سلمان اکرم راجہ اور ’غصے کی نئی فصل‘

بے اعتباری کے ماحول میں راجہ صاحب اپنے دوسرے پارٹی لیڈر پر برس پڑے تو لوگ انھیں اس اس طرح کے مشورے دینا شروع ہو گئے کہ یہ لہجہ انھیں زیب نہیں دیتا۔ پڑھیے محمد حنیف کی تحریر

سلمان اکرم راجہ اگرچہ سیاست میں نووارد ہیں لیکن ہر روز شام کو ٹی وی پر سیاسی مباحثہ دیکھنے والے ان سے کافی عرصے سے واقف ہیں۔ قانون دان اور آئینی امور کے ماہر ہیں لیکن ان کی مہارت سے زیادہ ان کا دھیما لہجہ لوگوں کو بھاتا تھا۔

ٹی وی ٹاک شوز کے شور و غل میں جہاں لگتا ہے کہ زیادہ تر اینکر اور ان کے مہمان ٹی وی پر آنے سے پہلے جان بوجھ کر اپنے بلڈ پریشر کو کم کرنے کی دوائی نہیں کھاتے، راجہ صاحب شستہ اردو میں، شائستہ لہجے میں بات کرتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے کسی ٹاک شو میں نہیں آئے بلکہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں بیٹھے کسی نئے افسانے پر ادبی گفتگو کر رہے ہیں۔

پھر وہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل بنے لیکن تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پی ٹی آئی کے جو نقاد کہتے تھے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں نے پاکستانی سیاست کی زبان خراب کردی ہے، وہ بھی حیران تھے کہ ایسا ٹھنڈا میٹھا انسان ان جوشیلوں، غصیلوں کی قیادت کیسے کرے گا۔

سلمان اکرم راجہ پہلے حادثاتی سیاستدان نہیں ہیں۔ چونکہ پاکستانی سیاستدانوں کو وزیراعظم اور صدر بنتے ہی جیلوں میں رہنا پڑتا ہے جہاں ان کا زیادہ تر رابطہ صرف اپنے وکیلوں سے ہی رہتا ہے تو جس نے بھی کبھی آصف علی زرداری، نواز شریف یا عمران خان کی وکالت کی ہے وہ ان کی جماعت میں جگہ بھی بنا لیتے ہیں، اعلیٰ عہدے بھی پاتے ہیں۔

لطیف کھوسہ، فاروق نائیک، بابر اعوان اور اب سلمان اکرم راجہ اپنے مؤکلوں کے برے دنوں کے ساتھی ہیں۔ اس لیے سیاست میں آجاتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔

ویسے بھی چونکہ ہمارے سیاسی لیڈروں کی قسمت کا فیصلہ الیکشن سے زیادہ بند کمروں میں یا اعلیٰ عدالتوں میں ہوتا ہے، اس لیے ہر سیاستدان کو ایک قابل وکیل کی ضرورت رہتی ہے۔

تو اب ایک قابل وکیل ملک کی سب سے بڑی، الیکشن جیتی ہوئی لیکن اپنا لیڈر ہاری ہوئی، پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔

مزید خبروں کے لیے بی بی سی اردو کے واٹس ایپ چینل کا رُخ کریں!

عمران خان
Getty Images
’عمران خان کی قید کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ 10 سلمان اکرم راجہ اور 20 گنڈا پور بھی ہوں تو پورا نہیں کر سکتے‘

عمران خان کی قید کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ 10 سلمان اکرم راجہ اور 20 گنڈا پور بھی ہوں تو پورا نہیں کر سکتے۔

جیل کے سیل میں بیٹھے عمران خان کے احکامات کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال کر پی ٹی آئی کے کارکنوں تک پہنچانے کی کوشش سب کرتے ہیں۔

اس بے اعتباری کے ماحول میں راجہ صاحب اپنے دوسرے پارٹی لیڈر پر برس پڑے تو لوگ انھیں اس اس طرح کے مشورے دینا شروع ہو گئے کہ یہ لہجہ انھیں زیب نہیں دیتا۔

اُن کی حالت اس نواب جیسی ہو گئی جن کو کبھی خود بازار نہیں جانا پڑتا اور اگر کبھی عامیوں سے واسطہ پڑے تو انھیں ہر کوئی اٹھائی گیرا لگتا ہے اور وہ ان ہی کی زبان میں بات کر کے اپنا رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کو دیکھ کر ہائبرڈ نظام کے جاری و ساری رہنے کی ایک جھلک بھی نظر آتی ہے۔ فوج کے تربیتی اداروں میں کسی زمانے میں سویلین استاد بھی ہوتے تھے۔ ان کے پاس اختیارات تو فوجی افسران والے ہوتے تھے لیکن نہ دبدبہ نہ رعب۔ ان کے منہ پر سلیوٹ مار کر پیٹھ پیچھے رنگروٹ ان پر ہنستے تھے۔

ان تربیتی اداروں میں معمولی سی غلطی پر ڈنڈ بیٹھکوں کی سزا دینا عام سی بات ہے۔ بلکہ اکثر غلطی کے سرزد ہونے سے پہلے ہی سزادی جاتی تاکہ فوجی دماغ عین جنگ کے بیچ سوال کرنے نہ بیٹھ جائے۔

راجہ صاحب کی طبیعت کے ایک استاد رنگروٹ کو اسی طرح سزا سناتے تھے کہ میاں اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو ذرا 10 ڈنڈ پیل دیجئے۔ ارے نہیں نہیں دھوپ میں نہیں سائے میں۔

سلمان اکرم راجہ کو بھی اتنا ادراک تو ہوگا کہ پارٹی کے اندر اور باہر ان سے کوئی نہیں ڈرتا چاہے وہ کتنے ہی درشت لہجے میں بات کر لیں۔

عمران خان
Getty Images
’جس نے بھی کبھی آصف علی زرداری، نواز شریف یا عمران خان کی وکالت کی ہے وہ ان کی جماعت میں جگہ بھی بنا لیتے ہیں‘

لیکن ان کا غصہ ریاست میں پھیلتی فرسٹریشن کی ایک جھلک ہے۔

جس ریاست میں ایک مقبول سیاسی رہنما کو جیل میں رکھنے کے لیے اس طرح کے جرم ثابت کرنے پڑیں کہ اس نے شادی میں جلدی کیوں کی، جہاں پر گورننس کے مسئلے حل کرنے کے لیے ساجد نوار جیسے موٹر سائیکل سوار کو گرفتار کر کے کیمرہ پر معافی منگوائی جائے، جہاں بلوچستان میں امن قائم کرنے کے لیے بیبو بلوچ اور ان کے والد کو ایک ہی جیل میں قید کر دیا جانے، وہاں آپ گلا پھاڑ کر اپنی پارٹی پر ہی چیخیں تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جن کے پاس اصل طاقت ہے انھیں آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ تو وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ معاشرے میں غصے کی جو نئی فصل تیار کھڑی ہے، اس کی کٹائی کا موسم کب آئے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts