نصیرالدین شاہ بالی وڈ کے تجربہ کار اداکار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مگر اپنی اداکاری کے علاوہ وہ انڈین معاشرے، سیاست اور سینیما پر تبصروں کی وجہ سے بھی خبروں میں رہتے ہیں۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نصیر کو اپنی پہلی فلم ایک دوست کی سفارش پر ملی تھینصیرالدین شاہ بالی وڈ کے تجربہ کار اداکار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مگر اپنی اداکاری کے علاوہ وہ انڈین معاشرے، سیاست اور سینیما پر تبصروں کی وجہ سے بھی خبروں میں رہتے ہیں۔
فلمی دنیا میں جہاں لوگ محتاط انداز میں بات کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں تو وہیں نصیرالدین شاہ اپنے دل کی بات صاف گوئی سے کہتے ہیں۔ رواں سال 20 جولائی کو ان کی عمر 75 سال ہو گئی۔
انھوں نے سینیما کی دنیا کو 50 سال دیے ہیں۔ 1975 میں جب نصیرالدین شاہ کی پہلی فلم نشاط ریلیز ہوئی تو وہ خوش ہونے کی بجائے اداس تھے۔
انھوں نے انڈیا کے سرکاری چینل دوردرشن میں انگریزی اور ہندی نیوز ریڈر کی نوکری کی درخواست دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اسی دوران ان کی ساتھی اداکارہ سمیتا پاٹل دوردرشن پر مراٹھی خبریں پڑھ کر شہرت حاصل کر رہی تھیں۔
بارہ بنکی میں پیدا ہونے والے نصیرالدین شاہ کا اپنے والد سے کبھی اچھا تعلق نہیں رہا۔ دیگر والدین کی طرح ان کے والد بھی چاہتے تھے کہ نصیر ایک اچھا اور روایتی کیریئر اپنائیں۔
اپنی سوانح عمری ’اینڈ دین ون ڈے‘ میں نصیرالدین شاہ نے لکھا کہ 'میرے والد ایک انگریز کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ سردھانہ جیسے قصبے میں بھی وہ ٹوپی کے بغیر باہر نہیں نکلتے تھے۔ وہ ہمیں بہترین تعلیم دینا چاہتے تھے جو پیسوں سے مل سکتی تھی۔‘
’وہ اچھی انگریزی کے ساتھ پشتو اور فارسی بھی بولتے تھے۔ لیکن انھوں نے ہمیں کبھی پشتو یا فارسی سکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔‘
نصیر اپنی ماں کا اپنے والد سے زیادہ احترام کرتے تھے۔ ان کی ماں کا مزاج مشہور تھا اور ان کے والد بھی ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ نصیر نے اپنی ماں کے بارے میں لکھا کہ ’جب میرے والد سے میرا رابطہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تو میری ماں نے میرا ساتھ دیا۔‘
انھوں نے اپنی ماں کے ساتھ تعلق کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’جب مجھے پدما ایوارڈ سے نوازا گیا، میں انھیں اپنے ساتھ راشٹرپتی بھون (صدارتی محل) لے گیا۔ میری الماری میں اب بھی ان کا ایک دوپٹہ ہے جس میں ان کی خوشبو باقی ہے۔ میری زندگی کا سب سے پرسکون لمحہ وہ تھا جب وہ اپنے دوپٹے کے ایک کونے کو اپنی سانس سے گرم کرتیں اور میری پلکوں پر رکھتیں۔‘
پروین مراد سے شادی اور علیحدگی
علی گڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم نصیر کی ملاقات پروین مراد سے ہوئی جو ایک پاکستانی شہری تھیں اور طب کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ اس وقت 19 سالہ نصیر نے اپنے سے 15 سال بڑی پروین سے شادی کر لی۔
نصیر لکھتے ہیں کہ ’وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھیں لیکن ان کا لباس کا انداز مجھے متوجہ کرتا تھا۔ وہ بہت ہنستی تھیں۔ علی گڑھ کے لوگ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرنے میں لطف لیتے تھے۔ جب ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر باہر جاتے تو لوگ سرگوشیاں شروع کر دیتے۔ ہم نے یکم نومبر 1969 کو خاموشی سے شادی کر لی۔ جب میرے والد کو کئی دنوں بعد اس کا علم ہوا تو انھوں نے ایک خط لکھا اور مجھے سادہ لوح بیوقوف کہا۔‘
دلی کے نیشنل سکول آف ڈرامہ میں داخلے کے بعد نصیر کا رابطہ سکول کے ڈائریکٹر الکازی سے ہوا۔ الکازی کو نصیر کا اداکاری پڑھنا پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ نصیر ہدایت کاری کی طرف جائیں۔
الکازی کی شخصیت کے کئی پہلوؤں نے نصیر پر گہرا اثر ڈالا۔ نصیر نے لکھا کہ ’وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز پر نظر رکھتے تھے۔ ڈائریکٹر ہونے کے باوجود ان کی توجہ ہمیشہ باتھ روم کی صفائی پر ہوتی تھی۔ وہ اکثر خود باتھ روم صاف کرتے نظر آتے تھے۔‘
اس دوران نصیر کی بیٹی حبا پیدا ہوئی۔ نصیر نے اپنی سوانح عمری میں اعتراف کیا کہ وہ اپنی بیٹی سے حسد کرنے لگے۔ انھیں یہ بات تکلیف دینے لگی کہ وہ اب پروین کی زندگی میں سب سے اہم شخص نہیں رہے۔
پروین سے ان کی دلچسپی کم ہونے لگی۔ دہلی سے علی گڑھ کے ہفتہ وار دورے ماہانہ ہونے لگے اور پھر آہستہ آہستہ بند ہو گئے۔ پروین نے پہلے انگلینڈ اور پھر ایران میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
نصیرالدین شاہ کی دوسری شادی 1983 میں اداکارہ رتنا پاٹھک سے ہوئیپہلی فلم سفارش پر ملنے سے ’عظیم اداکار‘ بننے تک
نیشنل سکول آف ڈرامہ کے بعد نصیر نے پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ میں اداکاری کی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بھائیوں ظہیر اور ضمیر نے ان کی تعلیم کے لیے پیسے بھیجنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کی۔ دونوں شادی شدہ ہونے اور ماہانہ صرف 600 روپے کمانے کے باوجود نصیر کو باقاعدگی سے 100 روپے بھیجتے تھے۔
شیام بینگل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے اپنے دوست اور پونے فلم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر گریش کرناد سے پوچھا کہ کیا وہ کسی اچھے اداکار کو جانتے ہیں جو اس سال گریجویٹ ہونے والا ہو؟ کرناد نے مجھے بتایا کہ ایک لڑکا ہے، نصیرالدین شاہ۔ وہ مجھے تنگ کرتا رہتا ہے لیکن وہ بہت اچھا اداکار ہے۔ اس طرح میں نے نصیر کو نشاط کے لیے سائن کیا۔‘
نصیر نے اپنی سوانح عمری میں بتایا کہ اس فلم کے لیے انھیں 10,000 روپے ملے۔
نصیرالدین شاہ لکھتے ہیں کہ ’فلم ریلیز ہونے کے چھ ماہ بعد میرے والد نے مسوری کے مال کے قریب فلم کے پوسٹر پر میرا نام دیکھا۔ وہ سیدھے ریئلٹو ٹاکیز گئے اور میری فلم دیکھی۔ گھر واپس آنے کے بعد وہ بہت خوش تھے اور انھوں نے میری ماں کو میری اداکاری کے بارے میں بتایا۔‘
’ماں ناراض ہوئیں کہ وہ اکیلے فلم دیکھنے کیوں گئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بھی فلم دیکھیں گی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے بابا نے اپنی زندگی میں پہلی بار دوبارہ فلم دیکھی۔ انھوں نے مجھے ایک طویل خط لکھا اور بتایا کہ میرا نام سکرین پر دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔‘
اس کے بعد نصیر کی فلمیں ایک کے بعد ایک پذیرائی حاصل کرنے لگیں۔ پہلے منتھن آئی جس کے لیے گجرات کوآپریٹو ملک فیڈریشن کے پانچ لاکھ ممبران نے دو، دو روپے چندہ دیا اور فلم کے لیے 10 لاکھ روپے جمع کیے۔ یہ فلم بمبئی کے سینیما گھروں میں 10 ہفتوں تک ہاؤس فل رہی۔
اس کے بعد نصیر نے بھومیکا، کتھا، سپرش، البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے، منڈی، جنون، امراؤ جان، پار، کھنڈھر اور آکروش جیسی کئی فلموں میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔
1983 کی فلم معصوم میں نصیر کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ فلم کے ڈائریکٹر شیکھر کپور نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ایک فلم ساز کے طور پر میری زندگی کا سب سے بڑا افسوس یہ ہے کہ میں نے معصوم کے بعد نصیر کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا۔ اس فلم میں ان کی اداکاری اتنی تازہ ہے کہ لگتا ہے جیسے فلم کل بنائی گئی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انڈین سینیما کے عظیم اداکاروں میں سے ایک ہیں۔‘
پہلگام حملے کے بعد متنازع بیان
نصیرالدین شاہ ہالی ووڈ اداکار سپینسر ٹریسی سے بہت متاثر تھے۔ اپنے کیریئر کے شروع میں نصیر نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس نہ تو کسی فلم سٹار کا کرشمہ تھا اور نہ ہی شکل و صورت۔ ایک عام ہندی فلم اداکار کی طرح ان کی رقص کی صلاحیت بھی محدود تھی۔
انھوں نے اپنی ابتدائی جوانی شمی کپور کی نقل اتارنے میں گزاری لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ دل دے کے دیکھو کی طرح کبھی رقص نہیں کر سکتے۔ جب انھوں نے ہیمنگوے کے ناول پر مبنی انگریزی فلم ’اولڈ مین اینڈ دی سی‘ دیکھی تو انھوں نے سوچا کہ اگر سپینسر ٹریسی جیسا عام شکل و صورت کا اداکار شاندار سکرین موجودگی دکھا سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں۔
نصیرالدین شاہ کبھی اپنے خیالات کھل کر بیان کرنے سے نہیں ہچکچائے۔ حال ہی میں جب پہلگام واقعے کے بعد اداکار دلجیت دوسانجھ کے پاکستانی اداکارہ کے ساتھ کام کرنے پر سوالات اٹھائے گئے تو نصیر نے دلجیت کا دفاع کیا۔ انھوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’میں دلجیت کے ساتھ کھڑا ہوں۔ دلجیت اس فلم کے کاسٹنگ کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ فلم کے ڈائریکٹر ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ فلم کا ڈائریکٹر کون ہے، جبکہ سب کو دلجیت کا پتا ہے۔‘
بعد میں دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے اپنی پوسٹ ہٹائی۔ لیکن نصیر نے کہا کہ ان کی پوسٹ فیس بک نے ہٹائی اور وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔
سی اے اے-این آر سی تنازع کے دوران انھوں نے اپنے ساتھی اداکار انوپم کھیر کو ’جوکر‘ کہا جس پر بہت ہنگامہ ہوا۔ اپنے الفاظ واپس لینے کی بجائے انھوں نے دوبارہ کہا کہ انوپم کھیر کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
نصیر نے نام نہاد ’لو جہاد‘ کو معاشرے میں تقسیم کا معاملہ قرار دیا۔ 2016 کے ایک انٹرویو میں انھوں نے راجیش کھنہ کو خراب اداکار کہا اور کہا کہ وہ انڈین سینیما کا معیار گرانے کے ذمہ دار تھے۔
’فلم ایوارڈ کی کوئی اہمیت نہیں‘
نصیرالدین شاہ نے کمرشل فلموں میں بھی ہاتھ آزمایا۔ ان میں سے ایک یادگار فلم 1989 کی تری دیو تھی۔ جب انھوں نے ’ترچھی ٹوپی والے‘ نامی گانے میں ’اوئے اوئے‘ کی صدائیں لگائیں تو کئی فلم ناقدین حیران رہ گئے۔
2011 کی فلم ڈرٹی پکچر میں انھوں نے ودیا بالن کے ساتھ ’او لا لا‘ پر رقص کر کے بہت سے لوگوں کو حیران کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے چمکدار، موہرا، چائنا گیٹ اور ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ جیسی کمرشل فلموں میں بھی کام کیا۔
لیکن کمرشل فلموں میں حقیقت پسندانہ اداکاری دینے کی ان کی کوششیں نہ تو مناسب سمجھی گئیں اور نہ ہی سراہی گئیں۔ ایک ڈائریکٹر نے ان سے صاف کہا کہ ’نصیر جی، یہ آرٹ فلم نہیں ہے۔ یہاں اداکاری کرنی پڑتی ہے۔‘
نصیرالدین شاہ کی دوسری شادی 1983 میں اداکارہ رتنا پاٹھک سے ہوئی۔ انھیں پدما شری اور پدما بھوشن سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پار، سپرش اور اقبال میں بہترین اداکاری کے لیے تین نیشنل ایوارڈز حاصل کیے۔ انھیں آکروش، چکر اور معصوم نامی فلموں میں اداکاری کے لیے تین فلم فیئر ایوارڈز بھی ملے۔
صاف گوئی کے لیے مشہور نصیر نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ وہ ان ایوارڈز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور نہ ہی ان پر فخر کرتے ہیں۔ جب انھوں نے اپنا فارم ہاؤس بنایا تو انھوں نے فلم فیئر ایوارڈ کو اپنے واش روم کے دروازے کے ہینڈل کے طور پر استعمال کیا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں زیادہ تر ایوارڈز ’سفارش یا لابنگ کے ذریعے ملتے ہیں، اس لیے میں انھیں زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔‘