سنیچر کی شام انڈیا میں 57 لوک سبھا سیٹوں کے لیے ووٹنگ کے ساتویں مرحلے کے اختتام کے ساتھ ہی 18ویں لوک سبھا کی کل 543 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ختم ہو گئی تھی جس کے بعد مختلف ایگزٹ پولز کے نتائج سامنے آنے کے بعد مختلف جماعتیں الگ الگ دعوے کرتی نظر آ رہی ہیں۔

سنیچر کی شام انڈیا میں 57 لوک سبھا سیٹوں کے لیے ووٹنگ کے ساتویں مرحلے کے اختتام کے ساتھ ہی 18ویں لوک سبھا کی کل 543 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ختم ہو گئی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ساتویں مرحلے میں رات آٹھ بج کر 45 منٹ تک 59.45 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔
ساتویں اور آخری مرحلے کے اختتام کے ساتھ ہی ایگزٹ پول کے اندازے بھی آنا شروع ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر میں بی جے پی کے اتحاد این ڈی اے کی ممکنہ برتری سامنے آئی ہے۔
خیال رہے کہ تمام ہی ایگزٹ پولز میں بے جی پی کی سربراہی میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈے اے) اتحاد کو برتری حاصل ہے۔
یاد رہے کہ موجودہ پارلیمانی انتخابات کے انتخابی عمل کی ابتدا 16 مارچ کو انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہوئی اور پہلے مرحلے کے لیے 19 اپریل کو ووٹنگ شروع ہوئی۔ یہ عمل چار جون کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کے اعلان کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔
لوک سبھا یعنی انڈین پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے انتخابات کے ساتھ ساتھ آندھرا پردیش، اوڈیشہ، اروناچل پردیش اور سکم کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات بھی ہوئے ہیں۔ جہاں آندھرا پردیش اور اوڈیشہ اسمبلی کے ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی، وہیں اروناچل پردیش اور سکم اسمبلی کے ووٹوں کی گنتی دو جون کو ہو رہی ہے۔
کانگریس کی قیادت والے نئے اتحاد انڈیا میں شامل جماعتیںدعوے اور جوابی دعوے
ساتویں مرحلے کی ووٹنگ کی تکمیل کے ساتھ ہی مختلف جماعتوں کی جانب سے جیت کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔
بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا ہے کہ بی جے پی 370 سیٹیں جیتے گی اور این ڈی اے اتحاد کو 400 سیٹیں ملیں گی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ این ڈی اے اتحاد کو اتر پردیش، اوڈیشہ، مغربی بنگال اور تلنگانہ میں گذشتہ انتخابات کے مقابلے زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی۔ خیال رہے کہ نریندر مودی کی جانب سے الیکشن مہم کے دوران ’اب کی بار 400 پار‘ کا انتخابی نعرہ لگایا گیا تھا۔
ساتھ ہی کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا اتحاد 295 سے زیادہ سیٹیں جیت رہا ہے۔
اس سے قبل سنہ 2019 کے انتخابات کے نتائج کو دیکھیں، جس کے نتائج کا اعلان 23 مئی کو کیا گیا تھا، تو اس میں نریندر مودی کی قیادت والے اتحاد این ڈی اے نے کل 353 نشستیں حاصل کی تھیں۔
بی جے پی نے تنہا 303 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ کانگریس کو 52 سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے اتحاد نے کل 92 سیٹیں حاصل کی تھیں۔
اس سے بھی قبل سنہ 2014 میں 'مودی لہر' کی وجہ سے بی جے پی کو 282 اور این ڈی اے کو 336 سیٹیں ملی تھیں اور بی جے پی مضبوطی کے ساتھ حکومت میں آئی تھی۔ دوسری جانب 10 سال تک کامیابی کے ساتھ حکومت کرنے والی کانگریس کو 44 اور یو پی اے کو 59 سیٹیں ملی تھیں۔
ایگزٹ پولز کیا کہہ رہے ہیں؟
اے بی پی-سی ووٹر کے اندازوں کے مطابق بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے اتحاد 353 سے 383 سیٹوں پر کامیاب ہو سکتی ہے، جبکہ انڈیا اتحاد کو 152-182 سیٹیں مل سکتی ہیں اور دیگر پارٹیوں کو 4-12 سیٹیں مل سکتی ہیں۔
نیوز 24- ٹوڈیز چانکیہ نے پیش گوئی کی ہے کہ این ڈی اے کو 400 سے زیادہ سیٹیں ملیں گی۔ چانکیہ کے ایگزٹ پول کے مطابق بی جے پی کو 335 سے زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ کانگریس کو 50 سے زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں اور انڈیا الائنس کو 107 سے زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں۔
انڈیا ٹی وی کے ایگزٹ پول کے مطابق این ڈی اے کو 371-401 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ کانگریس کو 109-139 سیٹیں مل سکتی ہیں اور دیگر پارٹیوں کے حصے میں 28-38 سیٹیں آ سکتی ہیں۔
اگر پارٹی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مختلف ایگزٹ پولز کے مطابق بی جے پی کو 319-338، کانگریس کو 52 سے 64، جنوبی انڈیا کی پارٹی ڈی ایم کے کو 15-19، ترنمول کانگریس کو 14-18، جے ڈی یو کو 11-13، آر جے ڈی کو 2-4، عام آدمی پارٹی کو 2-4 اور سماج وادی پارٹی کو 10-14 سیٹیں مل سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ بی جے ڈی کو 4-6 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ شیو سینا ادھو ٹھاکرے کو 10-12 سیٹیں مل سکتی ہیں، شیو سینا شندے کو 5-7 سیٹیں مل سکتی ہیں اور ٹی ڈی پی کو 12-16 سیٹیں مل سکتی ہیں۔
ووٹرزریپبلک ٹی وی پی ایم اے آر کے میٹرکس کے ایگزٹ پول میں این ڈی اے کو بڑی برتری حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے مطابق این ڈی اے کو 359 سیٹیں اور انڈی اتحاد کو 154 سیٹیں جیتنے کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے۔ دیگر پارٹیوں کو 30 سیٹیں مل سکتی ہیں۔
جٓن کی بات کے ایگزٹ پول کے اعداد و شمار کے مطابق این ڈی اے 377 سیٹیں جیت سکتی ہے۔ جبکہ انڈیا اتحاد کو 151 سیٹوں پر جیت مل سکتی ہے اور دیگر پارٹیاں 15 سیٹوں پر کامیاب ہو سکتی ہیں۔
ان کے ایگزٹ پول کے مطابق بی جے پی 327 سیٹیں جیت سکتی ہے اور کانگریس 52 سیٹیں جیت سکتی ہے۔
انڈیا نیوز- ڈی ڈائنامکس کے ایگزٹ پول میں این ڈی اے کو 371 اور انڈیا الائنس کو 125 سیٹیں ملنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس کے مطابق دیگر پارٹیوں کو 47 سیٹیں مل سکتی ہیں۔
ایگزٹ پول میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بی جے پی کو 315 سیٹیں، کانگریس کو 60 سیٹیں، ٹی ایم سی کو 19 سیٹیں، عام آدمی پارٹی کو تین سیٹیں، سماج وادی پارٹی کو 10 سیٹیں، این سی پی کو پانچ سیٹیں اور شیو سینا شندے کو آٹھ سیٹیں ملیں گی۔
ایگزٹ پولز کیا ہوتے ہیں اور کیسے کیے جاتے ہیں؟
ایگزٹ کا مطلب ہے باہر نکلنا۔ لہذا لفظ ایگزٹ خود ہی اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ ایک سروے ہے۔
جب ووٹر الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے بعد بوتھ سے باہر آتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ یہ بتانا چاہیں گے کہ آپ نے کس پارٹی کو یا کس امیدوار کو ووٹ دیا۔
ایگزٹ پول ایجنسیاں اپنے لوگوں کو پولنگ بوتھ کے باہر کھڑا کرتی ہیں۔ جیسے ہی رائے دہندگان ووٹ ڈالنے کے بعد باہر نکلتے ہیں، تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انھوں نے کس کو ووٹ دیا ہے۔
کچھ دیگر سوالات بھی پوچھے جا سکتے ہیں، جیسے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے آپ کا پسندیدہ امیدوار کون ہے، وغیرہ۔
عام طور پر کسی پولنگ بوتھ پر ہر دسواں ووٹر یا اگر پولنگ سٹیشن بڑا ہو تو ہر بیسویں ووٹر سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے۔ رائے دہندگان سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرکے یہ پیشگوئی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انتخابی نتائج کیا ہوں گے۔
اس سارے عمل کو سادہ اور آسان الفاظ میں لوگوں کو سمجھاتے ہوئے پروفیسر سنجے کمار اسے محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے جوڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایگزٹ پول کے اندازے بھی محکمہ موسمیات کے اندازوں کی طرح ہی ہوا کرتے ہیں۔ کبھی تو بالکل درست، کبھی اصل نتائج کے بہت قریب اور کبھی تو اصل نتائج کے بلکل برعکس۔ ایگزٹ پول دو چیزوں کی پیشگوئی کرتا ہے پہلے نمبر پر ووٹ کتنے فیصد پڑے اور دوسرے نمبر پر یہ کہ کس سیاسی جماعت کو کتنی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔‘
سنجے کمار کہتے ہیں کہ ’ہمیں 2004 کے انتخابات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اس میں تمام ایگزٹ پول میں کہا گیا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت دوبارہ اقتدار میں آئے گی، لیکن تمام ایگزٹ پول غلط ثابت ہوئے اور بی جے پی الیکشن ہار گئی۔‘
بعض اوقات مختلف ایگزٹ پول مختلف پیشگوئیاں کرتے ہیں مگر ایسا کیوں؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر سنجے کمار ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کئی بار مختلف ڈاکٹر ایک ہی بیماری کی الگ الگ انداز میں تشخیص کرتے ہیں۔ ایگزٹ پول کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مختلف ایجنسیوں نے مختلف نمونے یا فیلڈ ورک مختلف طریقے سے کیا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ ایجنسیاں فون کے ذریعے ڈیٹا جمع کرتی ہیں جبکہ کچھ ایجنسیاں اپنے لوگوں کو فیلڈ میں بھیجتی ہیں، اس لیے نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔‘