برطانیہ ہجرت کرنے کے خواہش مند افراد اب صرف کشتیوں یا غیرقانونی راستوں سے نہیں آ رہے, بلکہ بعض لوگ برطانوی ویزا سسٹم کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، مکمل جعلی دستاویزات کے ذریعے کامیابی سے برطانیہ پہنچ رہے ہیں۔ ان میں پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو لاکھوں روپے خرچ کر کے ایسی دستاویزات تیار کروا رہے ہیں جو بظاہر جائز نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت ان میں جھوٹ، غلط بیانی اور جعلسازی شامل ہوتی ہے۔
جعلی دستاویزات اور 50 ہزار پاؤنڈ کا ویزا
برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال پاکستانیوں کی جانب سے پناہ حاصل کرنے کی 10,542 درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ پاکستانی شہری برطانوی ویزے کے لیے 50 ہزار پاؤنڈ تک ادا کر رہے ہیں، اور برطانیہ کا ہوم آفس ان درخواستوں کو اکثر بغیر سخت چھان بین کے منظور کر رہا ہے۔ ان میں ایسی درخواستیں بھی شامل ہیں جن میں فرضی ہسپتالوں کے بنائے گئے جعلی تجربہ کے سرٹیفکیٹ شامل ہوتے ہیں، جن میں زبان کی بنیادی غلطیاں بھی واضح ہوتی ہیں۔
سید کامران حیدر کون ہے؟
برطانوی اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس فراڈ کا مرکزی کردار مبینہ طور پر"سید کامران حیدر" ہے، جو آزاد کشمیر کے علاقے میرپور میں "میرپور ویزا کنسلٹنٹس (MVC)" کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کھلے عام اپنے جعلی ویزا سروسز کی تشہیر کرتے ہیں اور برطانیہ کے امیگریشن سسٹم کی کمزوریوں کو ظاہر کر کے برطانیہ میں"آسان داخلہ" کی امید دلاتے ہیں۔
برطانوی اخبار کے رپورٹر نے خود کو ایک ویزا امیدوار ظاہر کر کے ان سے رابطہ کیا، جس پر مبینہ طور پر سید کامران حیدر نے دعویٰ کیا کہ ان کے طریقہ کار سے برطانیہ میں داخلے کا امکان 98 فیصد ہے اور تین ماہ کے اندر کامیابی ممکن ہے۔
جعلی سی وی، جعلی بینک اسٹیٹمنٹ اور فرضی تجربہ
دی ٹیلی گراف نے ایم وی سی کی جانب سے تیار کردہ ایک جعلی ویزا درخواست کی تفصیلات حاصل کیں، جس میں فرضی "ریاض انٹرنیشنل ہسپتال" میرپور کے نام سے ملازمت کا تجربہ دکھایا گیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ امیدوار نے مارچ 2019 سے مئی 2020 تک نرسنگ کیئر اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ خط میں گرامر کی سنگین غلطیاں بھی تھیں.
ڈاکٹر ریاض احمد، جو اصل ریاض ہسپتال کے سی ای او ہیں، نے اس خط کو مکمل طور پر جعلی قرار دیا اور کہا کہ نہ اس پر اصل مہر تھی اور نہ دستخط مستند تھے۔
ویزا کی منظوری اور برطانیہ میں داخلہ
اسی جعلی تجربہ سرٹیفکیٹ، فرضی سی وی، اور میرپور سے بنائے گئے جعلی بینک اسٹیٹمنٹ کی بنیاد پر اس امیدوار کو 2023 میں برطانیہ کا "اسکلڈ ورکر ویزا" مل گیا، اور رپورٹ کے مطابق، وہ اب بھی برطانیہ میں مقیم ہے۔
پناہ گزینی کے قوانین میں چالاکی
عام طور پر پناہ کی درخواست دینے والوں کو برطانیہ میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک ان کی درخواست منظور نہ ہو، اور اس عمل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی شخص پہلے ورک ویزا پر آتا ہے اور اس کے بعد پناہ کی درخواست دیتا ہے، تو وہ قانونی طور پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔
برطانیہ میں مقیم امیگریشن وکیل ہرجاپ بھنگل نے کہا: "اگر آپ پناہ کی درخواست اپنے ویزا کے ختم ہونے سے پہلے دے دیں تو آپ کام کر سکتے ہیں۔ ہوم آفس ایک تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ کہاں کہاں کمزوریاں موجود ہیں۔"
فیسوں کا جال اور منافع بخش کاروبار
رپورٹ کے مطابق ایم وی سی جعلی دستاویزات کے لیے الگ الگ فیسیں چارج کرتا ہے۔ مثلاً یوکے ورک ویزا کی جعلی فائل کی فیس: £32,700 (تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ روپے), بلغاریہ ورک ویزا: £9,150, جعلی بینک اسٹیٹمنٹ: £2,615, فائل سازی کی فیس: £30, صرف مشورہ دینے والی ویڈیو کال: £15. اگر ویزا منظور نہ ہو تو یہ فیسیں واپس نہیں کی جاتیں۔
متبادل طریقے: طالبعلم ویزا کے ذریعے داخلہ
اگر کوئی شخص مبینہ ایجنٹ حیدر کی "مہنگی" فیس ادا نہیں کر سکتا تو اسے ایک اور راستہ بتایا جاتا ہے. طالبعلم ویزا، خصوصاً نرسنگ یا مڈوائفری کا کورس۔ اس کی فیس صرف £2,000 سے £2,500 ہوتی ہے اور IELTS کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ویڈیو میں کامران حیدر کہتا ہے “یہ لوگ وہاں جا کر اسے ورک پرمٹ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ملازمتیں کم از کم 23 پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے موجود ہیں۔”
خواب بیچنے کا کاروبار
وکیل ہرجاپ بھنگل نے کہا: “یہ مبینہ ایجنٹ لوگوں کو خواب بیچ رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ایک منظم دھوکہ ہے۔”
برطانوی حکومت کی نئی پابندیاں، لیکن کیا فائدہ؟
مئی میں برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا کہ اب صرف ڈگری یافتہ افراد ہی برطانیہ میں نوکری کے اہل ہوں گے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ہوم آفس کی اصلاح نہ ہو، ایسے قانون بھی دھوکہ دہی کو نہیں روک سکتے۔
گھر واپسی کا کوئی ارادہ نہیں
برطانوی اخبار کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بہت سے پاکستانی ایسے ویزے حاصل کرتے ہیں جن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے، لیکن برطانیہ پہنچنے کے بعد وہ یا تو پناہ مانگ لیتے ہیں یا پھر جعلی دعوے کر کے اپنا قیام طویل کر لیتے ہیں۔ ان میں وہ طلبا بھی شامل ہوتے ہیں جو یونیورسٹی نہیں جاتے، اور وہ لوگ بھی جو فرضی نرسنگ یا وزیٹر ویزوں پر آ کر کام شروع کر دیتے ہیں۔
ہجرت کیوں؟
برطانوی اخبار کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں شدید معاشی بحران، غربت، بے روزگاری اور بعض مذہبی اقلیتوں پر مظالم نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ CIA World Factbook کے مطابق، پاکستان کا فی کس جی ڈی پی صرف £3,970 ہے، جب کہ برطانیہ میں یہ £40,000 ہے, یعنی دس گنا زیادہ۔
برطانوی اخبار کی یہ رپورٹ نہ صرف برطانوی حکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ پاکستان کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔