افغانستان میں لاکھوں لڑکیوں کے بغیر نئے تعلیمی سال کا آغاز: ’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے خواب کسی گڑھے میں دفنا دیے گئے ہوں‘

بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان میں اس سال 330,000 لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
افغانسان
Raess Hussain/ BBC

بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان میں اس سال تین لاکھ 30 ہزار لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سنہ 2021 میں طالبان حکومت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ چھٹی جماعت کے بعد جب لڑکیاں تقریباً 13 برس کی ہو جاتی ہیں تو پھر وہ وہ مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔

13 برس کی زینب (فرضی نام) بھی ان لڑکیوں میں شامل ہیں جو اس ماہ اب اپنے سکول نہیں جا سکیں گی۔

گذشتہ چند ماہ سے زینب کو آملیٹ سے نفرت ہو گئی ہے۔ ان فرائی ہونے والے انڈوں اور دُودھ کی خوشبو انھیں گذشتہ برس کی یادوں میں محو کر دیتی ہے، جب وہ سکول جاتی تھیں۔

یہ کوئی چھ ماہ سے بھی کم عرصے کی بات ہے اور اس وقت وہ بہت خوش رہتی تھیں۔ وہ صبح سویرے فجر کی نماز کے لیے جاگ جاتی تھیں اور پھر اس کے بعد تیاری کر کے وہ اپنی چھوٹی بہنوں اور بڑے بھائی کے ساتھ سکول چلی جاتی تھیں۔

اب وہ زینب کے بغیر ہی نئے تعلیمی سال شروع ہونے پر سکول جائیں گے۔ زینب کو اب آملیٹ کی خوشبو سکول کے بارے میں ہر چیز یاد دلائے گی۔

اگرچہ زینب یہ جانتی تھیں کہ چھٹی کلاس کے بعد لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں مگر انھیں یہ امید ضرور رہتی تھی کہ اس حوالے سے کوئی تبدیلی آئے گی۔ انھیں تعلیم سے محبت ہے اور وہ تمام مضامین میں ہی بہت اچھی ہیں۔

زینب کے والد مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ’اپنی کلاس میں سب سے نمایاں‘ تھیں۔ وہ کسی بھی اپنی پسند کے شعبے میں مقام پیدا کر سکتی تھی مگر گذشتہ دسمبر میں ان کے پرائمری سکول کے آخری امتحانات کے عین بعد ان کے ہیڈ ماسٹر امتحانی ہال میں داخل ہوئے اور زینب کی کلاس فیلوز سے کہا کہ وہ مارچ میں نئے تعلیمی سال کے لیے واپس نہیں آسکیں گی۔

اپنی بیٹی کو صدمے کی حالت میں گھر واپس آتے دیکھنے والے زینب کے والد شہیر (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ’زینب بہت افسردہ تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’زینب کو اس طرح دیکھنا بہت مشکل تھا۔‘ شہیر کے مطابق میں اپنی بچیوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا اور بحیثیت والد میں اپنے آپ کو ان کا قصوروار سمجھتا ہوں۔‘

انھوں نے اپنے خاندان کو افغانستان سے باہر لے جانے کی کوششیں بھی کیں۔

زینب نے دھیمے لہجے میں ایک ویڈیو کال پر بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنے خواب ایک کالے گھڑے میں دفنا دیے ہوں۔‘

اس کے بعد وہ کچھ لمحات کے لیے خاموش ہو گئیں۔ ان کے والد نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم کچھ دیر کے لیے وقفہ کر لیں تاکہ زینب پھر کچھ دیر بعد بات کرنے کے قابل ہو سکے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے زینب کا پورا خاندان ہی جذباتی ہو جاتا۔

افغانستان
Raess Hussain/ BBC

اب زینب کی عمر کی لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہ وہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کریں۔

اقوام متحدہ کی افغانستان میں خصوصی سفیر روزا اوتنبیوا نے دسمبر میں سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بتایا تھا کہ وہ اس بات کا پتا نہیں لگا سکی ہیں کہ آیا ان مدارس میں لڑکیوں کو ریاضی اور انگریزی جیسے عام مضامین پڑھائے جاتے ہیں یا نہیں۔

زینب کے والد کا کہنا ہے کہ مدرسے میں وہ تعلیم نہیں دی جاتی جس کی خواہاں ان کی بیٹی ہیں۔ ان کے مطابق یہ تعلیم سکول کی تعلیم کے مقابلے کی نہیں۔ وہ صرف انھیں دینی موضاعات ہی پڑھائیں گے۔ ان کے مطابق میں زینب کو دینیمدرسے میں بھیجنے کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھتا ہوں۔‘

امریکی قیادت میں نیٹو فوجی اتحاد کی ملک سے واپسی کے بعد طالبان 15 اگست 2021 سے دارالحکومت کابل میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔

اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ طالبان کے ان سخت گیر عناصر کی طرح نہیں ہوں گے جنھوں نے 1996 سے 2001 کے درمیان ملک پر حکومت کی۔

انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’ہم اپنے ’فریم ورک‘ کے اندر خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی اجازت دینے جا رہے ہیں۔ خواتین ہمارے معاشرے میں بہت فعال ہوں گی۔‘

مگر خواتین کے حقوق کے یہ وعدے خالی ثابت ہوئے۔ چند ماہ کے اندر ہی چھٹی جماعت کے بعد تعلیم جاری رکھنے پر لڑکیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔

پھر یونیورسٹیوں اور بہت سے دفاتر کو بھی صرف مردوں کے لیے مختص قرار دیا گیا۔ آج خواتین کو مرد محافظ کے بغیر گھر سے نکلنے یا عوامی پارکوں میں جانے کی اجازت نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یہ ایک تاریک تصویر ہے۔ یونیسیف نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سنہ 2021 سے اب تک سکول پر پابندی سے متاثرہ لڑکیوں کی مجموعی تعداد 14 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں سے 330,000 لڑکیاں وہ ہیں جنھوں نے سنہ 2023 میں چھٹی جماعت کا امتحان پاس کیا تھا اور وہ اس سال اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گی۔

تاہم ہر کوئی طالبان کے حکم پر عمل نہیں کر رہا۔

زینب کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کے پڑوس میں کمیونٹی کی سرپرستی میں کچھ نجی تعلیمی ادارے چلائے جا رہے ہیں اور زینب اس وقت وہاں سے انگلش پڑھ رہی ہیں۔

ان کے مطابق ’کوئی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا لیکن فی الحال وہ یہاں اپنے دوستوں سے مل سکتی ہیں۔‘

افغانستان
Raess Hussain/ BBC

زینب کو ڈرائنگ سے محبت ہے۔ وہ اسی دن گھر واپس آ کر اس طرف مائل ہو گئیں تھیں جب ان کے سکول کے ہیڈ ماسٹر نے ان سے کہا تھا کہ وہ اب نئے سال سے سکول میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی ہیں۔

زینب نے بی بی سی کو اپنی ایک ڈرائینگ بھی بھیجی، جس میں ایک لڑکی ایک بند سکول کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔

زینب کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے اوپر تعلیمی پابندی کے بعد اپنی پہلی ڈرائنگ ہی یہ بنائی تھی جس میں ایک لڑکی سکول کے بند دروازوں کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے۔‘

گذشتہ چند ماہ سے وہ اپنے آپ کو مثبت رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب وہ خوبصورت چیزوں کی بھی ڈرائنگ بناتی ہیں۔ آسمان، بلند عمارت، پھول، سورج یا مستقبل کی ایک تصوراتی دنیا جہاں ان کے خواب پورے ہو سکیں۔

زینب کا دنیا کے نام یہی پیغام ہے کہ افغانستان میں ان کی طرح کی لڑکیوں کو نہ بھولا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’افغان لڑکیوں کو ان کا حق واپس لینے میں مدد کریں۔ افغان بچے بہت قابل ہیں۔ ہمیں بس مواقع کی ضرورت ہے۔‘

بی بی سی نے طالبان حکومت سے رابطہ کیا مگر ابھی تک انھوں نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ مریم امان اور جارجینا پیرس نے کی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US