سابق روسی صدر دمتری میدویدیف کی پوسٹس سے ناراض امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو ایٹمی آبدوزوں کو روس کے قریب تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو اب اس پر روس کیا ردعمل دے گا؟ کیا ہم روس اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعے کی راہ پر کھڑے ہیں؟
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ’ایک دھمکی دی گئی تھی اور یہ مناسب نہیں اس لیے مجھے بہت محتاط رہنا ہو گا‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے سابق روسی صدر دمتری میدویدیف کے ’اشتعال انگیز‘ بیانات کے جواب میں دو امریکی جوہری آبدوزوں کو ’مناسب خطوں میں پوزیشن سنبھالنے‘ کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ اقدام اس لیے اٹھایا کیونکہ ’یہ احمقانہ بیانات صرف الفاظ سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ان کے غیر ارادی نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ موقع نہیں آئے گا۔‘
صدر ٹرمپ نے یہ وضاحت نہیں دی کہ جوہری آبدوزوں کو کن مقامات پر تعینات کیا گیا۔
یوکرین میں جنگ بندی کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات اور روس پر نئی پابندیوں کے اعلانات کے ردعمل میں سابق روسی صدر دمتری میدویدیف حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر کئی مرتبہ تبصرے کر چکے ہیں۔
ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر امریکی صدر نے لکھا کہ ’سابق روسی صدر اور کونسل آف رشیئن فیڈریشن کے موجودہ ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات کی روشنی میں، میں نے دو جوہری آبدوزوں کو مناسب خطوں میں پوزیشن سنبھالنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔‘
پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں سابق روسی صدر نے لکھا تھا کہ ’ہر نیا امریکی الٹی میٹم خطرہ اور جنگ کی طرف ایک قدم ہے۔‘
میدویدیف نے حال ہی میں ٹرمپ کے ماسکو کو یوکرین کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہونے کے الٹی میٹم کے جواب میں امریکہ کو دھمکی بھی دی۔ امریکہ نے کہا تھا کہ روس اگر جنگ بندی پر راضی نہیں ہوتا تو اسے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس ہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی آبدوزوں کا بیڑا بھی ہے۔
امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ٹرتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں جوہری طاقت سے چلنے والی یا جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزوں کا ذکر کر رہے ہیں۔
امریکہ اور روس کے پاس جوہری توانائی سے لیس آبدوزوں کے بیڑے ہیںمجھے بہت محتاط رہنا ہو گا: ڈونلڈ ٹرمپ
بعد ازاں جمعہ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ’ایک دھمکی دی گئی تھی اور میرے خیال سے یہ مناسب نہیں، اس لیے مجھے بہت محتاط رہنا ہو گا۔‘
’میں یہ اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے کر رہا ہوں۔ روس کے ایک سابق صدر نے دھمکی دی تھی اور ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کرنے جا رہے ہیں۔‘
کریملن نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ٹرمپ کے بیانات کے بعد ماسکو کی سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے گراوٹ آئی۔
ٹرمپ اور میدویدیف حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
حالیہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو 8 اگست تک جنگ کے خاتمے کے لیے ایک نئی ڈیڈ لائن دی، جس پر عمل درآمد کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اس سے پہلے پیر کو ٹرمپ نے ’10 یا 12‘ دن کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔ جولائی کے شروع میں انھوں نے روس کو دھمکی دی تھی کہ اگر پوتن نے 50 دن میں جنگ ختم نہ کی تو اس کے تیل اور دیگر برآمدات پر سخت محصولات عائد کیے جائیں گے۔
میدویدیف سنہ 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے تھے۔ انھوں نے رواں ہفتے کے شروع میں ٹرمپ پر ’روس کے ساتھ الٹی میٹم گیم‘ کھیلنے کا الزام لگایا۔
’ہر نیا الٹی میٹم خطرہ‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں میدویدیف نے کہا کہ ’ہر نیا الٹی میٹم خطرہ اور جنگ کی طرف ایک قدم ہے۔‘
انھوں نے جولائی کے شروع میں ٹرمپ کے الٹی میٹم کو ’تھیٹریکل‘ یعنی ’ڈرامہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’روس کو ان کی پرواہ نہیں۔‘
جمعرات کو ٹیلی گرام پر لکھتے ہوئے میدویدیف نے ’مردہ ہاتھ‘ کے خطرے سے آگاہ کیا، جسے کچھ فوجی تجزیہ کاروں نے روس کی جانب سے انتقامی ایٹمی حملوں کے کنٹرول سسٹم کے کوڈ نام کا حوالہ قرار دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے میدویدیف کے تبصروں کا جواب دیا ہو۔ اس سے قبل جمعرات کو انھوں نے میدویدیف کو ’روس کے ناکام سابق صدر کے طور پر بیان کیا جو سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی صدر ہیں۔‘
ٹرمپ نے میدویدیف کو ’اپنی زبان پر قابو رکھنے‘ کے لیے بھی متنبہ کیا اور مزید کہا کہ ’وہ بہت خطرناک حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔‘
میدویدیف سنہ 2022 میں یوکرین پر شروع کیے جانے والے روسی حملے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور وہ مغرب کے کھلے عام نقاد ہیں۔
سٹیو روزنبرگ کا تجزیہ: کیا سوشل میڈیا پر جاری لڑائی جوہری کشیدگی کو جنم دے گی؟
میدویدیف سنہ 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے تھےکیا یہ تاریخ میں پہلی بار ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری لڑائی جوہری کشیدگی کو جنم دے؟
سابق روسی صدر دمتری میدویدیف کی پوسٹس سے ناراض امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو ایٹمی آبدوزوں کو روس کے قریب تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔
تو اب اس پر روس کیا ردعمل دے گا؟ کیا ہم روس اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعے کی راہ پر کھڑے ہیں؟ کیا کیوبا کے میزائل بحران جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے؟
روس سے آنے والے ابتدائی ردعمل کو دیکھتے ہوئے مجھے شک ہے کہ ایسا کچھ ہو گا۔
روسی خبر رساں اداروں نے ٹرمپ کے اعلان کو مسترد کر دیا۔
موسکوفسکی کومسومولیٹس اخبار سے بات کرتے ہوئے ایک دفاعی مبصر نے کہا کہ ٹرمپ ’صرف نخرے دکھا رہے ہیں۔‘
ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نے اخبار کو بتایا کہ آبدوزوں کے بارے میں امریکی صدر کا بیان ’بے معنی ہے اور انھیں ایسی باتوں سے لطف آتا ہے۔‘
اسی اخبار کو روسی سکیورٹی کے ایک ماہر نے بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ ٹرمپ نے آبدوزوں کے بارے میں کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔
کومسومولیٹس نے اس بارے میں بھی ذکر کیا کہ سنہ 2017 میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ شمالی کوریا کے لیے ایک وارننگ کے طور پر جزیرہ نما کوریا میں دو جوہری آبدوزیں بھیجیں گے۔
اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان سے ملاقات کی۔
تو کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اب آبدوز کی تعیناتی امریکہ روس سربراہی اجلاس کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے؟
میں اتنا آگے تک نہیں جاؤں گا۔
لیکن روسی حکام کی جانب سے آنے والا ردعمل دلچسپ ہے۔ میری اس تحریر کو لکھتے وقت تک کوئی ردعمل نہیں آیا تھا۔
نہ ہی کریملن اور نہ ہی روس کی وزارت خارجہ یا وزارت دفاع کی جانب سے۔
اور میں نے روسی جوہری آبدوزوں کے امریکہ کے قریب تعینات ہونے کے بارے میں بھی کوئی اعلان نہیں دیکھا۔
اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ماسکو ابھی تک صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے یا وہ اس پر ردعمل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
روسی میڈیا کی جانب سے سامنے آنے والا ردعمل بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ماسکو اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

ٹرمپ کئی روز سے سوشل میڈیا پر میدویدیف کے ساتھ جھگڑا کر رہے تھے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد میدویدیف نے مغرب مخالف سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے خاصی شہرت حاصل کی۔ ان میں سے زیادہ تر پوسٹس پر لوگوں نے توجہ نہیں دی کیونکہ انھیں اب کریملن کی آواز کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔
لیکن پھر اچانک انھیں امریکی صدر کی جانب سے نوٹس کیا گیا اور صرف نوٹس نہیں بلکہ وہ ٹرمپ کے اعصاب پر سوار ہو گئے۔
کسی سوشل میڈیا پوسٹ کو پسند نہ کرنا ایک الگ بات ہے۔ ہم سب ایسا کرتے ہیں لیکن اس کو اتنا ناپسند کرنا کہ آپ جوہری آبدوزوں کو تعینات کر دیں تو یہ حد سے زیادہ محسوس کرنا ہوتا ہے۔
تو ٹرمپ نے ایسا کیوں کیا؟
اس کی وضاحت ہمیں ٹرمپ کے نیوز میکس کے لیے انٹرویو میں ملتی ہے۔ انھوں نے انٹرویو میں کہا کہ ’میدویدیف نے کچھ ایسی چیزیں کہی ہیں، جو بہت بری ہیں۔ جب آپ نیوکلیئر کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو میری آنکھیں کھل جاتی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔‘
لیکن میدویدیف پر طویل عرصے سے سوشل میڈیا کے ذریعے جوہری دھمکیوں کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ نے میدویدیف کی حالیہ پوسٹس کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اسی کے مطابق ردعمل ظاہر کیا۔
اس کے پیچھے کوئی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے؟
کاروبار اور سیاست دونوں میں ٹرمپ کے کام کرنے کا انداز غیر متوقع محسوس ہوتا ہے، غیر متوقع فیصلے لینا جو حریفوں اور مخالفین کو بات چیت سے پہلے یا مذاکرات کے دوران توازن سے دور رکھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر جیسے یوکرین میں جنگ کا خاتمہ۔
اچانک آبدوز کی تعیناتی اس زمرے میں آسکتی ہے۔