جہاں تیزی سے بڑھتی آبادی دنیا کے کئی ممالک کے مسائل پیدا کر رہی ہے وہیں جنوبی انڈیا کی ریاستیں آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی سے اتنی پریشان ہیں کہ وہ دو سے کم بچوں والے افراد پر مختلف پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

جہاں تیزی سے بڑھتی آبادی دنیا کے کئی ممالک کے مسائل پیدا کر رہی ہے وہیں جنوبی انڈیا کی ریاستیں آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی سے اتنی پریشان ہیں کہ وہ دو سے کم بچوں والے افراد پر مختلف پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
گذشتہ سنیچر آندھرا پردیش کے دارالحکومت امراوتی میں خطاب کرتے ہوئے آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو کا کہنا تھا کہ ریاست میں ضعیف افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یہ آنے والے سالوں میں ریاست کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
انھوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا کریں۔
چندرا بابو نائیڈو کا مزید کہنا تھا کہ ان حکومت ایک ایسا قانون لانے کے بارے میں سوچ رہی ہے جس کے بعد ایسے افراد جن کے دو سے کم بچے ہوں گے وہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
چندرا بابو نائیڈو کے بیان کے اگلے ہی روز تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے سٹالن نے آبادی کے تناسب کا ریاست کی پارلیمنٹ میں نمائندگی پر اثر کے بارَے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ’جب پارلیمان میں ریاست کی نمائندگی کم ہو رہی ہے تو لوگ 16 بچوں کو جنم کیوں نہیں دیتے؟‘ وہ ایک اجتماعی شادی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چندرا بابو نائیڈو یا سٹالن نے آبادی میں عمر رسیدہ افراد کے اضافے اور آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے ایسا بیان دیا ہو۔

کیا واقعی بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟
چندرا بابو کہتے ہیں کہ جنوبی انڈیا کی ریاست میں نوجوانوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
چندرا بابو نے دعویٰ کیا کی قومی خاندانی سروے کے مطابق ملک میں شرح پیدائش 2.0 ہے جبکہ آندھرا پردیش میں یہ شرح 1.7 ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی ترقی کے لیے تیار کردہ ویژن 2047 میں آبادی کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
وہ 2014 سے یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ آبادی بڑھانے سے ہی انسانی وسائل میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں ریاست کی معیشیت میں بہتری آئے گی۔
ممبئی میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر گولی سری نواس نے بی بی سی کو بتایا ’اگر شرحِ پیدائش 1.8 سے نیچے ہو تو اس سے ملک اور ریاست کی معیشت متاثر ہوسکتی ہے۔‘
2001 میں آندھرا پردیش میں عمر رسیدہ افراد کا تناسب کل آبادی کا 12.6فیصد تھا۔ گذشتہ دو دہائیوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف رجسٹریشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں یہ تناسب بڑھ کر 15.4 فیصد اور 2021 میں 18.5 فیصد ہوگئی۔ پروفیسر سری نواس کہتے ہیں کہ 2031 تک یہ شرح مزید بڑھ کر 24.7 فیصد ہونے کا امکان ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ 2031 تک آندھرا پردیش میں ہر چار میں سے ایک شخص بوڑھا ہوگا جس سے کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد میں کمی آئے گی۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک پہلے ہی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔
اس کے سدباب کے لیے جنوبی کوریا نے شادی کے خواہشمند لوگوں کو مالی امداد فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ جاپان میں ’میریج بجٹ‘ کا تصور متعارف کروایا گیا ہے۔
سری نواس کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس مسئلے کا شکار ہیں’ایسے میں کیا ہم جیسے ترقی پذیر ملک کو پہلے ہی ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں کہ ہم ایسی صورتحال میں پھنسیں ہی نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق مردوں کی متوقع عمر 67 سال اور خواتین کی 72 سال ہے۔

انڈیا کی مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ کے مطابق 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر بی منی سوامی پاپولیشن ریسرچ سینٹر، وشاکھاپٹنم کے ڈائریکٹرہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی پورے جنوبی انڈیا کی ریاستوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی سکیموں کو بہت مؤثر طریقے سے نافذ کیا تھا۔
’اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور ان پر انحصار کرنے والے بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘
آبادی میں کمی سے پارلیمان میں نمائندگی کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟
ایم کے سٹالن دعویٰ کرتے ہیں کہ جنوبی انڈیا کی آبادی کم ہو رہی ہے جس سے پارلیمان میں ان کی نمائندگی کم ہو گی۔
مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2036 کے درمیان آبادی میں 31 کروڑ سے زائد نفوس کا اضافہ متوقع ہے۔ اس میں سے 17 کروڑ افراد کا اضافہ بہار، اتر پردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش میں ہوگا جب کہ آندھرا پردیش، تلنگانہ، تمل ناڈو، کرناٹک اور کیرالہ کی آبادی میں محض نو فیصد یا 2.9 کروڑ افراد کا اضافہ متوقع ہے۔
ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا میں حلقوں کی تعداد کا تعین ریاست کی آبادی کے تناسب سے ہوتا ہے۔ اگر آبادی میں کمی آتی ہے تو اس کا اثر ریاست کی سیاسی طاقت پر بھی پڑے گا۔ جن ریاستوں میں زیادہ حلقے ہوں گے وہ اپنے مطالبات منظور کروانے میں کامیاب ہوں گی۔
آندھرا پردیش میں اس وقت لوک سبھا کے 25 حلقے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2026 تک ان کی تعداد کم ہو کر 20 ہو جائے گی۔
پروفیسر سری نواس کہتے ہیں تلنگانہ میں یہ تعداد 17 سے کم ہو کر 15 تک جانے کا امکان ہے۔ تمل ناڈو میں یہ تعداد 39 سے، کیرالہ میں 28 سے 26 اور کرناٹک میں 20 سے 14 تک جانے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ ریاست کو ملنے والی فنڈنگ بھی متاثر ہوگی۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا اور کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے اسی معاملے پر اس سال فروری میں دہلی میں احتجاج کیا تھا۔
15ویں مالیاتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2021-22 میں آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، تمل ناڈو اور کیرالہ کو کم فنڈز موصول ہوئے۔ دوسری جانب اتر پردیش اور بہار کو ملنے والے فنڈز میں اضافہ ہوا ہے۔
کیا آبادی میں اضافہ اتنا آسان ہے؟
ایک زمانے میں انڈیا کی مرکزی حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی کی کئی سکیمیں نافذ کی تھیں جن پر آندھرا پردیش جیسی جنوبی انڈیا کی ریاستوں نے مؤثر طریقے سے عملدرآمد کیا تھا۔ اگر کسی شخص کے دو سے زیادہ بچے ہوتے وہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ تاہم، شمالی انڈیا میں یہ سکیمیں اتنے بھرپور طریقے سے نافذ نہیں کی گئیں جس کا فرق اب واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شرح پیدائش میں اضافہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
پروفیسر سری نواس کہتے ہیں کہ اکثر جوڑے اپنی مالی حالات اور کیریئر جیسی وجوہات کی وجہ سے ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں اور اس رجحان کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جو خواتین کام کرتی ہیں یا کاروبار کرتی ہیں وہ بچوں کو بھرپور وقت نہیں دے پاتیں۔ اس لیے مردوں کو بھی بچوں کی پرورش کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔ تب ہی خواتین زیادہ بچوں کو جنم دے سکیں گی۔
آبادی بڑھانے کا معیار زندگی پر اثر
ناگیشور کا خیال ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ معیارِ زندگی بہتر بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
’اگر معیاری تعلیم اور نوکریاں دستیاب ہوں تو آبادی بڑھانے میں کوئی حرج نہیں، امیر لوگوں کے لیے تین چار بچوں کی پرورش کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ انھیں تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں۔‘
ان کے مطابق غریب لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے ’سب سے اہم چیز بچوں کی تعلیم اور معیار زندگی ہے، حکمرانوں کو اس معاملے پر بھی غور کرنا چاہیے۔‘