ہمیں اپنے عقیدے کے ساتھ کھیلنے کا حق کیوں نہیں؟ مسلمان خاتون فٹبالر نے بین ہونے پر فٹ بال ایسوسی ایشن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا

image

"گریٹر لندن ویمنز فٹبال لیگ نے مجھے میرے مذہبی عقیدے کی وجہ سے کھیلنے سے روک دیا ہے، میں ٹریک سوٹ نہیں پہن سکتی اور اس وقت تک مجھے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ میں شارٹس پہننے پر راضی نہ ہو جاؤں۔"

یہ کہنا ہے کہ اقرا اسماعیل کا جو کہ ایک ماہر کھلاڑی اور کوچ ہیں، اقرا اپنے کلب "یونائیٹڈ ڈریگنز" کے لیے میدان میں آنے کے لیے تیار تھیں جب لیگ کے ریفری نے انہیں بتایا کہ وہ ٹریک سوٹ میں کھیل نہیں سکتیں۔ حیران اور دل برداشتہ اقرا نے بتایا کہ وہ پانچ سال سے اسی لیگ میں ٹریک سوٹ پہن کر کھیل رہی تھیں اور ہر سال لیگ نے ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بنائی گئی ویڈیو میں اقراء کا کہنا ہے کہ "لیگ نے اس سال تو حد ہی کر دی، یہ کہہ کر مجھے کھیلنے سے روک دیا کہ میں اپنے عقائد پر سمجھوتہ کروں“

اس واقعے نے خواتین فٹبال میں تنوع اور شمولیت پر کئی سوالات کھڑے کر دیے۔ فٹبال ایسوسی ایشن (ایف اے) نے اس معاملے کا فوری نوٹس لیا اور معافی مانگتے ہوئے اقرا کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ وہ ٹریک سوٹ پہن کر کھیل سکیں گی۔

ایف اے کے ترجمان نے مزید کہا، "ہمارا مقصد یہ ہے کہ فٹبال ہر کسی کے لیے قابلِ رسائی اور شمولیتی ہو۔ ہم نے تمام کاؤنٹی ایف ایز اور میچ ریفریوں کو ہدایت دی ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق لباس پہننے کی اجازت دی جائے۔"

یہ پہلا موقع نہیں جب اس نوعیت کا مسئلہ سامنے آیا ہو۔ اقرا نے کہا، "وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ خواتین فٹبال میں اقسام اور ہر کلچر کی خواتین کیوں نہیں ہیں؟ ایسی مشکلات ہی وجہ ہیں کہ میرے جیسے لوگ کھیل میں کم دکھائی دیتے ہیں۔"

اقرا کی اس کہانی نے بہت سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ خواتین کے کھیل میں ہر اقسام کے لوگوں کو ان کی آزادی کے ساتھ شامل کرنا کتنا ضروری ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US