لہروں پر ڈولتا ’ڈالی‘، مے ڈے کال اور وہ تصادم جس نے بالٹی مور کے مشہور پل کو تباہ کر دیا

امریکہ میں بالٹیمور کی بندرگاہ سے سری لنکا تک 27 دن کا سفر شروع ہی ہوا تھا کہ بحری جہاز ڈالی کے تمام انجنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ شہر کے مشہور فرانسس سکاٹ کی برج کی طرف بڑھنے لگا۔ جب تک 948 فٹ طویل مال بردار بحری جہازکے عملے کو احساس ہوا کہ ہو کیا رہا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

جب تک 948 فٹ طویل مال بردار بحری جہاز ’ڈالی‘ کے عملے کو احساس ہوا کہ ہو کیا رہا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

امریکہ میں بالٹیمور کی بندرگاہ سے سری لنکا تک 27 دن کا سفر شروع ہی ہوا تھا کہ بحری جہاز کے تمام انجنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ شہر کے مشہور فرانسس سکاٹ کی برج کی طرف بڑھنے لگا۔

یہ آدھی رات کا وقت تھا اور بحری جہاز پر اس وقت مکمل تاریکی چھا گئی جب الیکٹرانکس کا نظام بند ہونے کے نتیجے میں جہاز پر روشنی فراہم کرنے والی لائٹس بھی بند ہو گئیں۔

اب جہاز پر الیکٹرانکس نظام تھا اور نہ ہی اس کے انجن میں کوئی جان اور اس کا عملہ پانی پر تیرتی دیوہیکل چیز کو روکنے میں بےبس تھا۔

بحری جہاز پر سوار ایک مقامی کپتان نے بوکھلاہٹ کے ماحول میں عملے سے کہا کہ وہ بحری جہاز کے عقب میں نصب پتوار کا رخ بندرگاہ کی جانب موڑیں اور لنگر گرا دیں تاکہ اسے دائیں جانب بہنے سے روکا جا سکے۔

عملے نے جہاز کے انجن دوبارہ چلانے اور بجلی کا نظام بحال کرنے کی متعدد کوششیں کیں جو ناکام رہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کوشش کے دوران ایک ہنگامی جنریٹر چلا لیکن جہاز اپنے انجن دوبارہ استعمال کرنے کے قابل نہیں ہو سکا۔

اب بحری جہاز چلانے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ہنگامی صورتحال کی مے ڈے کال دیں اور حکام کو متنبہ کریں کہ تصادم ہونے والا ہے۔

بالٹیمور، ڈالی
Reuters
47 سال پہلے کھلنے والے پل کی تباہی نے بالٹی مور کے بہت سے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا

جہاز ستون سے ٹکرایا اور پل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے جا گرا

’ایک بحری جہاز قریب آ رہا ہے جس نے اپنا سٹیئرنگ کھو دیا ہے۔‘ میری لینڈ ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی کے ایک اہلکار کو ریکارڈ کی گئی ریڈیو ٹرانسمیشن میں میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

پھر ایک اور آواز آئی ’جب تک آپ اسے کنٹرول نہیں کر پاتے، ہمیں تمام ٹریفک کو روکنا ہو گا۔‘

میری لینڈ کے گورنر ویس مور نے بعد میں عملے کو ’ہیرو‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کے فوری ردعمل کے نتیجے میں انسانی جانیں بچیں کیونکہ حکام ہنگامی امداد کی کال اور تصادم کے درمیان دو منٹ کے وقفے میں پل پر گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے میں کامیاب رہے۔

تاہم، وہ اس سب کو نہیں روک سکے جو ڈالی کے ڈیڑھ میل طویل پل کے ایک کنکریٹ سے بنے ستون سے تصادم کے نتیجے میں ہوا۔ جب جہاز اس ستون سے ٹکرایا تو پل تیزی سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دریائے پٹاپسکو کے تاریک، ٹھنڈے پانیوں میں گر گیا۔

تصادم کے وقت پل پر تعمیراتی کام میں مصروف کمپنی کے عملے کے چھ ارکان اس تصادم کے نتیجے میں پانی میں جا گرے اور انھیں اب مردہ تصور کر لیا گیا ہے۔

جہاز کے ٹکرانے کی ٹائم لائن
BBC

امریکی کوسٹ گارڈ نے منگل کی شام کہا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور وہ ان کی بڑے پیمانے پر تلاش اور بچاؤ کی کوششوں کو معطل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو کہ سرد اور ابر آلود موسم کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان چھ مزدوروں کا تعلق میکسیکو، گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور ایل سلواڈور سے تھا۔ بی بی سی نے آزادانہ طور پر ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی ہے اور متعلقہ قونصلر حکام سے رابطہ کیا ہے۔ بحری جہاز پر سوار عملے کے تمام 22 ارکان کا تعلق انڈیا سے تھا۔

تصادم کے نتیجے میں بحری جہاز کے عملے کو معمولی چوٹوں کے سوا کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا لیکن 47 سال پہلے کھلنے والے پل کی تباہی نے گورنر مور سمیت شہر کے بہت سے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

گورنر مور نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا ’یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے میری لینڈ کے 30 ہزار شہری روزانہ گزرتے ہیں۔ یہ سننا کہ پل گر گیا ہے، دل توڑنے والے الفاظ تھے۔47 برسوں سے ہم اسے جانتے تھے۔‘

بالٹیمور حادثہ
EPA
میری لینڈ کے گورنر ویس مور نے عملے کو ’ہیرو‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کے فوری ردعمل کے نتیجے میں انسانی جانیں بچیں

’پورا گھر ہل کر رہ گیا تھا‘

ڈالی پر بجلی کیوں منقطع ہوئی، یہ تاحال واضح نہیں ہے۔

نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی سربراہ جینیفر ہومنڈی نے کہا کہ تفتیش کار اب سفر کے ڈیٹا ریکارڈرز سے حاصل شدہ معلومات کا جائزہ لیں گے۔

ان کا کہنا تھا ’یہ ہماری تحقیقات کا ایک اہم حصہ ہے۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ تاحال بات ’لوگوں کے بارے میں‘ ہی ہو رہی ہے اور مقصد متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

منگل کی صبح بالٹی مور میں اس پل کے آس پاس رہنے والے محنت کش رہائشیوں نے اس منظر پر صدمے کا اظہار کیا جو انھیں دیکھنے کو ملا۔

پانی کے قریب رہنے والے جان فلینزبرگ نے بی بی سی کو بتایا، ’میں نے اس تصادم کو محسوس کیا… پورا گھر ہل کر رہ گیا تھا۔ آج کا دن اچھا نہیں گزرے گا۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔‘

اس علاقے کی ایک اور رہائشی، ڈارلین ارون کا کہنا تھا کہ انھیں پہلی بار اس وقت لگا کہ کوئی مسئلہ ہے جب انھوں نے ’گڑگڑاہٹ‘ سنی۔

گھنٹوں بعد، انھیں تباہی کے پیمانے کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے کھڑکی سے باہر دریائے پٹاپسکو کو دیکھا۔ 3,000 کنٹینرز لے جانے والا بڑا مال بردار جہاز منہدم ہونے والے پل کے ملبے کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔

اس وقت تک، پورا علاقہ بڑے پیمانے پر تلاش اور بچاؤ کی کوششوں کا منظر بن چکا تھا، پولیس کی کشتیاں دریا میں چل رہی تھیں اور پولیس اور کوسٹ گارڈ کے ہیلی کاپٹر اوپر اڑ رہے تھے۔

ایک مقامی سکول میں، دو امریکی فوجی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کھیل کے میدان میں کھڑے تھے۔

’دن کی روشنی میں یہ سب دیکھنا افسوسناک تھا۔‘ ڈارلین ارون نے کہا۔

بالٹیمور ریسکیو
EPA

’آسمان اور زمین ایک کرنے‘ کا صدارتی وعدہ

جہاں حکام نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی توجہ لاپتہ افراد کی تلاش پر مرکوز ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ واقعہ امریکی مشرقی ساحل پر مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک بالٹی مور کی بندرگاہ کے کام پر بھی نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔

میری لینڈ کے سینیٹر بین کارڈن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آبی گزرگاہ کو جلد دوبارہ کھولنا امریکی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔

یہ بندرگاہ سٹیل اور ایلومینیم سے لے کر زرعی آلات جیسے سامان کی ترسیل کے لیے ایک اہم علاقائی مرکز ہے، اور اسے گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں بشمول جنرل موٹرز اور ہونڈا استعمال کرتی ہیں۔ میری لینڈ پورٹ ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بندرگاہ سے گذشتہ سال کم از کم ساڑھے سات لاکھ گاڑیاں لے جائی گئیں۔

سپلائی چین خدمات فراہم کرنے والی کمپنی انٹیلی جنس فار ایور سٹریم اینالیٹکس کے ڈائریکٹر میرکو ووئزک کا کہنا ہے کہ ’اس سے بحری جہازوں کے نظام الاوقات میں خلل پڑے گا اور فلاڈیلفیا اور نورفک جیسی دیگر بندرگاہوں پر کام کا بوجھ بڑھے گا جو کہ سپل اوور، زیادہ سامان سے جگہ کی تنگی اور تاخیر کا باعث بن سکتا ہے اور یہ مسئلہ مہینوں جاری رہ سکتا ہے۔‘

منگل کو وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پل کو دوبارہ کھولنے کے لیے ’آسمان اور زمین ایک کرنے‘ کا عہد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 15 ہزار افراد کا روزگار اس بندرگاہ سے وابستہ ہے۔

جو بائیڈن نے کہا، ’ہم اس ہنگامی صورتحال میں ان تمام وفاقی وسائل کو خرچ کریں گے جن کی انھیں ضرورت ہے اور ہم مل کر اس بندرگاہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔‘

تاہم حکام نے ابھی تک بحالی کے عمل کے لیے کسی بھی ممکنہ ٹائم لائن پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ گورنر مور نے صرف اتنا کہا کہ بحالی کا عمل ’مختصر نہیں ہو گا۔‘ اور یہ بالٹی مور والے جانتے ہیں کہ یہ ایک ’طویل سفر‘ ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ڈالی نامی بحری جہاز کسی حادثے میں ملوث رہا ہو۔

ایک ٹریکنگ ویب سائٹ ویسل فائنڈر کے مطابق، یہ جہاز 2016 میں بیلجیئم کی بندرگاہ اینٹورپ میں ایک اور تصادم کا حصہ تھا تاہم اس وقت کوئی بھی زخمی یا قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا تھا۔

فی الحال تو جب منگل کو سورج غروب ہوا تو ڈالی اور اس پر سوار تین ہزار کنٹینر دریائے پٹاپسکو میں اس حالت میں موجود تھے کہ جہاز کا اگلا حصہ اس منہدم شدہ پل کے ملبے کے درمیان پھنسا ہوا تھا جسے اس نے چند سیکنڈ میں گرا دیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow