مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایک مسلمان مرد اور ہندو عورت کی شادی، جس میں دونوں شادی کے بعد اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرتے ہوں، کو درست نہیں مانا جا سکتا۔ کیا انڈیا میں پہلے سے موجود ہندو مسلم جوڑوں کی شادیاں اس فیصلے سے متاثر ہو سکتی ہیں؟

27 مئی کو انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ ایک مسلمان مرد اور ہندو عورت ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔ اس فیصلے کے مطابق ایسی شادی کو اسلامی قوانین کی بنیاد پر یا سپیشل میرج ایکٹ کے تحت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اسلامی قانون کسی مسلمان مرد کی کسی ’بت پرست یا آگ کی پوجا کرنے والی‘ ہندو عورت سے شادی کی اجازت نہیں دیتا اور ایسی شادی کو سپیشل میرج ایکٹ کے تحت بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم تجزیہ کار ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سپیشل میرج ایکٹ کے نفاذ کے مقصد کے خلاف ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایک مسلمان مرد اور ہندو عورت کی شادی، جس میں دونوں شادی کے بعد اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل کرتے ہوں، اس شادی کو درست نہیں مانا جا سکتا۔
عدالت میں پیش ہونے والے مقدمے میں کیا تھا؟
مدھیہ پردیش کے ایک مسلمان مرد اور ہندو خاتون کے جوڑے نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ شادی کے بعد دونوں اپنے اپنے مذہب کی پیروی کریں گے اور ایک دوسرے کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔
جوڑے کا کہنا تھا کہ انھوں نے سپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کے لیے پہلے میرج آفیسر کو درخواست دی تھی لیکن دونوں کے خاندانوں کے اعتراضات کی وجہ سے ان کی شادی رجسٹر نہیں ہوسکی۔

دونوں نے عدالت سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ اپنی شادی رجسٹر کروا سکیں۔
سپیشل میرج ایکٹ 1954 میں منظور کیا گیا ایک قانون ہے، جس کے تحت بین مذہبی شادی شدہ جوڑے اپنی شادی رجسٹر کروا سکتے ہیں۔
اس قانون کے تحت شادی کرنے کے خواہشمند جوڑے میرج آفیسر سے درخواست دیتے ہیں۔ اس درخواست کے بعد میرج آفیسر 30 دن کے لیے نوٹس جاری کرتا ہے۔ اس مدت کے دوران، کوئی بھی شخص یہ کہتے ہوئے اعتراض درج کرا سکتا ہے کہ جوڑے نے شادی کو رجسٹر کرنے کے لیے ضروری شرائط پوری نہیں کیں۔ ایسی حالت میں نکاح رجسٹر نہیں ہوتا۔
اس معاملے میں لڑکی کے گھر والوں نے الزام لگایا ہے کہ وہ گھر والوں کے زیورات لے کر گھر سے نکلی تھی۔ لڑکی کے اہل خانہ نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اگر بین المذاہب شادی کی اجازت دی گئی تو پورے خاندان کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کیس میں عدالت نے کیا کہا؟
عدالت نے پہلے غور کیا کہ آیا یہ شادی درست ہے یا نہیں۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ ایسی شادی مسلم پرسنل لا کے تحت درست نہیں ہے۔
اس کے بعد عدالت نے یہ بھی کہا کہ سپیشل میرج ایکٹ بھی ایسی شادی کو قانونی نہیں بنائے گا، جسے پرسنل لا کے تحت قانونی شناخت حاصل نہ ہو۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 2019 میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مبنی اپنے بیان کی بنیاد رکھی، جس میں کہا گیا تھا کہ کسی غیر مسلم عورت کے ساتھ جو آگ یا بتوں کی پوجا کرتی ہے، اس کا نکاح درست نہیں ہوگا۔ البتہ ایک مسلمان مرد یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ ایسی شادی کو جائز سمجھا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ عورت ان تینوں مذاہب میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔
دوسری جانب جوڑے کا موقف تھا کہ سپیشل میرج ایکٹ کے سامنے پرسنل لا کو ترجیح نہیں ہونی چاہیے اور ان کی شادی کو رجسٹر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
لیکن مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر شادی پر پابندی ہے تو پھر یہ قانون بھی اس کا جواز نہیں بن سکتا۔
اس بنیاد پر عدالت نے پولیس تحفظ سے متعلق ان کی درخواست بھی مسترد کر دی۔

کیا یہ فیصلہ درست ہے؟
خاندانی معاملات کے بہت سے قانونی ماہرین مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔
ان ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے میں سپیشل میرج ایکٹ کے نفاذ کے مقصد کی نفی کی گئی ہے۔ سپیشل میرج ایکٹ کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ ’شادی کرنے والے شخص کی پارٹی یا مذہب سے قطع نظر‘ یہ قانون تمام ہندوستانیوں کی شادی کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ جب تک فریقین سپیشل میرج ایکٹ کے تقاضوں کی تعمیل کرتے ہیں، وہ’شادی کے کسی بھی رواج کو اپنا سکتے ہیں۔‘
وکیل اور خاندانی قانون کی ماہر مالویکا راجکوٹیا نے اس فیصلے پر کہا ہے، ’قانون کے مطابق یہ درست فیصلہ نہیں ہے۔ اسے سپریم کورٹ میں پلٹ دیا جائے گا۔ اس فیصلے میں سپیشل میرج ایکٹ کی اصل روح شامل نہیں ہے، جس کا مقصد بین المذہبی شادیوں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔‘
خواتین کے حقوق کی وکیل وینا گوڑا نے کہا، ’عدالتی مشاہدے کے طور پر بھی، یہ بہت گمراہ کن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلامی قانون پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، جج نے سپیشل میرج ایکٹ کے مقصد اور استدلال پر بھی بات کی ہوگی۔‘
بنگلور کی نیشنل لا یونیورسٹی میں فیملی لا کی پروفیسر سرسو ایستھر تھامس بھی اس نظریے سے متفق نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ فیصلے میں سپیشل میرج ایکٹ کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔ جبکہ سپیشل میرج ایکٹ مختلف مذاہب کے لوگوں کو شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس فیصلے میں غلط کہا گیا ہے کہ پرسنل لا کے تحت جن شادیوں کی ممانعت ہے ان کی سپیشل میرج ایکٹ کے تحت اجازت نہیں ہے۔‘
’اگرچہ سپیشل میرج ایکٹ واضح طور پر بتاتا ہے کہ ایکٹ کے تحت کون سی شادیاں نہیں ہو سکتیں، مثال کے طور پر ایسے رشتہ دار جن سے خون کا رشتہ ہو شادی نہیں کر سکتے، یا عمر کی اہلیت۔ معیار پر پورا نہ اترنے والے افراد کے درمیان شادی کی اجازت نہیں ہے۔‘

کیا اس فیصلے سے ہندو مسلم شادیوں پر اثر پڑے گا؟
کیا ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے پہلے سے موجود بین المذہبی جوڑوں کی شادیوں پر کوئی اثر پڑے گا؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس سے بین المذاہب شادی کا رجحان کم ہوسکتا ہے۔
وینا گوڑا کہتی ہیں کہ ’یہ پولیس تحفظ کی درخواست پر عدالت کا مختصر بیان ہے۔ اس لیے یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے جو ہر کیس پر لاگو ہو۔ عدالت شادی کے جواز یا قانونی حیثیت پر غور نہیں کر رہی تھی۔‘
ساتھ ہی مالویکا راجکوٹیا نے کہا کہ ’شادی روکنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رجسٹرار اس فیصلے کی بنیاد پر کیا کرتے ہیں؟‘
’جسٹرار اب بھی بین المذاہب شادی کو رجسٹر کر سکتا ہے۔ شادی کو تسلیم کرنے کا فیصلہ بعد میں عدالت کر سکتی ہے۔‘
پروفیسر سرسو ایستھر تھامس نے کہا کہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو اس کا سپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کرنے والوں پر بہت منفی اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ فیصلے کے مطابق یہ جائز شادی نہیں ہے۔
’یہ جائز بچوں کو ناجائز بنا سکتا ہے، کیونکہ ان کے والدین کی شادی درست نہیں ہوگی اور اس کا اطلاق نہ صرف اسلامی قانون پر ہوگا بلکہ دیگر مذاہب بھی متاثر ہوں گے۔‘
پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی پرسنل لا کے تحت ممنوع شادیوں کو سپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹر نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس سے تمام شادیاں متاثر ہوں گی، جو پرسنل لا کے تحت ممنوع ہیں۔ مثال کے طور پر، پارسی قانون بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگاتا ہے اور شادی کرنے والے جوڑوں کو اپنی شادیاں خصوصی میرج ایکٹ کے تحت رجسٹر کرانی پڑتی ہیں۔ یہ فیصلہ اسے بھی روک دے گا۔‘
پروفیسر تھامس کے مطابق، یہ فیصلہ بین المذاہب جوڑوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ، ’یہ فیصلہ مستقبل کے بین مذہبی جوڑوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہاں شادی کرنے والے جوڑے تحفظ کے خواہاں تھے۔ اگر آپ سکیورٹی فراہم نہیں کریں گے تو شادی شدہ جوڑوں کا کیا ہوگا؟
یہ فیصلہ رشتہ داروں کو ایسی شادیوں کو چیلنج کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
دوسری طرف، مالویکا راجکوٹیا نے کہا، ’اس فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ بین المذاہب شادیوں کو مایوسی کے اندھیروں میں پھینک رہا ہے۔ یہ سب سے بڑی تشویش کا معاملہ ہے۔‘
حال ہی میں، انڈین ایکسپریس اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب اتر پردیش میں 12 بین المذاہب رہنے والے جوڑوں نے سکیورٹی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ان جوڑوں کو سکیورٹی فراہم نہیں کی۔
تاہم 2005 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پولیس اس بات کو یقینی بنائے کہ بین المذاہب اور بین الذات شادی شدہ جوڑوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ لیو ان ریلیشن شپ غیر قانونی نہیں ہے۔
ویسے بہت سے معاملات میں مختلف عدالتوں نے جوڑوں کو تحفظ فراہم کیا ہے جو خاندان کی طرف سے ہراساں کیے جا رہے ہیں۔