انڈیا میں آج (یکم جون) کو ساتویں مرحلے کی پولنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہو گیا اور 04 جون کو حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے گا تاہم ایگزٹ پولز کے مطابق نریندر مودی مسلسل تیسری بار انڈیا کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

ایگزٹ پولز کے مطابق نریندر مودی مسلسل تیسری بار انڈیا کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے جاری کردہ ایگزٹ پول ماضی میں اکثر غلط ثابت ہوئے ہیں اور یہ غیر جانبدار نہیں۔
انڈیا میں آج (یکم جون) کو ساتویں مرحلے کی پولنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہو گیا اور 04 جون کو حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
کسی بھی جماعت یا اتحاد کو ملک میں اپنی حکومت بنانے کے لیے انڈین پارلیمان میں 272 نشتسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایگزٹ پولز کے نتائج کے مطابق بی جے پی کی قیادت والا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) اس ٹارگٹ کو عبور کر لے گا۔
اگر نریندر مودی یہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ مسلسل تیسری بار اقتدار سنبھالنے والے انڈیا کے دوسرے وزیراعظم ہوں گے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو حاصل تھا۔
وزیراعظم مودی اس الیکشن میں اپنی زبردست مقبولیت کے ساتھ اترے تھے لیکن ان کے اہم حریف اور انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے بھی زبردست انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی۔
اب مجموعی طور پر چھ ایگزٹ پولز میں مودی کی جیت کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مودی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) 367 نشستیں حاصل کر سکتا ہے۔
بہرحال حتمی نتائج تو چار جون کو آئیں گے لیکن اس سے پہلے آئیے ایگزٹ پول سے متعلق کچھ اہم باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور پھر ہم دیکھیں گے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے لے کر 2023تک ہونے والے اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول اور اصل نتائج کیا تھے۔
ایگزٹ پول سے جڑے مسائل کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے معروف انتخابی ماہر اور سینٹر فار دی سٹڈی آف ڈیولپنگ سٹڈیز (سی ایس ڈی ایس) لوک نیتی کے اسوسی ایٹ ڈائریکٹر پروفیسر سنجے کمار سے بات کی۔
ایگزٹ پول کیا ہے اور یہ کیسے کیا جاتا ہے؟
ایگزٹ کا مطلب ہے باہر نکلنا۔ لہذا لفظ ایگزٹ خود ہی اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ ایک سروے درحقیقت ہے کیا۔
جب ووٹر الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے بعد بوتھ سے باہر آتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ یہ بتانا چاہیں گے کہ آپ نے کس پارٹی کو یا کس امیدوار کو ووٹ دیا۔
ایگزٹ پول ایجنسیاں اپنے لوگوں کو پولنگ بوتھ کے باہر کھڑا کرتی ہیں۔ جیسے ہی رائے دہندگان ووٹ ڈالنے کے بعد باہر نکلتے ہیں، تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انھوں نے کس کو ووٹ دیا ہے۔
کچھ دیگر سوالات بھی پوچھے جا سکتے ہیں، جیسے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے آپ کا پسندیدہ امیدوار کون ہے، وغیرہ۔
عام طور پر کسی پولنگ بوتھ پر ہر دسواں ووٹر یا اگر پولنگ سٹیشن بڑا ہو تو ہر بیسویں ووٹر سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے۔ رائے دہندگان سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرکے یہ پیشگوئی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انتخابی نتائج کیا ہوں گے۔
انڈیا میں کون سی بڑی ایجنسیاں ہیں جو ایگزٹ پول کرتی ہیں؟
سی ووٹر، ایکسس مائی انڈیا، سی این ایکس انڈیا کی چند سرکردہ ایجنسیاں ہیں جو ایگزٹ پول کرتی ہیں۔
انتخابات کے وقت کئی نئی کمپنیاں بھی میدان میں اُترتی ہیں جو انتخابات ختم ہوتے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔

ایگزٹ پول سے متعلق قواعد و ضوابط کیا ہیں؟
ایگزٹ پولز کو ریپریزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ یعنی عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 126 اے کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔
انڈیا میں الیکشن کمیشن نے ایگزٹ پولز کے حوالے سے قواعد وضع کیے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ان پولز کا اثر کسی بھی طور انتخابات پر نہ پڑے۔
الیکشن کمیشن وقتاً فوقتاً ایگزٹ پول کے حوالے سے رہنما اصول جاری کرتا رہتا ہے۔ جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایگزٹ پول کرانے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ ایک عام اصول یہ ہے کہ ایگزٹ پول کے نتائج پولنگ کے دن نشر نہیں کیے جا سکتے۔
انتخابی عمل کے آغاز سے لے کر پولنگ کے آخری مرحلے کے اختتام کے آدھے گھنٹے بعد تک ایگزٹ پول نشر نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے علاوہ پولنگ کے بعد ایگزٹ پول کے نتائج نشر کرنے کے لیے سروے ایجنسی کو الیکشن کمیشن سے اجازت لینی پڑتی ہے۔

کیا ایگزٹ پول کی پیشگوئی یا اندازے عام طور پر درست ہیں؟
اس سارے عمل کو سادہ اور آسان الفاظ میں لوگوں کو سمجھگتے ہوئے پروفیسر سنجے کمار اسے محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے جوڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایگزٹ پول کے اندازے بھی محکمہ موسمیات کے اندازوں کی طرح ہی ہوا کرتے ہیں۔ کبھی تو بلکل درست، کبھی اصل نتائج کے بہت قریب اور کبھی تو اصل نتائج کے بلکل برعکس۔ ایگزٹ پول دو چیزوں کی پیشگوئی کرتا ہے پہلے نمبر پر ووٹ کتنے فیصد پڑے اور دوسرے نمبر پر یہ کہ کس سیاسی جماعت کو کتنی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔‘
سنجے کمار کہتے ہیں کہ ’ہمیں 2004 کے انتخابات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اس میں تمام ایگزٹ پول میں کہا گیا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت دوبارہ اقتدار میں آئے گی، لیکن تمام ایگزٹ پول غلط ثابت ہوئے اور بی جے پی الیکشن ہار گئی۔‘
بعض اوقات مختلف ایگزٹ پول مختلف پیشگوئیاں کرتے ہیں مگر ایسا کیوں؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر سنجے کمار ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کئی بار مختلف ڈاکٹر ایک ہی بیماری کی الگ الگ انداز میں تشخیص کرتے ہیں۔ ایگزٹ پول کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف ایجنسیوں نے مختلف نمونے یا فیلڈ ورک مختلف طریقے سے کیا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ ایجنسیاں فون کے ذریعے ڈیٹا جمع کرتی ہیں جبکہ کچھ ایجنسیاں اپنے لوگوں کو فیلڈ میں بھیجتی ہیں، اس لیے نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔‘

انڈیا میں پہلا ایگزٹ پول کب کرایا گیا تھا؟
انڈیا میں دوسرے عام انتخابات کے دوران انڈین انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینین نے 1957 میں پہلا ایگزٹ پول کروایا تھا۔
اس کے سربراہ ایرک ڈی کوسٹا نے ایک انتخابی سروے کیا، لیکن اسے مکمل ایگزٹ پول نہیں کہا جا سکتا۔
اس کے بعد 1980 میں ڈاکٹر پرنائے رائے نے پہلی مرتبہ ایگزٹ پول کروائے۔ جس پھر 1984 کےانتخابات میں بھی انھوں نے ایگزٹ پول کروائے۔
1996 میں دوردرشن نے صحافی نلنی سنگھ کے ذریعہ ایک ایگزٹ پول کروایا تھا لیکن اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے سینٹر فار دی سٹڈی آف ڈیولپنگ سٹڈیز (سی ایس ڈی ایس) نے فیلڈ ورک کیا تھا۔
اس کے بعد سے یہ رجحان لگاتار جاری رہا لیکن اس وقت ایک یا دو ایگزٹ پول تھے جبکہ آج کل درجنوں ایگزٹ پولز میدان میں ہیں۔
کیا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایگزٹ پول کرائے جاتے ہیں؟
امریکہ، جنوبی امریکہ، یورپ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں ایگزٹ پول کی روایت عام ہے۔
پہلا ایگزٹ پول 1936 میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کیا گیا تھا۔ جارج گیلپ اور کلاڈ رابنسن نے نیو یارک شہر میں ایک انتخابی سروے کیا، جس میں رائے دہندگان یا ووٹرز سے یہ پوچھا گیا کہ انھوں نے کس صدارتی امیدوار کو ووٹ دیا۔
اس طرح حاصل کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرکے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ فرینکلن ڈی روزویلٹ انتخابات جیت جائیں گے۔
اس ایگزٹ پول کے بعد جب نتائج سامنے آئے تو روزویلٹ نے حقیقت میں میدان مار لیا اور وہ کامیاب رہے۔ یہ وہ وقت تھا کے جس کے بعد ایگزٹ پول دوسرے ممالک میں بھی مقبول ہوئے۔1937 میں برطانیہ میں پہلا ایگزٹ پول ہوا اور اس کے بعد 1938 میں فرانس میں پہلا ایگزٹ پول ہوا۔
اب بات کرتے ہیں انڈیا میں ہونے والے ایگزٹ پولز کی۔
یہ بھی پڑھیے
2019 کے لوک سبھا کے انتخابات
2019 کے لوک سبھا انتخابات کے زیادہ تر ایگزٹ پول کے مطابق بی جے پی اور این ڈی اے کو 300 سے زیادہ نشستیں ملنے کی توقع تھی جبکہ کانگریس کی زیرِ قیادت یو پی اے اتحاد کو تقریباً 100 نشستیں ملنے کی توقع تھی۔
اصل نتائج ایگزٹ پول میں کی گئی پیشگوئیوں کے مطابق تھے۔ بی جے پی کو 303 نشستیں اور این ڈی اے کو تقریباً 350 نشستیں ملی تھیں۔ تاہم کانگریس کو صرف 52 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

مغربی بنگال میں 2021 کے اسمبلی انتخابات
2021 میں کیرالہ، آسام، تمل ناڈو، پڈوچیری اور مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ لیکن سب کی نظریں مغربی بنگال پر تھیں۔
زیادہ تر ایجنسیوں نے 292 نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی کو 100 سے زیادہ نشستیں دی تھیں اور ’جان کی بات‘ نامی ایک ایجنسی نے بی جے پی کو 174 نشستیں ملنے کی پیشگوئی کی تھی۔
کچھ ایجنسیوں نے ٹی ایم سی کو برتری لیتے دکھایا تھا لیکن کچھ نے یہاں تک کہا تھا کہ بی جے پی پہلی بار مغربی بنگال میں حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔

لیکن جب نتائج آئے تو ممتا بینرجی کی ٹی ایم سی ایک بار پھر اقتدار میں واپس آئیں اور بی جے پی نے 2016 میں جیتی گئی تین نشستوں سے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن وہ 75نشستوں تک ہی پہنچ سکی اور حکومت بنانے سے بہت دور رہی۔
2022 میں گجرات اور ہماچل پردیش کی اسمبلی کے انتخابات
گجرات اور ہماچل پردیش میں نومبر، دسمبر 2022 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ گجرات کے ایگزٹ پولز کی بات کریں تو ان میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار ملنے کا اشارہ ملتا ہے اور 182 نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی کو 117 سے 148 نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
تمام ایگزٹ پولز میں اپوزیشن کانگریس کو 30 سے 50 سیٹیں ملنے کی امید تھی لیکن جب نتائج آئے تو بی جے پی 156 نشستوں کے ساتھ ریاست میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی جبکہ کانگریس نے صرف 17 نشستیں جیت کر اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
ہماچل پردیش میں زیادہ تر ایجنسیوں نے ایگزٹ پول میں بی جے پی کو برتری دی تھی۔ انڈیا ٹوڈے، ایکسس مائی نے کانگریس کو برتری دی تھی۔ لیکن جب نتائج آئے تو کانگریس نے 68 نشستوں والی اسمبلی میں 40 نشستیں جیت کر حکومت تشکیل دی، جبکہ بی جے پی کو صرف 25 نشستیں مل سکیں۔

2023 میں کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات
کرناٹک میں اپریل اور مئی 2023 میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ایجنسیوں نے کہا تھا کہ کانگریس بی جے پی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ نتائج بھی کم و بیش اسی طرح کی بات سامنے آئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کانگریس کی کارکردگی زیادہ تر اندازوں سے بہتر تھی۔
کانگریس نے 224 نشستوں والی اسمبلی میں 43 فیصد ووٹوں کے ساتھ 136 نشستیں حاصل کیں۔
یہ گذشتہ تین دہائیوں میں ریاست میں کانگریس کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ بی جے پی صرف 65 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور جنتا دل (ایس) کو صرف 19 نشستیں ملیں۔
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم میں نومبر اور دسمبر میں انتخابات ہوئے تھے۔

چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش
چھتیس گڑھ میں ہونے والے انتخابات میں تمام ایجنسیوں نے ایگزٹ پول میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلے کی پیشگوئی کی تھی یا کانگریس کو برتری حاصل کرتے دکھایا تھا۔ 90 رکنی اسمبلی میں کسی بھی ایجنسی نے کانگریس کو 40 سے کم نشستیں ملنے کی پیشگوئی نہیں کی تھی۔ بی جے پی کو 25 سے 48 نشستیں ملنے کاامکان ظاہر کیا گیا تھا۔
لیکن جب نتائج آئے تو بی جے پی نے 54 سیٹیں جیت کر حکومت بنائی جبکہ کانگریس کو صرف 35 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔
مدھیہ پردیش میں 230 اسمبلی نشستیں ہیں۔ ایگزٹ پول میں بی جے پی کو 88 سے 163 نشستیں ملنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی جبکہ کانگریس کو کم از کم 62 اور زیادہ سے زیادہ 137 نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
لیکن جب نتائج آئے تو بی جے پی نے 163 نشستیں حاصل کیں جبکہ کانگریس صرف 66 نشستوں تک محدود رہی۔
راجستھان
اے بی پی نیوز سی ووٹر ایگزٹ پول میں بی جے پی کی برتری بہت زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔ راجستھان میں بی جے پی کو کم از کم 77 اور زیادہ سے زیادہ 128 نشستیں ملنے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ جبکہ حکمراں جماعت کانگریس کو کم از کم 56 اور زیادہ سے زیادہ 113 نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
جب نتائج آئے تو بی جے پی کو 115 اور کانگریس کو 69 نشستیں ملیں۔ دیگر چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے 15 نشستیں جیتیں۔

تلنگانہ
ایگزٹ پولز میں تقریباً تمام ایجنسیوں نے تلنگانہ میں کانگریس کو برتری حاصل کرتے دکھایا تھا۔
کانگریس کو کم از کم 49 اور زیادہ سے زیادہ 80 نشستیں ملنے کا امکان تھا تمام ایگزٹ پولز میں حکمراں بی آر ایس کو اقتدار حاصل کرنے میں ناکام ہونے کی پیشگوئی کی گئی۔
جب نتائج آئے تو کانگریس کو 64 نشستیں ملیں جبکہ بی آر ایس کو 39 نشستیں ملیں۔ یعنی ہوا وہی کے جس کے بارے میں ایگزٹ پول میں پیشگوئی کی گئی تھی۔
اسی بارے میں