ممبئی ہائیکورٹ نے پولیس مقابلوں کے لیے بدنام مہاراشٹر کے سابق پولیس افسر پردیپ شرما کو عمرقید کی سزا سنائی ہے۔ پردیپ پر یہ بھی الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ صرف اپنے انکاؤنٹر نمبر میں اضافہ کرنے کے لیے اکثر ایسے مجرمان کو بھی انکاؤنٹر کیا ہے جو غلط راہ چھوڑ کر سدھر گئے تھے۔

ممبئی ہائیکورٹ نے پولیس مقابلوں کے لیے بدنام مہاراشٹر کے سابق پولیس افسر پردیپ شرما کو عمرقید کی سزا سنائی ہے۔
انھیں یہ سزا 2009 میں رام نارائن گپتا عرف لکھن بھیا کے فرضی پولیس مقابلے کے مقدمے میں دی گئی ہے۔
اس کیس میں 12 دیگر پولیس افسران سمیت پردیپ کو 2009 میں ہی گرفتار کیا گیا تھا تاہم تھانے سینٹرل جیل میں چار سال گزارنے کے بعد انھیں 2013 میں رہا کر دیا گیا تھا۔
اب عدالت نے پردیپ کو تین ہفتے کے اندر خود کو قانون کے حوالے کرنے کو کہا ہے۔
پردیپ کا تعلق مہاراشٹر پولیس کے مشہور 1983 بیچ سے تھا۔ اس بیچ میں پردیپ کے علاوہ پرفل بھوسلے، وجے سالسکر، رویندر انگرے اور اسلم مومن جیسے کئی پولیس افسران شامل تھے جنھیں ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کہا جاتا تھا۔
پردیپ پر یہ بھی الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ صرف اپنے انکاؤنٹر نمبر میں اضافہ کرنے کے لیے اکثر ایسے مجرمان کو بھی انکاؤنٹر کیا ہے جو غلط راہ چھوڑ کر سدھر گئے تھے۔ گپتا عرف لکھن بھیا جن کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت پر پردیپ شرما کو سزا ہوئی، ان کے وکیل بھائی کا دعویٰ ہے کہ رام نرائن نے مجرمانہ زندگی چھوڑ کر شادی کر لی تھی اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے اور پولیس نے انھیں ان کے گھر سے اٹھا کر قتل کیا تھا۔
شرما تقریباً 25 سال پولیس میں کام کرنے کے بعد چند برسوں سے سیاست میں سرگرم ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولس سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی مواقع کی تلاش میں پردیپ شرما نے شیو سینا کے ٹکٹ پر نالاسوپارہ سے الیکشن لڑا تھا۔

شرما خاندان کا تعلق اصل میں آگرہ، اتر پردیش سے ہے تاہم، پردیپ شرما کے والد مہاراشٹر کے ضلع دھولے میں آباد تھے اور ایک استاد تھے۔
شرما کی ابتدائی تعلیم سے لے کر ایم ایس سی تک تعلیم دھولے میں ہی حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پولیس سروس میں شامل ہو گئے۔
پولیس سروس کی کشش کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انھوں نے کہا تھا، ’جب ہم دھولے میں تھے، ہمارے پڑوس میں ایک انسپکٹر رہتا تھا، جب ہم چھوٹے تھے تو ہم اس کی طرف دیکھتے تھے۔ وہ وردی میں موٹر سائیکل چلاتے تھے۔ پولیس سروس۔ میری طرف راغب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔‘
پردیپ شرما کو سب سے پہلے ممبئی کے ماہم تھانے میں سب انسپکٹر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ سپیشل برانچ چلے گئے۔ بعد ازاں انھوں نے مختلف عہدوں پر کام کیا جن میں مضافاتی ممبئی کے مضافاتی تھانوں کے ایس ایچ او کی ذمہ داریوں کے علاوہ کرائم انٹیلی جنس میں سینیئر پولیس انسپکٹر کے عہدے پر کام بھی شامل تھا۔
پردیپ شرما کا نام صنعت کار مکیش امبانی کے گھر اینٹیلیا کے باہر بم نصب کرنے اور منسکھ ہیرن قتل کیس میں بھی آیا تھا۔ اس معاملے میں این آئی اے نے انھیں گرفتار بھی کیا تھا۔
25 فروری 2021 کو اینٹیلا کے پاس سے دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی ملی تھی جبکہ اس کار کے مالک اور صنعت کار منسکھ ہیرن کی لاش پانچ مارچ کو تھانے کے قریب ملی تھی۔
پردیپ شرما پر منسکھ ہیران کے قتل میں پولیس اہلکار سچن وازے کی مدد کرنے کا الزام ہے۔

وجے سالسکر سے تنازع
انڈین میڈیا میں اس بات کا بھی کافی ذکر رہا کہ پردیپ شرما کا ممبئی حملوں میں مارے گئے پولیس افسر وجے سالسکر سے بھی تنازعہ تھا۔
تاہم اس سلسلے میں پردیپ شرما نے نیوز چینل ٹی وی 9 مراٹھی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وجے سالسکر میرے بہترین دوست تھے۔ ہم 1983 میں پولیس ٹریننگ کے لیے ایک ہی سکواڈ میں تھے۔ ہم ایک سال تک ساتھ رہے، ممبئی آنے کے بعد بھی ہم کئی سالوں تک ساتھ رہے، ہم نے کرائم برانچ میں بھی ساتھ کام کیا۔ ہم نے کچھ بڑے آپریشن بھی ساتھ کیے۔ مجھے اب بھی وہ کام یاد ہے جو میں نے وجے سالسکر کے ساتھ کیا تھا۔ میں اب بھی وجے سالسکر کو سب سے بڑا انفارمیشن نیٹ ورک والا افسر سمجھتا ہوں۔ ان کے پاس مجھ سے سو گنا بڑا نیٹ ورک تھا۔‘
پردیپ نے کہا تھا کہ ’میڈیا میں یہ مبالغہ آرائی کی گئی کہ سالسکر اور میری آپس میں نہیں بنتی، جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ہماری لڑائی صرف معلومات پر ہوتی تھی۔ اگر اس کے پاس خبر ہوتی تو میں اسے پھنسایا کرتا تھا، اسے اپنی طرف لانے کی کوشش کرتا تھا۔‘
ممبئی پولیس اور انکاؤئٹرز

ممبئی پولیس فورس میں پولیس مقابلوں کی کہانی 1981 سے شروع ہوئی تھی جب اس وقت کے سب انسپکٹر اسحاق باگوان نے اس دور کے خطرناک گینگسٹر مانیا سروے کو بیچ بازار میں ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس مڈبھیڑ کو اس کے بعد اس وقت کے پولیس کمشنر جولیو ایف ریبیرو نے خطرناک مجرمان کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو چھوٹ دی اور اسے سماج سے غنڈہ عناصر کو پاک کرنے کا ایک اچھا قدم قرار دیا۔ لیکن بعد میں پولیس نے انہیں دیے گئے حقوق کو غلط طریقہ سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
1980 سے 1997 کا دور ممبئی میں گینگ وار کا دور تھا۔ جب سڑکوں پر کھلے عام دن دیہاڑے قتل ہوا کرتے تھے۔ داؤد گینگ اور چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ ہی ارون گاؤلی گینگ کے ذریعے بلڈروں اور بڑے تاجروں سے ہفتہ وصولی کی وارداتوں میں اضافہ شروع ہوا اور اسی دوران اعلیٰ پولیس افسران نے پولیس کو ایسے مقابلوں کی چھوٹ دے دی۔
لیکن پولیس پر تب یہ الزام بھی عائد ہوا کہ وہ ایک گینگ سے پیسہ لے کر دوسرے گینگ کے غنڈوں کو ہلاک کیا کرتے تھے اور گینگ ممبران ہی دوسرے ممبران کی خبریں بھی ان پولیس افسران کو دیا کرتے تھے۔