ریچھ سے لے کر سانپ تک کی کفیل بننے والی انیلہ عمیر کی جانوروں سے 19 برس کی دوستی کا سفر

انیلا گذشتہ 19 سال سے گلی محلے اور پالتوں جانوروں کو ریسکیو کر رہی ہیں لیکن2021 ایک روتے ہوئے ریچھ کے بچے کی ویڈیو ان کے پاس آئی تھی، اس کے رونے کی آواز نے انیلا کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے اسے بچانے کا فیصلہ کیا اور اس واقعے کے بعد سے انھوں نے جنگلی جانوروں کو بھی ریسکیو کرنا شروع کیا۔
ْْْْٰbbc
BBC

اس دور میں جب انسان کا بچہ پالنا بھی مشکل لگتا ہے۔ انیلا عمیر 19 برس سے نہ صرف اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کو خوراک دے رہی ہیں، ان کے کمروں میں درجہ حرارت کم رکھنے کے لیے کولر اور اے سی استعمال کر رہی ہیں بلکہ موت کے دھانے پر پہنچ جانے والے جانوروں کو دوبارہ زندگی دینے کے لیے مہنگے طبی علاج بھی کرواتی ہیں۔

انیلا جانوروں کو ریسکیو کرتی ہیں اور وہ جانوروں کے حقوق کی کارکن بھی ہیں۔ انیلا کا دعویٰ ہے کہ ان کے گھر میں 164 جانور ہیں، جن میں 34 کتے، 130 بلیاں اور باقی کچھ پرندے اور کچھ زیر علاج بندر ہیں۔

انیلا کہتی ہیں ’مجھے بچپن سے ہی شوق تھا کہ میں ان جانوروں کے لیے کچھ کروں۔۔۔ میں نے ان کے احساسات کو سمجھا ہے، یہ جس ’ٹراما‘ (صدمے) میں تھے میں نے انھیں اس سے نکالا ہے، جسے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ میرا چھوٹا سا یہ گھر منی شیلٹر ہے جس کے ہر کمرے میں کوئی نہ کوئی معصوم جانور ہے جسے میں نے بہت برے حالات میں بچایا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے نزدیک ’ہر زندگی معنی رکھتی ہے ہمارے لیے چیونٹی کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے۔‘

اس سے پہلے کہ ہم انیلا اور ان ریچھ کے بچے ’ڈبو‘ کی کہانی بیان کریں، راولپنڈی میں انیلا کے گھر کا رخ کرتے ہیں۔

BBC
BBC

پہلی منزل سے چھت تک جانور ہی جانور ہیں اور ان کے لیے مختلف کمروں میں کولر اور اے سی بھی لگے ہوئے ہیں۔

انیلا نے بتایا کہ صرف اس مہینے کا بل 80 ہزار روپے آیا ہے۔

ہر جانور کی کہانی ہے، کوئی اپاہج ہے، کوئی نابینا ہے، کسی کی ٹانگیں نہیں ہیں، کوئی کینسر سے بچا ہے یا کسی کو کوئی بیماری تھی یا ہے۔

تمام جانور بیمار یا متاثرہ نہیں ہیں۔ انیلا نے راولپنڈی کے کالج روڑ پر موجود جانوروں کے بازار سے کچھ حاملہ بلیاں ریسکیو کی تھیں، انھوں نے چند دن پہلے ہی بچے دیے۔

اس کے علاوہ ایک نو دن کا کتے کا بچہ چھوٹے پائپ میں گر کر پھنس گیا تھا انیلا نے اسے بھی بچا کر اب اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔

انیلا جب ہر ایک جانور کی الگ سے کہانی سنا رہی تھیں تو کچھ تو مجھے سمجھ آ رہی تھی لیکن کتوں کا اتنا شور تھا کہ باقی کہانیوں پر کان دھرنا مشکل ہوگیا تھا۔

میں نے انیلا سے پوچھا کہ محلے والے شکایت نہیں کرتے، کیسے اتنا شور بردادشت لیتے ہیں؟

جواب میں انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا ’شروع میں تو وہ بہت تنگ تھے لیکن پھر انھیں عادت ہو گئی۔ اب تو وہ خود بتاتے ہیں کہ باجی فلاں جانور فلاں جگہ پر زخمی ہے۔ کبھی کبھی تو گھر کے دروازے پر لوگ جانور چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔‘

BBC
BBC

اپنے چاروں طرف بلی کتے اور چڑیاں دیکھ کر میں نے انیلا سے سوال کیا، آپ یہاں کہاں رہتی ہے۔

انھوں نے فوراً جواب دیا ’ہم یہاں ہی رہتے سوتے ہیں۔‘

گھر کی چھت پر ایک کمرہ ہے جس میں بڑی تعداد میں بلیاں موجود ہیں اور باقی چھت کے حصے بنے ہوئے ہیں جن میں کتے رہتے ہیں۔

انیلا بتاتی ہیں کہ ان کے پاس موجود جانوروں کو اس لیے بھی لوگ پالتے نہیں کیونکہ لوگوں کی نظر میں یہ ’کیوٹ‘ یعنی پیارے یا نسلی نہیں ہیں۔

لیکن انیلا کا جانوروں کے ساتھ رویہ دیکھیں تو ایک ماں کی طرح انھیں ہر کسی سے بے پناہ پیار ہے اور وہ ان جانوروں کو اپنے بچے ہی کہتی ہیں۔

BBC
BBC

انیلا نے ایک واقعہ بتایا کہ ’کچھ عرصہ پہلے ہمارے گھر کے باہر کسی نے چوہے کے بچے پھینک دیے تھے۔ مجھے معلوم ہے لوگ اسے غلیظ کہتے ہیں لیکن وہ نومولود تھے، ہم نے انھیں کینولا کی سرنج سے خوراک دے کر پالا اور جب وہ بڑے ہوئے تو انھیں ایسی جگہ پر آزاد کیا جہاں کوئی انھیں نقصان نہ پہنچا سکے۔‘

وہ کہتی ہیں ’مجھ سے سٹرک پر برے حالات میں جانوروں کو دیکھا نہیں جاتا اس لیے میں نے ان جانوروں کے ساتھ اپنے ہی گھر میں ایک چھوٹی سی دنیا بنا لی ہے اور انھیں اچھی زندگی دینے کے لیے جو میں کر سکتی ہوں، وہ کر رہی ہوں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں ’کیونکہ اللہ نے ہر چیز کو کسی مقصد کے لیے بنایا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کی جان لینے والے۔‘

اسی فلسفے کے تحت انھوں نے جنگلی جانوروں کو بچانے کا کام بھی شروع کیا۔

BBC
BBC

ڈبو کی کہانی

انیلا کو سنہ 2021 ایک روتے ہوئے ریچھ کے بچے کی ویڈیو ان کے پاس آئی تھی، اس کے رونے کی آواز نے انیلا کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے اسے بچانے کا فیصلہ کیا اور اس واقعے کے بعد سے انھوں نے جنگلی جانوروں کو بھی ریسکیو کرنا شروع کیا۔

ریچھ کے بچے کو ریسکیو کرنا اور رکھنا آسان بالکل نہیں تھا۔ اس دوران ان کا رشتہ ویسا ہی ہو گیا جیسے ایک ماں اور ایک بچے کا ہوتا ہے۔

انیلا بتاتی ہیں کہ چار سال قبل انھیں ان کے ایک جاننے والے نے ایک ویڈیو دکھائی۔ یہ ویڈیو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی تھی جس میں ایک ریچھ کا بچہ رو رہا تھا اور زخمی تھا۔

انیلا بتاتی ہیں کہ ’روتے ہوئے ریچھ کی ویڈیو دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مدد کے لیے پکار رہا ہے کہ مجھے یہاں سے نکالو‘۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کے رونے کی آواز میرےدل پر لگی اور انھوں نے اسے بچانے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں ’اس وقت میرے ذہن میں یہ صورتحال چل رہی تھی کہ اگر میں نے اسے نہیں بچایا تو ہو سکتا ہے کہ یہ کسی مداری کے ہاتھ آ جائے جو اس کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے گلی میں گھمائے۔‘

ریچھ کے مالک پیسے مانگ رہے تھے۔ انیلا کہتی ہیں کہ انھوں نے تقریباً 40 ہزار روپے بھیجے لیکن دو ہفتوں تک انھیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انھیں لگا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔

لیکن پھر ایک دن انھیں خبر ملی کہ ریچھ کا بچہ آ گیا ہے۔ ان کے پاس ایک بوری آئی، اس بوری کو کھولا تو اس میں وہ بچہ تھا۔

انیلا کہتی ہیں ’ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہمیں ایک لاش بھیجی ہے‘۔

وہ بتاتی ہیں کہ ویڈیو کے مقابلے میں ریچھ کے اس بچے کی حالت بہت خراب تھی۔ اس کے کان پر زخم تھے اور کیڑے لگے ہوئے تھے اور وہ اتنا کمزور تھا کہ وہ اٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔

انیلا نے اسے ڈبو کا نام دیا۔

یہ بھی پڑھیے

انیلا کہتی ہیں کہ ’پہلی سوچ یہی تھی کہ میں نے اسے کسی بھی حال میں بچا کر اچھی زندگی دینی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ ڈبو کو فوراً ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں جنھوں نے انھیں بتایا کہ اس کی حالت کافی خراب ہے شاید ہی یہ بچ سکے۔

ڈاکٹر نے ڈبو کا علاج شروع کیا، وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگا اور اس نے پھر بوتل سے خوراک لینا بھی شروع کر دی۔

انیلا بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے یہ بات ڈاکٹر کو کہی تو اس نے کہا ’آپ نے کر دکھایا۔‘

BBC
BBC

وائلڈ لائف اور پولیس کا ریڈ

انیلا کے مطابق ڈبو ان کے پاس تین مہینے تک رہا اور اس دوران وہ ان سے بہت مانوس ہو گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ انھیں اپنی ماں کی نگاہ سے دیکھنے لگا کیونکہ اس بوری سے نکلنے کے بعد وہ ہی تھیں جو اس کا خیال رکھ رہی تھیں۔

اس دوران وہ کہتی ہیں کہ ڈبو ان کے ڈرانئگ روم میں کھیلتا اور ان کی گود میں بیٹھ کر دودھ پیتا۔

وہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’یہ بعد میں بہت غصے والا ہو گیا تھا جب اسے وقت پر دودھ نہیں ملتا تھا تو یہ تھپڑ بھی مارتا تھا۔‘

اس دوران انیلا نے اپنی دوست کے ساتھ ایک ٹک ٹاک ویڈیو بنائی جس میں انھوں نے کھیلنے والے بھالو کو پھینکا اور وہ ڈبو میں بدل گیا۔

ان کی یہ ویڈیو بہت لوگوں نے دیکھی اور ساتھ ہی کچھ نے یہ کہا کہ یہ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔

انیلا کہتی ہیں کہ ایک دن وہ ایک بلی کے ریسکیو کے لیے گئی تھیں کہ انھیں ان کی والدہ نے فون کیا اور پوچھا ’کیا کیا ہے تم نے گھر کے باہر پولیس آئی ہے۔‘

انیلا کہتی ہیں کہ ان کے ذہن میں تھا شاید ڈبو کی ویڈیو ان تک پہنچی ہے اور وہ اسے لینے کے لیے ان کے گھر آ گئے ہیں۔

انیلا کے مطابق ان کے گھر پولیس اور وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے لوگ آئے تھے۔ وہ کہتی ہیں انھیں خود اس وقت اس بارے میں معلوم نہیں تھا کہ جنگلی جانور رکھنا قانون کے خلاف ہے۔

وہ کہتی ہیں انھیں یہ معلوم تھا کہ وہ ڈبو کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس نہیں رکھ سکتیں، وہ کہتی ہیں کہ وہ بین الاقوامی ’سینکچریز‘ (جانوروں کی قدرتی چراہ گاہیں) کے ساتھ رابطہ کر رہی تھیں اور اسلام آباد میں بھی وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے ساتھ رابطے میں تھیں۔

BBC
BBC

انیلا بتاتی ہیں کہ پنجاب وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے ان سے ڈبو کو لے لیا۔ وہ اس بات پر کافی دکھی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ان سے گزارش کی کہ اسے کسی چڑیا گھر میں نہ بھیجیے گا بلکہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ کے حوالے کریں لیکن کیونکہ ڈبو پنڈی میں تھا لہٰذا پنجاب وائلڈ لائف نے اسے اپنے پاس رکھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کیونکہ اس بچے نے ایک تعلق بنا لیا تھا اور وہ مجھے اپنی ماں سمجھتا تھا اور جانور اپنی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘

انیلا کہتی ہیں ’میں بہت رو رہی تھی اس وقت اور کہہ رہی تھی مت لے کر جائیں اسے۔‘

وہ کہتی ہیں انھوں نے انھیں فون کر کے پوچھا کہ کیا ڈبو نے اپنی خوراک لی ہے تو انھوں نے کہا نہیں وہ خوراک نہیں لے رہا۔

’میرے پاس ویڈیوز بھی ہیں جس میں وہ پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں لیکن ڈبو دودھ لینے سے انکار کر رہا ہے۔‘

اگلے دن صبح جب انیلا ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں پہنچیں اور انھوں نے درخواست کی کہ وہ ڈبو کو لائیں تا کہ وہ اسے دودھ پلائیں۔

وہ کہتی ہیں جیسے ہی انھوں نے ڈبو کو زمین پر چھوڑا تو وہ بھاگتا ہوا انیلا کی گود میں آیا اور انھوں نے اسے دودھ کی بوتل دی جسے وہ پینے لگا۔

جب انیلا نے وائلڈ لائف کے عملے سے پوچھا کہ اب وہ ڈبو کا کیا کریں گے تو انھوں نے بتایا کہ عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے لاہور کے چڑیا گھر میں منتقل کیا جائے گا۔

انیلا اس فیصلے سے بالکل خوش نہیں تھیں۔ ان کے نزدیک جانور انسانوں کی تفریح کے لیے نہیں ہیں کہ ان کو پنجروں میں بند کیا جائے۔

BBC
BBC

وہ کہتی ہیں کہ ’لاہور کے چڑیا گھر کے تو پہلے ہی حالات بہت خراب ہیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ کسی چڑیا گھر جائے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا ڈبو مجھ سے اتنا دور اور وہ بھی چڑیا گھر میں چلا جائے گا۔‘

لیکن وہ ڈبو کو لاہور کے چڑیا گھر لے گئے۔ انیلا یہ دعا کر رہی تھیں کہ ڈبو کے حق میں کچھ بہتر ہو جائے۔

جب ڈبو لاہور کے چڑیا گھر میں منتقل ہوا تو انیلا کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے ایک پنجرے میں ڈال دیا گیا ہے اور تفریح کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی صورتحال تھی جو انیلا کا سب سے بڑا ڈر تھا۔

’وہاں سے کچھ ویڈیوز میرے دوستوں نے مجھے بنا کر بھیجیں جس میں کچھ فیملیز ڈبو کو تنگ کر رہی ہیں اور ڈبو بری طرح سے رو رہا ہے‘۔

انیلا کہتی ہیں کہ ڈبو اسی طرح رو رہا تھا جیسے اس کی پہلی ویڈیو میں وہ رو رہا تھا جسے سننے کے بعد انیلا نے اسے بچانے کا فیصلہ کیا۔

اس ویڈیو کو دیکھ کر بھی انھوں نے دوبارہ اسے ریسکیو کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں انھوں نے ٹرینڈ چلائے، اپنے رابطوں کو استعمال کیا، ٹی وی پر شوز میں گئیں اور عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے۔

آخر کار دو جون 2021 میں راولپنڈی کی ایک عدالت کے مجسٹریٹ نے فیصلہ کیا کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی درخواست پر ڈبو کو لاہور کے چڑیا گھر سے اسلام آباد وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے۔

انیلا کہتی ہیں وہ اس فیصلے سے بہت خوش تھیں کیونکہ اب ڈبو ان کے پاس اور ایک اچھی جگہ پر آنے والا ہے۔

BBC
BBC

جنگلی جانوروں کا ریسکیو

ڈبو اب اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے ’بیئر سینکچری‘ میں رہتا ہے اور وہ یہاں واحد ریچھ نہیں ہے۔ انیلا بورڈ کی رضاکار ہیں اور وہ وہاں کے عملے کے ساتھ مل کر جنگلی جانوروں کو ریسکیو کرنے کا کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس واقعے نے ان کی آنکھیں کھولیں کہ پاکستان میں جنگلی جانوروں کے ساتھ زیادہ ظلم ہوتا ہے۔

وہ ریچھ کے علاوہ ’سینکچری‘ میں موجود دیگر جانوروں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ ان میں بندر، چیل اور تیندوے کے بچے شامل ہیں۔

اب بھی وہ ڈبو کو بلاتی ہیں تو ڈبو فوراً ان کے پاس پہنچتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈبو ان کا پہلا جنگلی ریسکیو تھا اس کے بعد سے انھوں نے شیر، گیدڑ، سانپ، ’مانیٹر لزرڈ‘ (چھپکلیاں) ریسیکیو کیے ہیں۔

انیلا کا کہنا ہے کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ پاکستان میں جنگلی جانوروں کے لیے ایک بڑی ’سینکچری‘ بنائیں، جہاں ہر جانور کو اچھے طریقے سے رکھا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ جانوروں کو بیرون ملک بھیجنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس یہاں سہولیات نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ ان کی خواہش ہے کہ جانوروں کی حفاظت کے قوانین کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔

وہ کہتی ہیں ’جانوروں پر رحم کریں ان کو نقصان نہ پہنچائیں یہ بول نہیں سکتے، ان کی آواز بنیں اور جہاں بھی جانوروں پر ظلم ہو رہا ہو اسے رپورٹ کریں۔‘

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US