مٹی سے سونا نکلنے کی افواہ پر زمین کھودنے والوں کا ہجوم جسے کنٹرول کرنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کرنا پڑی

بنگلہ دیش کے ایک گاؤں میں حکام کو ایک دلچسپ صورتحال کا سامنا ہے۔ گذشتہ کئی دنوں سے اِس گاؤں میں موجود اینٹوں کے ایک بھٹے کے قریب سینکڑوں لوگ جمع ہیں جو ’سونے کے حصول‘ کے لیے یہاں زمین کو کھود رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے ایک گاؤں میں حکام کو ایک دلچسپ صورتحال کا سامنا ہے۔ گذشتہ کئی دنوں سے اِس گاؤں میں موجود اینٹوں کے ایک بھٹے کے قریب سینکڑوں لوگ جمع تھے جو ’سونے کے حصول‘ کے لیے یہاں زمین کو کھود رہے تھے۔

یہاں آنے والے ایک شہری مہنتا کمار نے بتایا کہ ’میں نے لوگوں سے سُنا کہ یہاں کی مٹی سے سونا نکل رہا ہے۔ اسی لیے میں بھی سونا تلاش کرنے کی امید میں یہاں آیا ہوں۔‘

یہاں آنے والے بہت سے افراد ایسے تھے جو مہنتا کی طرح سُنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یہاں پہنچے تھے۔

اس صورتحال کے باعث مقامی انتظامیہ نے گاؤں میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے اور لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد سے اس مقام پر بھیڑ تو کم ہوئی ہے، تاہم اس معاملے پر بحث نہیں رک رہی ہے اور چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ کیا واقعی یہاں مٹی کے نیچے سے سونا دریافت ہو رہا ہے؟

معاملہ کیسے شروع ہوا؟

اینٹوں کا یہ بھٹہ بنگلہ دیش کے ضلع ٹھاکرگاؤں میں واقع ہے۔

اس بھٹے کے مالک کے مطابق لگ بھگ ایک ماہ قبل اچانک خبر پھیل گئی کہ بھٹے کے قریب موجود مٹی سے سونا نکل رہا ہے۔

اس علاقے کے ایگزیکٹیو آفیسر رقیب الحسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ممکن ہے کہ کسی کو شروع میں مٹی سے سونے کا کوئی ٹکڑا ملا ہو جس کے بعد یہ افواہ پھیل گئی۔‘

رقیب نے بتایا کہ انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس مٹی سے سونا نکلتے نہیں دیکھا۔

تو کیا مٹی سے سونا نکلنے کی باتیں محض افواہ ہیں؟ گاؤں کے بہت سے لوگ ایسا نہیں مانتے۔

اس گاؤں سے تعلق رکھنے والی مقامی صحافی فاطمہ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے کسی کو مٹی کے نیچے سے کچھ نکالتے ہوئے دیکھا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک شخص کو میرے سامنے مٹی کی کھدائی کے دوران کوئی چیز ملی۔ لیکن اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آیا وہ سونا تھا یا کچھ اور۔ کیونکہ کھدائی میں مصروف کسی شخص کو جیسے ہی کوئی چیز ملتی ہے تو وہ فوراً یہ جگہ چھوڑ دیتے ہیں، وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتے۔‘

گاؤں کے ایگزیکٹیو آفیسر رقیب الحسن بھی کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی بھی کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا۔

رقیب الحسن کے مطابق ابتدا میں چند لوگ ہی یہاں پہنچے تھے لیکن جیسے ہی یہ خبر پھیلی تو ہر عمر کے سینکڑوں افراد ہر روز دور دور سے یہاں آنے لگے۔

انھوں نے بتایا کہ بعدازاں صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ قریبی اضلاع سے بھی لوگ سونا تلاش کرنے کی امید میں اس اینٹوں کے بھٹے پر پہنچنا شروع ہو گئے۔ ’مردوں سے لے کر عورتوں اور بچوں تک سب نے جو کچھ ہاتھ میں آیا اس سے دن رات مٹی کھودنی شروع کر دی۔‘

دفعہ 144 کیوں نافذ کرنا پڑی؟

مقامی انتظامیہ کے مطابق جب صورتحال بدتر ہوئی اور یہ خبر ملکی میڈیا میں آنے لگی تو حکام نے گذشتہ سنیچر کی شب اس علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔

ضلعی ایگزیکٹیو آفیسر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اینٹوں کے بھٹے کے قریب مٹی کے ڈھیر سے سونا ملنے کی افواہ کی وجہ سے گذشتہ چند دنوں سے مقامی لوگوں کے علاوہ قریبی اضلاع سے سینکڑوں لوگ بیلچوں اور کھدائی کے دیگر سامان سے روزانہ مٹی کھود رہے ہیں۔‘

’وہ کھدائی کرتے ہیں اور سونا تلاش کر رہے ہیں۔ لوگ جارحانہ ہو رہے ہیں اور سونا تلاش کرنے کی امید میں آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔‘

رقیب الحسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شروع میں لوگوں کی تعداد کم تھی، لیکن پچھلے پانچ سات دنوں میں ان کی تعداد میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہو گیا، اس وقت حالات قابو میں تھے اور ہم اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ اتنی بڑی بھیڑ وہاں جمع ہو رہی ہے کہ پورا علاقہ کسی بازار میں تبدیل ہو گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد صورتحال انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب کھدائی کی وجہ سے سڑک پر پھیلی مٹی کو ہٹا کر اینٹوں کے بھٹے کے اندر رکھنے کا کام جاری ہے۔

علاقے میں ایک نجی ٹی وی چینل کے صحافی ضیا الرحمان نے بتایا کہ ’اب اس مقام پر تعینات پولیس اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ کھدائی کا کوئی کام نہ ہو۔ کسی کے پاس سونا ملنے کے شواہد نہیں ملے۔‘

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو رہا ہے۔

اس بارے میں کئی پوسٹس منظرِ عام پر آئی ہیں۔ یہ افواہ بھی سنی گئی کہ کوئی وہاں جعلی زیورات پھینک کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ کا کیا کہنا ہے؟

اس مقام پر ہجوم کے جمع ہونے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی ٹیم نے بھی اس جگہ کا دورہ کیا ہے تاہم ابتدائی معائنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے وہاں کسی ایسے مقام کے شواہد نہیں ہیں جو قدیم آثار سے تعلق رکھتا ہو۔

رقیب الحسن بتاتے ہیں کہ ’جس جگہ پر مٹی کھودی گئی وہ درحقیقت دھان کا کھیت ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے قبل یہ کسی ہندو مندر کے قریب کی جگہ ہو جہاں میلہ لگایا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید انگریزوں کے دور میں پوجا کے دوران لوگوں نے اپنی منت پوری ہونے کے بعد کچھ عطیہ کیا ہو گا۔‘

صحافی فاطمہ بھی رقیب کی بات سے متفق ہیں۔

’اینٹیں تیار کرنے کے لیے کچھ مٹی مندر کے پاس کے علاقے سے لائی گئی تھی اور کچھ خشک تالاب سے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو اس میں کچھ سکے ملے ہوں۔‘

لیکن علاقے میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد سونا تلاش کرنے کی امید رکھنے والے لوگوں نے فی الحال یہاں آنا بند کر دیا ہے اور اس وقت وہاں بلڈوزر سے مٹی ہٹانے کا کام جاری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US