیں پہلے سے بھی زیادہ مارنا شروع کر دیا۔
سمیع الدین کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہمیں لاٹھیوں، اینٹوں اور پتھروں سے مارا، میرے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے، میری دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور میرے سر پر بھی شدید چوٹیں آئیں تھی۔‘
اس سے پہلے کہ سمیع الدین اپنا جملہ مکمل کر پاتے اس وقت کو یاد کر کے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
انھوں نے بھری ہوئی آواز میں کہا کہ ’سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ جو اللہ چاہتا ہے ہوتا ہے، انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ درحقیقت انھوں نے کہا تھا کہ ہم نے اسے (سمیع الدین) کو مار ڈالا ہے لیکن میں بچ گیا اور وہ غریب آدمی (قاسم) چل بسا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس نے ہاتھ جوڑ کر کئی بار پانی مانگا لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی، قاسم جب بھی پانی مانگتا، وہ اسے اور مارتے۔‘
چھ سال بعد عدالت کا فیصلہ آیا اور سمیع الدین کا وہ وعدہ بھی پورا ہو گیا جو انھوں نے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں خود سے کیا تھا۔
ماڈا پور مصطفی آباد گاؤں کی مسجدسمیع الدین کہتے ہیں کہ ’جب میں ہسپتال میں تھا تو میں اپنے بھائی یاسین سے بات کرتا تھا، وہ مجھے کیس کی کارروائی کے بارے میں معلومات دیتا تھا۔‘
’پھر میں نے سوچا کہ میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اللہ نے مجھے زندہ رکھا ہے تاکہ میں عدالت کے سامنے سچائی پیش کر سکوں۔‘
ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد ان کے چھوٹے بھائی یاسین نے انھیں سپریم کورٹ کی سینئر وکیل ورندا گروور سے ملوایا اور یہیں سے عدالت میں انصاف کی لڑائی شروع ہوئی۔
ملزمان کے رشتے دار کیا کہتے ہیں؟
ملزمان کے رشتے داروں کا الزام ہے کہ ان کے اہلخانہ کو پھنسایا گیا۔ للت دس ملزمان میں سے ایک ہیں۔ بی بی سی نے اس فیصلے کے بارے میں للت کی اہلیہ سنگیتا سے بات کی۔
سنگیتا کا کہنا ہے کہ ’واقعے کے دن میرے شوہر گھر پر موجود تھے اور اپنے گھر کی تعمیر کروا رہے تھے۔ میرے شوہر لڑائی وغیرہ نہیں کرتے، چاہے انھیں کوئی بھی کچھ بھی کہتا رہے۔ آپ پورے گاؤں میں ان کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ میرے شوہر کو پھنسایا گیا۔‘
ایک اور مجرم ہری اوم کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف آیا اور اب وہ اعلیٰ عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کیا یہ فیصلہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد کو روکے گا؟
سپریم کورٹ کی سینیئر وکیل ورندا گروور نے بھی ہاپور کے دونوں خاندانوں کے ساتھ اس معاملے پر طویل قانونی جنگ لڑی ہے۔
ورندا ان چند وکلا میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہاپور کی ضلعی عدالت سے لے کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ تک قاسم اور سمیع الدین کے خاندانوں کی نمائندگی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ورندا گروور کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہت اہم فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف سمیع الدین اور قاسم کو انصاف ملا بلکہ اس سے معاشرے کو بھی ایک بڑا پیغام ملا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’پیغام یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ ہجوم جمع کر کے بے گناہ مسلمانوں کو ماریں گے اور بچ جائیں گے، تو ایسا نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا، وہ آج عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔‘
’یہ پیغام ملک بھر میں ایسے ہجوم تک پہنچایا جائے جو یہ سمجھتے ہیں کہ قتل کرنے کے بعد انھیں کوئی رہنما بچا لے گا۔ انھیں بتائیں کہ قانون اس کی اجازت نہیں دے گا۔‘
ورندا گروور کا کہنا ہے کہ قاسم کے اہلخانہ اور سمیع الدین نے اس پورے معاملے میں بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا اور انھیں یقین ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل میں ایسے معاملات کو روکنے کے لیے ایک مثال کا کام کرے گا۔
انڈیا میں ہجوم کے ہاتھوں کئی بار تشدد کے واقعات سامنے آ چکے ہیںپولیس کے کردار پر اُٹھنے والے سوالات
اس واقعے کے چند دن بعد ایک تصویر منظر عام پر آئی تھی جس میں مشتعل ہجوم قاسم کو گھسیٹ رہا تھا اور اس وقت تین پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔
اس واقعے کے بعد لوگوں کی جانب سے پولیس پر شدید تنقید کی گئی جس کے بعد اعلیٰ افسران کی طرف سے نہ صرف معافی مانگی گئی بلکہ تحقیقات کا بھی اعلان کیا گیا۔
کیس کی ابتدائی ایف آئی آر میں ہاپور پولیس نے اسے ’روڈ ریج‘ کا معاملہ قرار دیا تھا۔
واقعے کے عینی شاہد سمیع الدین کا کہنا ہے کہ اس کے بھائی یاسین کو پولیس نے دھمکیاں دی تھیں اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی جبکہ حقیقت میں یہ معاملہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کا تھا۔
ایف آئی آر کے معاملے پر وکیل ورندا گروور کا کہنا ہے کہ ’جب ہم نے ایف آئی آر کی کاپی دیکھی تو اس پر سڑک پر ہونے والے ایک جھوٹے واقعے کی تفصیلات درج تھیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جب سمیع الدین اسپتال سے باہر آئے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔ پھر جلد ہی ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر پولیس نے سمیع الدین کا بیان ریکارڈ کیا اور پوری تفتیش آئی جی میرٹھ کو سونپ دی۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے یہ تحقیقات دوبارہ پٹری پر آئی۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں تفتیش کار اور دیگر پولیس اہلکاروں کے کام کرنے کے انداز پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ملزمان کی شناخت پریڈ نہیں کرائی گئی۔ ملزمان سے برآمد ہونے والی لاٹھیاں ٹیسٹ کے لیے لیب نہیں بھیجی گئیں۔
مدعی اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ پہلی رپورٹ دباؤ میں غلط حقائق کی بنیاد پر لکھی گئی اور اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
سمیع الدین کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد ان کا جسم ساتھ نہیں دے رہا اور وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں’یہ ایک ڈراؤنا خواب تھا‘
قاسم کے سوگواران میں ان کی اہلیہ اور چھ بچے شامل ہیں۔ سمیع الدین کا کہنا ہے کہ عدالتی معاملات کی وجہ سے قاسم کے دو بچوں کو اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑی۔
سمیع الدین کا دعویٰ ہے کہ انصاف کے لیے انھیں اپنی 300 گز زمین بیچنی پڑی اور ان کے لیے اس واقعے کی یاد تقریباً چھ سال گزرنے کے بعد بھی ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے جو ان کی راتوں کی نیندیں اڑا دیتی ہے۔
سمیع الدین کہتے ہیں کہ ’ہر چیز کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اب کیا کیا جا سکتا ہے، آج بھی وہ حادثہ یاد کر کے ڈر لگتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات وہ منظر رات کو سوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ آج ہم مر جائیں گے، آج ہم زندہ نہیں رہیں گے اور جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اوہ، یہ خواب تھا۔‘
اس وقت انڈیا میں نفرت پر مبنی جرائم کے سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ اس لیے کچھ سال قبل بی بی سی نے 2016 سے 2021 کے درمیان اُتر پردیش میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے سنگین واقعات کی چھان بین کی تھی۔
بی بی سی کو معلوم ہوا کہ جنوری سے اگست 2016 تک مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے 11 سنگین کیس سامنے آئے جبکہ سال 2021 میں جنوری سے اگست کے درمیان مسلمانوں کے خلاف سنگین نوعیت کے 24 پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔
2016 کے ابتدائی آٹھ مہینوں کا ڈیٹا اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے دور کا ہے جبکہ 2021 کے پہلے آٹھ ماہ کا ڈیٹا موجودہ حکومت کا ہے۔
بی بی سی نے اپنی تحقیقات میں صرف اتر پردیش میں رونما ہونے والے سنگین مقدمات کا جائزہ لیا تھا۔